میں نے شادی نہیں کرنی!


اکیسویں صدی سے تعلق رکھنے والی نوجوان نسل کا یہ ایک مرغوب جملہ ہے۔

اگر ہم اس کا انیس سو اسی یا انیس سو ساٹھ کی دہائی سے تعلق رکھنے والی نسل سے موازنہ کریں تو یہ ”میں نے شادی کرنی ہے“ سے ”میری شادی کرو“ میں تبدیل ہوتا چلا جائے گا۔

تین نسلوں کے درمیان ایک ہی سماجی عمل پر تین متضاد رویے بدلتی اقدار، تقاضوں اور خواہشات کی نشاندہی کرتے ہیں جن میں قرآن کریم کے حکم غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔

میں نے شادی نہیں کرنی کے پیچھے مختلف محرکات ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے۔

بہت سے نوجوانوں کو شادی کے لئے جو آپشن والدین کی جانب سے ملتی ہے وہ ان کے خوابوں اور خواہشوں کی نمائندگی نہیں کرتی۔

بہت سے نوجوانوں کی پسند کو والدین قبول کرنے سے انکاری ہوتے ہیں۔ اس خدشے یا کھلے انکار کی وجہ سے ”میں نے شادی ہی نہیں کرنی“ سب سے منطقی رویہ اور ردعمل معلوم ہوتا ہے۔

معاشی حوالے سے آج کی دنیا پچھلے زمانوں سے کئی گنا زیادہ ڈیمانڈنگ ہے۔ شادی کے بعد کے معاملات کو نبھانے کے لئے جتنی آمدن کی ضرورت ہے وہ شادی کی عمر میں ممکن نہیں۔ یہ تو ہوا لڑکوں کا المیہ۔ جبکہ لڑکیوں کو جس طرح کی زندگی چاہیے، جس کا خواب وہ ابلاغ کی فراوانی سے دیکھ یا بن چکیں، وہ بھی میسر آپشنز میں یا تو موجود نہیں یا ممکن۔ ایسے میں سب سے بہترین طریقہ میں نے شادی نہیں کرنی نہیں تو اور کیا ہے؟

اگر مسلسل اور متواتر والدین، خاندان، اور سوشل سرکل شادی کا سوال دہراتے رہیں تو صرف اتنا کہنا کافی نہیں رہتا کہ میں نے شادی نہیں کرنی۔ حکمت عملی کو تبدیل کرنا مجبوری بن جاتا ہے جس کے بعد ایسے مطالبے مددگار ثابت ہوتے ہیں جو ناقابل عمل یا ناقابل قبول ہوں اور میرے نزدیک ملالہ کے تبصرے کو اسی نظر سے دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے چونکہ یہ تبصرہ صرف ملالہ کا نہیں بلکہ اس کی عمر کے ہر دوسرے نوجوان کا ہے۔

ضروری نہیں ہوتا کہ ملالہ کو ہر وقت ایک ایسے آئیکون کے طور پر دیکھا جائے جو سفارتی اور سیاسی زبان میں عالمی، علاقائی اور ملکی سیاستی حساسیت کے درمیان کوئی ایسا جملہ اور بیانیہ ترتیب دے جس کا مقصد تنازعے سے بچنا اور کسی بامقصد نتیجے تک پہنچنا ہو۔ جیسے کہ غزہ کے حالیہ واقعات پر ہم نے دیکھا۔ ووگ جیسا میگزین سیاسی نہیں، نا ہی انٹرویو کی ٹون سیاسی تھی۔ انٹرویو کرنے والے کی پوری کوشش تھی کہ کینڈڈ انداز میں ملالہ کی ایسی تصویر سامنے لائی جائے جو انسانی ہو۔ اور بطور انسان ملالہ اس عمر میں ایسی ہی بات سوچتی ہو گی چونکہ ہر دوسرا نوجوان اسی طرح کے مخمصے اور نتیجے کا شکار نظر آتا ہے۔

جہاں تک پارٹنر کا تعلق ہے یہ پہلو بھی بڑا دلچسپ ہے۔ نکاح کا مذہبی ادارہ نکاح نامے یا دستخط کا محتاج نہیں۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے جتنے بھی نکاح فرمائے ان میں کسی ایک میں بھی کہیں کوئی دستخط نہیں فرمائے۔ چودہ سو سال تک مسلمانوں کا یہی وتیرہ تھا۔ پاکستان میں ایوب خان نے نکاح نامے کو لازم کیا جس کی بیشتر شقوں پر آج بھی نکاح خؤاں لکیریں پھیر دیتے ہیں۔ نکاح نامے پر سب سے زیادہ اعتراض بھی مذہبی طبقے نے کیا جس کے اعتراضات آج تک ختم نہیں ہوئے۔

ملالہ کے بیان کو اگر ویسے ہی مان لیا جائے جیسے ملالہ مخالف طبقے کی جانب سے پیش کیا جا رہا تو یہ پریشانی کی بات ہے چونکہ وہ والدین جو سوات میں ملالہ کو لگنے والی گولی کی حقیقت پر معترض تھے، اپنے بچوں کی تربیت اور ملالہ مخالفت بیانیے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔ اگر ایسا نا ہوتا تو اپنی تربیت پر اعتماد کرتے اور اس کے سامنے ایک بیان کو اتنی اہمیت نا دیتے جو ان کے نزدیک ان کی اولادوں کو بے راہ روی پر مائل کرنے کی مذموم سازش ہے۔ اگر سال ہا سال کی تربیت ایک بیان برداشت نہیں کر سکتی تو یہ والدین کی ناکامی ہے نا کہ کوئی مذموم سازش!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments