ماحولیات کا عالمی دن


اس وقت تقریباً دنیا کے تمام ممالک کو ماحولیاتی آلودگی کا سامنا ہے۔ ماحول آلودہ ہو جانے کے سبب نت نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں اور انسانی جانوں کے علاوہ دوسرے کئی قسم کے جانداروں کی جان کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ ان بیماریوں کی وجہ سے جانداروں کی اموات میں تواتر سے اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اگر ہمارے ملک پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں کے بڑے شہروں جیسے کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ وغیرہ میں تو صفائی کی حالت انتہائی خراب ہیں، لوگوں کے لئے سانس لینا دشوار ہو گیا ہے۔

آلودگی کے لحاظ سے اور ناقص صفائی کے اعتبار سے کراچی سر فہرست ہے، پاکستان میں ہر آنے والی حکومت دعوؤں کا ایک پل تو باندھ دیتی ہے مگر جب یہ اقتدار میں آتی ہے تو اس بارے سوچنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ دعوؤں کا وہ پل ٹوٹ جاتا ہے، گو کہ عمران خان صاحب ہر فورم پہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی بات کرتے ہیں اور دوسرے تمام ممالک کو بھی باور کرواتے ہیں کہ وہ بھی ان ماحولیاتی تبدیلیوں کے مطابق اقدامات اٹھائیں مگر پھر بھی کوئی خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آئی۔

ہم سب کو ماحول کو صاف رکھنے کو ایک ذمہ داری کے طور پر لینا چاہیے کیونکہ اسلام بھی ہمیں اسی بات کا درس دیتا ہے۔ اسلام نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے، مگر دیکھ لیں کہ ہم نے اپنے نصف ایمان کی حالت زار کیا بنا رکھی ہے؟ صفائی اور ستھرائی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ شہروں میں جاؤ تو گٹروں کا ابلتا پانی سڑکوں پہ نظر آئے گا، جگہ جگہ کوڑے کے ڈھیر لگے ہوئے ہوں گے وغیرہ وغیرہ، اگر ہم نے اس ماحولیاتی آلودگی کو کم نہیں کیا تو ہم مسلسل مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہوتے رہیں گے اور ایک ایک کر کے اس جہان فانی سے کوچ کرتے رہیں گے۔

ماحولیات کا فقط دن منا لینے سے کچھ حاصل نہ ہو گا ہمیں ان ماحولیاتی مسائل پر غور کر کے ان کا کوئی مستقل حل بھی تفویض کرنا ہو گا تا کہ اس سے متعلق مناسب اور عملی اقدامات اٹھائے جائیں اور اس ناسور کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے، فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں بھٹوں کی چمنیوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں، گاڑیوں کی بے ہنگم آواز، شور، سپرے کی خالی بوتلیں اور گندا پانی وغیرہ ماحول کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس سے دن بہ دن آلودہ سے آلودہ کرتے چلے جا رہے ہیں جو انتہائی خطرناک عمل ہے۔

مسلمان تو کبھی ایسا کام نہیں کرتا جس سے دوسرے کو تکلیف ہو مگر ہم اس گندگی کی وجہ سے دوسرے کو اذیت دیتے ہیں اور اس کا جینا دو بھر کر دیتے ہیں۔ اس بڑھتی ماحولیاتی آلودگی کے سبب صحت کے ڈھیروں مسائل جنم لے رہے ہیں اور انسان نفسیاتی مریض بنتا چلا جا رہا ہے۔ تمام ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کو سمجھتے ہوئے ان کے مطابق اقدامات کو عملی جامہ پہنانا ہو گا، زبانی جمع خرچ سے کسی بھی شے کا حصول ممکن نہیں، اس طرح دنیا کے ہر انسان کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا اور تب جا کر کہیں ہم اس قابل ہو پائیں گے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے مطابق خود کو ڈھال کر ان سے بچ سکیں۔

درختوں کا کٹاؤ روکنا انتہائی ضروری عمل ہے ورنہ آکسیجن ہی کم ہوتی چلی جائے گی اور یوں سانس لینا دشوار ہو جائے گا اس کے علاوہ درجہ حرارت میں بھی اضافہ اور بارشیں کم ہوگی لہذا اپنے لیے اور اپنے بچوں کے آنے والے کل کے لیے آج سے ہی ماحول کو صاف ستھرا رکھیں اور کوشش کریں کہ ہماری لاپرواہی کی وجہ سے ماحول خراب نہ ہو۔ حکومت کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی اقدامات کرنے ہوں گے کوشش کریں کہ اپنے ہر ایک بچے کے نام پر ایک درخت ضرور لگائیں۔ اس کی حفاظت کریں تاکہ وہ پروان چڑھ سکیں اور ہمارے کل کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments