پاکستان کی افغان حکمت عملی کیا ہے؟


وزیر اعظم عمران خان کے بعد اب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان کی صورت حال کو پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے اہم قرار دیا ہے۔ افغانستان سے امریکی و نیٹو افواج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والے حالات میں یہ تشویش بجا اور قابل غور ہے لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت یا ملک کی سیکورٹی اسٹبلشمنٹ نے اس خطرہ سے نمٹنے کے لئے کیا اقدامات کیے ہیں۔ اور قوم کو کس حد تک ان خطروں سے آگاہ کیا گیا ہے۔

افغانستان کے حوالے سے پاکستان کو جس صورت حال کا سامنا ہے، وہ ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کا ایک نیا طوفان برپا کر سکتی ہے۔ ایسے میں آرمی چیف کا یہ بیان کہ ملک کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جائے گا یا وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے بیانات میں تشویش کا اظہار حالات کی سنگینی کو سمجھنے کا محض ایک ذریعہ ہے۔ اس سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی اور ذمہ داریوں کی تقسیم اصل اور علیحدہ مسئلہ ہے۔ لیکن اس سے بھی پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے اہداف کیا ہیں۔ اگر پاکستان نے ابھی تک دہائیوں پرانی ’تزویراتی گہرائی‘ والی سوچ تبدیل نہیں کی تو یہ کیسے امید لگائی جا رہی ہے کہ امریکی و اتحادی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں جو پاور ویکیوم پیدا ہوگا، اس میں پاکستان ہی فائدہ میں رہے گا؟

سب سے ضروری بات یہ ہے کہ حکومت یا ملٹری اسٹبلشمنٹ نے ابھی تک قوم کو اس اہم مسئلہ پر اعتماد میں لینے کا کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔ حالانکہ اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد سیکورٹی کی پیدا ہونے والی نئی صورت حال میں عام شہری ہی حکومت اور فوج کے صف اول کے سپاہی ہوں گے۔ یوں بھی کسی بھی بحران سے اسی وقت نمٹا جاسکتا ہے جب عام لوگوں کو حقیقی صورت حال کا علم ہو۔ اندیشوں و خطرات کے مبہم اشاروں کی بجائے دوٹوک الفاظ میں انہیں بتایا جائے کہ پاکستان کو ہمسایہ ملک کی صورت حال سے کن خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے اور حکومت اس سے نمٹنے کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس پالیسی میں عوام کا کردار کیا ہوگا اور انہیں قومی سلامتی کے حوالے سے کن پہلوؤں سے ہوشیار و چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

یہ امید کرنا تو سب کے فائدے میں ہے کہ امریکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی تو وہاں امن قائم ہو جائے گا اور طالبان کے علاوہ باقی سب گروہ اپنے مسلح جتھوں کو ختم کر کے ایک افغان فوج قائم کریں گے اور سیاسی عمل کے ذریعے ملک میں حکومت قائم ہوگی۔ باہمی اختلافات کے باوجود سب عناصر مل کر کام کرنے اور امن قائم رکھنے کے لیے مستعد و ہوشیار ہوں گے۔ لیکن اس خواب کی تعبیر کیسے ممکن ہوگی؟

افغانستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے امن کی امید تو کی جا سکتی ہے لیکن اس امید کے بر آنے کے آثار موجود نہیں ہیں۔ امریکہ طالبان کے ساتھ ہونے والے جس معاہدے کے تحت افغانستان چھوڑ رہا ہے، اسی میں یہ طے ہوا تھا کہ بین الافغان مذاکرات میں مستقبل کے سیاسی حکومتی نظام کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ ہوئے پندرہ ماہ بیت چکے ہیں لیکن ابھی تک بین الافغان مذاکرات کسی نتیجہ پر نہیں پہنچے۔ فی الوقت تو یہ تعطل کا شکار ہیں لیکن جس مدت کے دوران فریقین یعنی افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت اور طالبان کی قیادت نے بات چیت کی کوشش کر رہی تھی تو بھی غیر ضروری امور پر کھینچا تانی تک ہی معاملہ محدود رہا تھا۔ اس اہم ترین سوال پر کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی کہ امریکی افواج نکل جانے کے بعد ملک کے سب فریق کیسی عبوری حکومت پر متفق ہوں گے اور اس کے لئے کون سی آئینی بنیاد فراہم ہوگی۔

سابق امریکی صدر ٹرمپ کو طالبان سے معاہدہ کرنے کی جلدی تھی تاکہ وہ جلد از جلد افغانستان سے امریکی فوجوں کو نکال سکے۔ اس جلدی میں طالبان سے کوئی بھی ایسی بات منوانے کی کوشش نہیں کی گئی جو افغانستان میں پائیدار امن کے لئے اہم ہوتی۔ مثال کے طور پر ایک طرف طالبان امریکہ کے ساتھ مذاکرات کر کے اسے یقین دلا رہے تھے کہ وہ افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے تو دوسری طرف وہ بدستور افغان سیکورٹی فورسز کے علاوہ سول اہداف کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے تھے۔ انہوں نے اپنے عمل اور معاہدہ کے ذریعے یہ واضح کیا کہ وہ امریکہ سے صرف اس اصول پر بات چیت کر رہے تھے کہ غیر ملکی فوجوں کو ملک سے نکالا جائے تاکہ افغان عوام خود اپنے ملک میں آزادی اور خود مختاری سے زندہ رہ سکیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی طالبان ملک کے موجودہ آئین اور طریقہ حکومت کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ وہ افغانستان پر بلا شرکت غیرے حکومت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور 2001 میں امریکی حملوں سے پہلے کی صورت حال بحال کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی طالبان کی نگرانی میں ملک میں شرعی حکومت قائم کی جائے گی۔ طالبان کی ساری حکمت عملی یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے ترتیب دی گئی ہے۔

اشرف غنی اور اس کی حکومت کو طالبان کی اسی یک طرفہ منصوبہ بندی سے خوف ہے۔ وہ کسی صورت طالبان کو تن تنہا کابل پر حکمرانی کا حق نہیں دینا چاہتے۔ اسی گتھی کو سلجھانے کے لئے بین الافغان مذاکرات کی کامیابی ضروری ہے۔ اس عمل میں پاکستان کے علاوہ امریکہ، چین، ترکی اور دیگر ممالک بھی ملوث ہیں لیکن اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کا نام نہیں لے رہا۔ علاقے کو چھوڑتے ہوئے امریکہ کا مفاد صرف اس حد تک محدود ہوگا کہ ایسے دہشت گرد گروہ افغانستان میں مضبوط نہ ہو پائیں جو امریکہ یا اس کے مغربی حلیفوں پر نئے حملوں کی منصوبہ بندی کرسکیں۔ اسی مقصد سے پاکستان سے فضائی اور زمینی سہولتیں لینے کا معاہدہ کیا گیا ہے۔ امریکی وزارت دفاع نے سینیٹ کو پاکستان کے ساتھ ہونے والی اس ’افہام و تفہیم‘ کے بارے میں آگاہ کیا ہے لیکن اس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ یہ خبریں بھی سننے میں آئی ہیں کہ امریکہ اسی مقصد سے ترک فوجی دستوں کو دارالحکومت کابل کی اہم تنصیبات کی حفاظت کے لئے تعینات رکھنے کا خواہش مند ہے۔ امریکی نیوی سیلز کا ایک مضبوط دستہ کابل میں امریکی سفارت خانے کی حفاظت کے لئے افغانستان میں رکھنے کے اشارے بھی دیے گئے ہیں۔ بیرونی فوجوں کے انخلا کے بعد کابل کی حفاظت کے لئے دوسرے انتظامات کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔

ان انتظامات کا مقصد اشرف غنی کی حکومت کو محفوظ بنانا اور طالبان کو کابل پر قبضہ کرنے سے روکنا ہے۔ تاہم امریکہ سمیت تمام فریقین کو اس بات کا ادراک ہے کہ کابل کو بچانے کے جیسے بھی انتظامات کیے جائیں، یہ سب عارضی ثابت ہوں گے۔ بس یہ امید کی جا رہی ہے کہ اس مدت میں طالبان دیگر افغان اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کسی سیاسی معاہدے پر متفق ہوجائیں گے۔ اس حوالے سے دو پہلوؤں پر غور کرنا اہم ہوگا۔ ایک یہ کہ طالبان افغانستان میں اپنی عسکری پوزیشن کو مستحکم کر رہے ہیں اور وہ مزید علاقوں پر قبضہ کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ معاہدہ کے بعد ان کی سیاسی حیثیت بھی مضبوط ہوئی ہے۔ دوئم یہ کہ اس تصویر میں پاکستان کی پوزیشن کیا ہے۔ کیا پاکستان افغان طالبان کا پشت پناہ ہے اور ان کی کامیابی کو یقینی بنا کر افغانستان میں امن بحال کرنے کا خواہش مند ہے۔ یا وہ امریکی منصوبہ کے مطابق تمام فریقین کو اتفاق رائے پیدا کرنے پر آمادہ کرنے کا قائل ہے۔ اور طالبان کے شرعی نظام بحال کرنے کے دعوے کے مقابلے میں ایسے حکومتی نظام اور آئین کی حمایت کرتا ہے جس میں شہری آزادیوں اور خواتین کے حقوق کا تحفظ ممکن ہو۔

پاکستان کی طرف سے اس اہم سوال کا دو ٹوک جواب فراہم نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے اس کی پوزیشن کے بارے میں شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ امریکہ افغانستان چھوڑنے کے لئے پاکستان کا تعاون چاہتا ہے، اس لئے وہ کھل کر اس پاکستانی رویہ کے بارے میں پریشانی کا اظہار نہیں کرتا لیکن اشرف غنی کی حکومت کو چونکہ اتحادی افواج کے بعد براہ راست طالبان سے عسکری اور سیاسی طور سے نمٹنا ہے، اس لئے وہ انٹرویوز اور بیانات میں پاکستانی کردار پر کھل کر تنقید کرتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان طالبان کی سرپرستی کر کے افغانستان میں امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ پاکستان معمول کے سفارتی بیان کے ذریعے ان الزامات کو مسترد کرتا ہے اور انہیں قیام امن میں رکاوٹ بھی کہتا ہے لیکن اس اہم سوال پر اپنی پوزیشن واضح نہیں کرتا۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ افغان طالبان بھی افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد وہاں کی نگرانی کے لئے امریکی سرگرمیوں میں پاکستان کی شراکت داری پر برہم ہیں۔ امریکی سینیٹ میں پاکستان سے زمینی و فضائی سہولتوں کی خبروں کے بعد پاکستان نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر امریکہ کو اڈے فراہم کر رہا ہے لیکن یہ تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے کہ پھر امریکہ کو زمینی و فضائی دسترس کی کون سی سہولتیں فراہم ہوں گی۔ انہی خبروں کی بازگشت میں افغان طالبان نے علاقے میں امریکی اڈوں و عسکری موجودگی کے بارے میں متنبہ کیا تھا۔ اس بیان میں پاکستان کا نام نہیں لیا گیا لیکن اس کا مخاطب بلاشبہ پاکستان ہی تھا۔ افغان طالبان نے پاک فوج کے ساتھ مراسم کی طویل تاریخ میں پہلی بار پاکستان کو براہ راست دھمکی دی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر پاکستان نے کسی بھی سطح پر اس کے خلاف کوئی رد عمل نہیں دیا۔

پاکستان بیک وقت امریکہ اور طالبان کو مطمئن اور خوش نہیں کر سکتا۔ اسے اپنی سلامتی اور قومی مفادات کے مطابق لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ابہام دور کرنا ضروری ہے۔ اس تاثر کو ختم کرنا اہم ہے کہ پاکستان بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہونا چاہتا ہے۔ اس کا آسان اور دوٹوک طریقہ تو یہ ہے پارلیمنٹ میں اس معاملے پر پالیسی بیان دیا جائے اور پھر بحث کے بعد متفقہ قومی پالیسی تیار کی جائے۔ تاہم اس مقصد کے لئے حکومت کو ایک طرف افغانستان میں قیام امن اور طالبان کے ساتھ تعلقات کی سیاسی اونر شپ اپنے ہاتھوں میں لینا پڑے گی اور دوسرے اپوزیشن کے ساتھ تعصب اور دشمنی کا رشتہ ختم کر کے وسیع تر قومی مفاد و تحفظ کے لئے حکمت عملی ترتیب دینا پڑے گی۔ بدقسمتی تحریک انصاف کی قیادت یہ دونوں کام کرنے سے قاصر ہے۔

فی الوقت متوقع بجٹ منظور کروانے کے لئے قومی پیداوار میں اضافوں کے دعوؤں اور معاشی انحطاط کے الزامات سابقہ حکومتوں پر ڈالنے پر زور خطابت صرف کیا جا رہا ہے۔ ایسی کوتاہ نظر حکومت ملک و قوم کو درپیش خطرات کیسے بھانپ سکتی ہے؟ ایسے میں عمران خان اور شاہ محمود کی باتیں محض افسانے ہیں جن میں ان کا اپنا کوئی کردار نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments