ہمارے نصاب میں بھی فحاشی ہے (مکمل کالم)


قوم کو مبارک ہو کہ ہم نے ایک اور سازش پکڑ لی، اس مرتبہ یہ سازش اغیار نے نہیں بلکہ اپنوں نے کی تھی اور وہ بھی بچوں کے خلاف۔ ہمیں علم ہی نہیں تھا کہ ہمارے معصوم بچوں کو سائنس کے نام پر فحش مواد پڑھایا جا رہا ہے، افسوس کہ ہم کئی دہائیوں تک اس سے بے خبر رہے، اب اللہ جانے فحش مواد پڑھنے والے ان بچوں نے بڑے ہو کر معاشرے میں کس قدر بے حیائی پھیلائی ہوگی۔ خیر جو ہوا سو ہوا، بھلا ہو متحدہ علما بورڈ کا جس کے ذمے نصابی کتب کی پڑتال کا کام ہے، علما کے اس بورڈ نے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے ناشران کو ہدایات کی ہے کہ حیاتیات کی کتاب میں انسانی اعضا کی تصاویر بغیر کپڑوں کے شائع نہ کی جائیں، اس کے علاوہ معزز ممبران نے ریاضی کی کتاب میں سے سود اور مارک اپ جیسے الفاظ حذف کرنے کا حکم بھی دیا (روزنامہ ڈان، 4 جون 2021 )۔

جب سے میں نے یہ خبر پڑھی ہے خود کو کوس رہا ہوں کہ ایسی دور اندیشی خدا نے مجھے کیوں عطا نہیں کی، کس قدر سادہ حل تھا، مگر میرے ذہن میں ہی نہیں آیا کہ سود سے چھٹکارا پانے کے لیے فقط اتنا ہی کافی ہے کہ یہ لفظ کتابوں سے نکال دو، نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اسی طرح سچ پوچھیں تو بیالوجی کی کتاب بھی ہمیشہ سے میرے لیے درد سر ہی رہی ہے کہ کسی اسکول کا استاد معصوم بچوں کو تولیدی نظام والا باب کیسے پڑھائے گا اور وہ بھی با تصویر۔

چلیے یہ مسئلہ بھی حل ہوا۔ لیکن کچھ چھوٹے موٹے مسائل اب بھی باقی ہیں جن پر علما بورڈ کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے، مثلاً میڈیکل کالجوں میں سائنس کے نام پر جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے اس پر بھی فی الفور پابندی لگنی چاہیے، جوان لڑکے لڑکیاں وہاں اکٹھے پڑھتے ہیں اور انہیں میڈیکل سائنس کی آڑ میں برہنہ تصاویر والی کتب پڑھائی جاتی ہیں، ایک مرتبہ ان کی ایک نصابی کتاب میری ہاتھ لگ گئی، میں تو اسے دیکھ کر ہی لرز اٹھا، ایسی ایسی فحش باتیں تصاویر کے ساتھ اس میں لکھی تھیں کہ میں نے فوراً پرے پھینک دی۔

میری رائے میں ایسی تمام کتابوں کی پڑتال کا کام بھی علما بورڈ کو تفویض کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اس میں سے قابل اعتراض مواد نکال کر اسے پاک صاف کر دیں۔ یہاں بھی وہی سود کے الفاظ حذف کرنے والا نسخہ استعمال ہوگا، یعنی جو چیزیں ہم ان کتابوں میں سے نکال دیں گے ان کا وجود گویا اپنے آپ ہی دنیا سے ختم ہو جائے گا۔ میں تو کہتا ہوں کہ میڈیکل کالجوں میں امراض چشم اور دنداں کے علاوہ باقی تمام شعبوں کو ختم کر دینا چاہیے، خاص طور سے گائنی کی تو بالکل کوئی گنجایش نہیں، کیا کوئی صالح اور پاک باز شخص اپنی بیٹی کو وہ تمام کتابیں پڑھنے کی اجازت دے سکتا ہے جو گائناکولوجی کے نام پر اس ملک میں پڑھائی جاتی ہیں؟ کم از کم میری غیرت تو یہ گوارا نہیں کرتی۔

یہاں کچھ مادہ پرست اور سائنس کے پجاری واویلا کریں گے کہ اس قسم کے اقدامات سے ملک میں جہالت کو فروغ ملے گا، ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ علم کے حصول کے بارے میں مذہبی تعلیمات کا حوالہ بھی دیں۔ سائنس کے ان غلاموں کو میرا جواب ہوگا کہ مذہب تمہیں صرف اسی وقت یاد آتا ہے جب تمہاری دم پر پاؤں آتا ہے، آگے پیچھے تم منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے رہتے ہو اور کبھی ایک کلمہ خیر مذہب کے بارے میں تمہارے قلم سے نہیں نکلتا۔

دوسرا جواب میرا یہ ہوگا کہ ہماری پوری نسل یہ سن کر جوان ہوئی کہ آسمان سے فرشتہ آ کر ماں کی گود میں بچہ ڈال کر چلا جاتا ہے، ہمیں تو کبھی جہالت کا احساس نہیں ہوا، میں تو کہتا ہوں کہ حیاتیات والے باب میں یہی پڑھانا چاہیے، اس میں انسانی اعضا کی تصویر بنانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی، بس ایک پروں والا فرشتہ آسمان سے اترتا ہوا دکھا دو جس کے ہاتھ میں بچہ ہے اور وہ ماں کو تھما رہا ہے، اللہ اللہ خیر صلا۔ جدیدیت کے پیروکار ایک اعتراض یہ بھی کریں گے کہ اگر میڈیکل سائنس پر پابندی لگائی گئی تو پھر ہمارے نوجوان ڈاکٹر کیسے بنیں گے اور اگر ڈاکٹر نہیں بنیں گے تو لوگ علاج کس سے کروائیں گے۔

یہ سوائے کج بحثی کے کچھ نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کون احمق میڈیکل سائنس پر پابندی لگانے کی بات کر رہا ہے، میرا تو فقط یہ کہنا کہ سائنس کے نام پر فحاشی بند کی جائے اور ظاہر ہے کہ اس میں گائنا کولوجی شامل ہے۔ ویسے تو اس مسئلے کا حل بھی علما بورڈ والے نکال لیں گے مگر اس احقر کی دلیل یہ ہے کہ گائنی وغیرہ نئی نسل کے چونچلے ہیں، آج سے چالیس پچاس سال پہلے کہاں یہ فیشن تھا کہ حاملہ عورت کو لے کر اسپتال دوڑتے پھرو، محلے کی جہاندیدہ دائی گھر آ کر بچہ پیدا کر وا دیتی تھی، دو چار سو میں کام نمٹ جاتا تھا۔

ایک عورت با آسانی دس بارہ بچے پیدا کرتی تھی، دو چار مر مرا بھی جاتے تو سات آٹھ صافی بچ جاتے تھے۔ آج کل کی لڑکیوں کا تو نخرہ ہی عجیب ہے، ذرا سی بات ہوتی ہے اور اٹھ پڑتی ہیں الٹرا ساؤنڈ کروانے، نو مہینے تک یوں ہائے وائے کرتی ہیں جیسی دنیا میں پہلا بچہ پیدا کرنے لگی ہوں۔ سب دماغ کا خناس ہے جو میڈیکل سائنس نے پیدا کیا ہے۔

میں چونکہ اس نام نہاد سیکولر اور آزاد خیال طبقے کی رگ رگ سے واقف ہوں سو اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ میرے دلائل کا مذاق اڑائیں گے اور کہیں گے کہ اگر علما بورڈ سائنس اور ریاضی کی کتابوں کی پڑتال کر سکتا ہے تو پھر ان کے مدارس میں فقہ کی جو کتب پڑھائی جاتی ہیں ان کی پڑتال پاکستان انجینئرنگ کونسل اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل ایسوسی ایشن کو کرنی چاہیے۔ اس ذہنی افلاس کا یوں تو کوئی علاج نہیں فقط اتنا کہنا کافی ہے کہ ہمارے علما سائنس کو سمجھنے کے لیے کسی دوسرے شعبے کے ماہر کے محتاج نہیں، ایک مثال سے ان کا منہ بند کیے دیتا ہوں۔

دنیا بھر کی سائنس کی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ زمین گول ہے جبکہ ہم نے یہ سائنسی دلائل سے ثابت کی ہے کہ زمین چپٹی ہے اور اس ضمن میں کسی نام نہاد مغربی سائنس دان کی تحقیق سے استفادہ نہیں کیا۔ بات چونکہ یکساں قومی نصاب سے شروع ہوئی تھی جس کا مقصد ایک مثالی قوم کی تشکیل ہے تو اس ضمن میں ضروری ہے کہ نصاب میں اتحاد بین المسلمین کے مقصد کے تحت تمام مکاتب فکر کے علما کی خدمات کا اعتراف کیا جائے۔ جس طرح زمین کے چپٹے ہونے کے بارے میں مضمون سائنس کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہیے اسی طرح ’بہشتی زیور‘ لڑکیوں کے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔

اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ایک مثالی بیوی کیسی ہوتی ہے، شوہر اگر اسے حکم دے کہ ساری رات ہاتھ باندھے کھڑی رہے تو حکم کی تعمیل کرے، شوہر کی آنکھ کے اشارے پر چلے، کبھی اس کے سامنے چوں نہ کرے، ہر حال میں اس کی خدمت کرے۔ یہ ہے وہ مثالی نصاب جو لڑکیوں کو اسکولوں میں پڑھایا جانا چاہیے، اسی میں ہم تمام شوہروں، معافی چاہتا ہوں، ہم سب کی بھلائی ہے۔ خدا غارت کرے عورت مارچ والی ”۔۔۔“ کو (میں بوجوہ وہ لفظ یہاں نہیں لکھ سکتا جو میرے دل میں تھا اور جس کا استعمال ایک قومی اخبار نے کچھ عرصہ پہلے کیا تھا)، یہ مادر پدر آزاد عورتیں نئی نسل کی لڑکیوں کو گمراہ کر رہی ہیں، ہماری غیرت کا تقاضا ہے کہ اس آزادی کے آگے بند باندھیں۔ علما بورڈ نے سوچ کی اسی آزادی کے آگے بند باندھا ہے، آئیں ان کے ہاتھ مضبوط کریں!

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments