تصوف اور نسخہ کیمیا


لاہور میں پچھلے دنوں جس تحقیقی ادارے کا افتتاح ہوا اس پر کچھ کنفیوژن سی پھیلی تھی۔ لوگ پوچھ رہے تھے کہ یہ حضرت ابو الحسن شاذلی کون ہیں، ان کا تصوف سے تعلق تو ظاہر ہے لیکن سائنس اور ٹکنالوجی سے ان کا کیا واسطہ بنتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ جب ہمارے اپنے ہاں ایک سے ایک بڑا قطب اور ولی اللہ پڑا ہے دور مراکش یا تیونس سے بزرگ درآمد کرنے کی کیا ضرورت پڑ گئی۔ آج کل درآمدات کی ویسے بھی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے جس کے سبب ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس جگمگا رہا ہے۔

تھوڑی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ موصوف کا تعلق تصوف کے علاوہ فن کیمیا گری سے بھی تھا۔ یہ وہ فن شریف ہے جس کے ذریعے لوگ عام دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ مطلب یہ کہ موصوف نرے بھنگ گھوٹنے والے صوفی نہیں تھے، میٹلر جی میں بھی درک رکھتے تھے۔ آج کل یہ فن زوال پذیر ہے اور اس کی جگہ دولت پیدا کرنے کی عامیانہ تدبیریں ایجاد ہو گئی ہیں۔ صوفیائے کرام اس قسم کے (اور دیگر کئی اقسام کے ) شوق رکھتے تھے۔ مولانا رومی نے بھی ایسے علوم کا ذکر کیا ہے۔ یعنی کیمیا، لیمیا، ہیمیا، سیمیا، ریمیا۔

معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ ادارہ ان مردہ فنون کو پھر سے زندہ کرنے اور ان کی مدد سے قومی معیشت کے مردہ بدن میں نئی روح پھونکنے (وزیر اعظم کے الفاظ میں اسے اوپر اٹھانے ) میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس کی تجربہ گاہوں میں یہ تحقیق ہوگی کہ شمس مغربی نام کے مہوس سے منسوب مشہور نسخے میں ”خون تیرہ“ سے کیا مراد ہے، الو کا خون یا ٹڈے کا۔ یہ مسئلہ حل ہو جائے تو ہمیں لوہے تانبے کو دھڑا دھڑ سونے میں تبدیل کرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔

پھر ہماری معیشت کو پر لگ جائیں گے اور ہم ٹانگیں پسار کر کھائیں گے، جیسے آج کل ہمارے شیخ بھائی کھاتے ہیں۔ عرب شیخ، شیخ رشید نہیں۔ شیخ رشید تو بڑی محنت سے رزق کماتے ہیں۔ لیکن وضع دار آدمی ہیں اور ایک ہی در سے مانگتے ہیں، در در کی ٹھوکریں نہیں کھاتے۔ شیخ رشید ایسے والے شیخ بھی نہیں جن کا ذکر داغ کرتے ہیں :

کب کسی در کی جبہ سائی کی۔ شیخ صاحب نماز کیا جانیں
شیخ صاحب جبہ سائی بھی خوب کرتے ہیں اور نماز بھی اکثر پڑھ لیتے ہیں۔

لاحول ولا قوۃ، بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ذکر ہو رہا تھا صوفی سائنس انسٹیٹیوٹ کی کیمیا گری کا، اور شیخ صاحب درمیان میں کود گئے۔ ہمیں کچھ کچھ شک پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں کیمیا گری کا سلسلہ چل ہی نکلا ہے۔ ایک ہفتے کے اندر معیشت میں انقلابی اٹھان بلا وجہ نہیں ہو سکتی۔

بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ۔ کچھ تو ہے، جس کی پردہ داری ہے

ممتاز حسین، چترال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ممتاز حسین، چترال

ممتاز حسین پاکستان کی علاقائی ثقافتوں اور زبانوں پر لکھتے ہیں ۔ پاکستان کے شمالی خطے کی تاریخ، ثقافت اور زبانوں پر ایک ویب سائٹ کا اہتمام کیے ہوئے ہے جس کا نام makraka.com ہے۔

mumtaz-hussain has 11 posts and counting.See all posts by mumtaz-hussain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments