تعلیم اور معیشت کا تعلق


تعلیم اور معیشت کے تعلق پر بات کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ ہم کچھ بنیادی اصطلاحوں کے بارے میں بات کر لیں۔ مثلاً تعلیم کیا ہے؟ اور اسے کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟ معیشت اور معاش میں کیا فرق ہے؟
انفرادی معاش کا سماجی و عالمی معیشت سے کیا تعلق ہے اور تعلیم معیشت پر اور معیشت تعلیم پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے؟
تو آئیے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ تعلیم ہے کیا؟
تعلیم کا لفظ ثلاثی علم سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں جاننا یا آگہی لینا۔ ثلاثی عربی کے اکثر الفاظ کا منبع یا مادہ ہوتی ہے اور اس سے بے شمار دیگر الفاظ نکلتے ہیں۔ مثلاً سجد کا مطلب سجدہ کرنا اور رزق کا مطلب رزق دینا۔ اسی علم سے لفظ عالم نکلتا ہے اور سجد سے ساجد یا رزق سے رازق بر وزن فاعل۔ اسی طرح عالم سے معلوم نکلتا ہے اور ساجد سے مسجود۔
معلوم یعنی جس کا علم حاصل حاصل کیا گیا یا مسجود جس کو سجدہ کیا گیا بر وزن مفعول۔ اسی طرح عقل، عاقل، اور معقول یا نظر، ناظر اور منظور کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔
اب ہمارے پاس الفاظ ہوئے علم، عالم، معلوم اور تعلیم یا علم حاصل کرنے کا عمل۔ ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ تعلیم کا لغوی مطلب ہے علم حاصل کرنا۔ یہ نکتہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس سے تعلیم و تدریس کا فرق سمجھ سکتے ہیں۔ اگر تعلیم کا مطلب ہے علم حاصل کرنا تو تدریس کا مطلب ہے درس دینا یا سکھانا یا بتانا۔
اب ہم بنیادی مسئلے کی طرف آتے ہیں اور وہ یہ کہ زور تعلیم پر ہونا چاہیے یا تدریس پر؟
ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے بہت سے مسائل کی بنیاد اسی فرق پر ہے یعنی زور تعلیم کے بجائے تدریس پر زیادہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں درس تو دیے جاتے ہیں مگر علم حاصل نہیں ہوتا۔ نصیحتیں تو کی جاتی ہیں مگر سیکھا کچھ نہیں جاتا کیوں کہ زور سکھانے پر ہے سیکھنے پر نہیں۔ بقول احمد فراز
ناصحا تجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آ جاتا ہے سمجھاتا ہے یوں ہے یوں ہے
یہیں پر ہمیں علم اور خواندگی کا فرق سمجھ لینا چاہیے جس کو تعلیم و تدریس کی طرح ہم معنی سمجھا جانے لگا ہے۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ ملک میں تعلیم کا تناسب پچاس فی صد یا ساٹھ فی صد ہے جب کہ ہمارا مطلب خواندگی سے ہوتا ہے یعنی پڑھنے کی صلاحیت سے۔ ضروری نہیں کہ جہاں پر خواندگی ہو وہاں پر تعلیم بھی یعنی علم بھی حاصل کیا جا رہا ہو۔
پڑھنے کی صلاحیت نہ ہونے کو نا خواندگی کہہ سکتے ہیں اور علم نہ ہونے کو لاعلمی یا جہالت۔ بل کہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ جہالت کا مطلب سیکھنے کی خواہش یا صلاحیت کا نہ ہونا ہے۔
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اردگرد کتنے پڑھے لکھے جاہل گھوم رہے ہوتے ہیں جنہوں نے پڑھنا لکھنا تو سیکھ لیا لیکن چوں کہ زور تدریس پر تھا تعلیم پر نہیں اس لیے پڑھنا تو آ گیا مگر جہالت برقرار رہی۔
جہالت کم کرنے کے لیے جاننے، سیکھنے اور خود میں مثبت تبدیلی لانے کی خواہش اور صلاحیت پیدا کرنا ضروری ہے۔ جہالت کا زیادہ تعلق ہمارے رویوں سے ہوتا ہے مثلاً ہمارے پڑھے لکھے لوگ اگر ٹریفک کی قوانین کی پاس داری نہیں کرتے، قطار نہیں بنا سکتے، ذرا ذرا سی بات پر لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں تو انہیں سند یافتہ جاہل کہا جاسکتا ہے جنہوں نے تدریس کے عمل سے گزر کر سند حاصل کی مگر رویے تبدیل کرنے کی خواہش یا صلاحیت پیدا نہ ہو سکی جو جہالت کی دلیل ہے۔ ایسے تدریس کے عمل سے نہ جہالت ختم ہوتی ہے اور نہ تعلیم کا عمل کام یاب کہا جاسکتا ہے۔
اس طرح تعلیم صرف سبق پڑھنے، یاد رکھنے اور امتحان میں کامیاب ہونے کا نام نہیں ہے۔ اس کو زیادہ سے زیادہ تدریس کہا جاسکتا ہے۔
تعلیم دراصل علم کی تعمیر اور اس کے نتیجے میں خود سیکھنے، سمجھنے، سوال کرنے، جواب ڈھونڈنے اور پھر ان جوابات پر مزید سوال اٹھانے کا نام بن جاتی ہے۔
اس کے بغیر تعلیم کو تعلیم نہیں کہا جاسکتا صرف سند حاصل کرنے کا عمل ضرور کہا جاسکتا ہے۔
کسی نے کہا تھا کہ ایک اچھا طالب علم سوالوں کے جوابات پیش کرتا ہے جب کہ ایک بہتر طالب علم ان جوابوں پر مزید سوال پیش کرتا ہے۔
اب ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جب ہم تعلیم کے معیشت سے تعلق پر بات کرتے ہیں تو یہ واضح ہونا چاہیے کہ ہم تعلیم، تدریس اور خواندگی تینوں کے معیشت سے تعلق کو سمجھ سکیں۔
اسناد، تدریس اور خواندگی کا تعلق براہ راست معیشت سے ہو سکتا ہے لیکن علم اور تحصیل و تعمیر علم کا تعلق براہ راست معیشت سے جوڑنا درست نہیں۔
کیوں کہ بہت سے جاہل لوگ بھی اپنے خراب رویوں کے باوجود معاشی طور پر کام یاب ہوسکتے ہیں اور بہت سے عالم معاشی طور پر کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیتے اور بہت سوں کو اس کا کوئی قلق بھی نہیں ہوتا۔
گویا تعلیم، تدریس اور خواندگی کا معیشت سے یکساں تعلق نہیں ہے بل کہ ان کی نوعیت خاصی مختلف ہے اور تینوں کے معاشی مقاصد بھی ایک دوسرے سے منسلک ضرور ہیں لیکن بالکل ایک جیسے نہیں ہیں۔
ہمارے بنیادی سوال کا تعلق تعلیم یعنی علم حاصل کرنے کے عمل سے ہے اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم خود علم حاصل کرنے کے عمل سے کچھ نکات واضح کردیں کیوں کہ علم کو سمجھے بغیر نہ تعلیم کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ اس سے تعلق کو۔
ویسے تو مرزا یاس یگانہ چنگیزی نے کہا تھا۔
علم کیا علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی
یہ شعر تو ایک پوسٹ ماڈرن یا مابعد جدیدیت کا بیان معلوم ہوتا ہے جس میں ہر کوئی علم کو اپنے طور پر سمجھتا ہے اور سمجھ سکتا ہے۔
بنیادی طور پر یہ سوال فلسفے کا ہے جس کی ایک شاخ کو ”EPISTEMOLOGY“ علم العلم یا علمیات کہتے ہیں۔ لیکن یہاں ہم اس کے لیے تصور علم کی اصطلاح استعمال کریں گے۔
کشاف تنقیدی اصطلاحات مرتبہ ابو الاعجاز حفیظ صدیقی مطبوعہ مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد 1985 میں علمیات سے متعلق لکھا ہے کہ ”علمیات ایک علم ہے جس کا موضوع خود علم ہے چناں چہ یہ علم اس طرح کے امور سے بحث کرتا ہے کہ علم کیا ہے؟ کیسے حاصل ہوتا ہے؟ کیا صداقت کا یقینی علم ممکن ہے؟
اس کی امکانی حدود کیا ہیں؟ علم صحیح کی بنیاد عقل پر ہے یا حواس پر؟ حسی تجربہ کس حد تک قابل اعتماد ہے؟ عقل پر کس حد تک بھروسا کیا جاسکتا ہے اور کیا وجدان بھی علم کا ذریعہ ہے؟ (صفحہ 125 )
مولانا عبدالماجد دریا بادی نے علمیات کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے۔ “وہ علم جس میں خود علم کی ماہیت اور اس کی حدود وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے”
چوں کہ یہاں ہم آسانی کے لیے علمیات کے بجائے تصور علم استعمال کر رہے ہیں یعنی کسی فرد یا معاشرے کا تصور علم کیا ہے تصور علم کے ذریعے ہم جانتے ہیں کہ کس بات کو علم مانا جاسکتا ہے اور کس کو نہیں۔
ساتھ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کس بات یا بیان کو علم کیوں تسلیم کیا جائے؟
علم کی حدود کیا ہیں؟ علم کے ذرائع کیا ہیں؟ کن ذرائع سے حاصل کیا گیا علم واقعی علم ہے اور کن ذرائع سے حاصل گیے گئے علم کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
کیا علم پر کامل یقین یا اندھا اعتماد کیا جاسکتا ہے؟
اور کیا وہ علم جو مکمل ایقان کا مطالبہ کرے وہ واقعی علم ہے؟
ساتھ ہر وہ علم جس پر شکوک و شبہات ہوں اسے کس حد تک اور کب تک علم سمجھنا چاہیے؟
وہم اور یقین کا کیا تعلق ہے اور یہ علم پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں؟
احمد ندیم قاسمی نے کیا خوب کہا ہے۔
وہم سے بوقلموں کون و مکاں
ورنہ یک رنگ یقیں کی باتیں
بوقلموں کا مطلب ہے رنگارنگی یا نیرنگی یعنی وہ چیز جس کا رنگ بدل سکتا ہو یا بدلتا ہوا نظر آئے۔
تو ہمارا تصور علم وہم یعنی شک و شبے اور سوالات پر مبنی بھی ہو سکتا ہے اور دوسرا تصور علم مکمل یا اندھے یقین پر بھی کھڑا ہو سکتا ہے۔
اس سے متعلق سوال یہ ہیں کہ اندھے یقین یا ڈوگما ( DOGMA ) کو کتنا علم تسلیم کرنا چاہیے؟
ہم میں سے بہت سے عالم ہونے کے دعوے دار شاید عالم ہیں ہی نہیں کیوں کہ اگر وہ جس علم کی بات کر رہے ہیں ہماری دانست میں علم ہے ہی نہیں، تو پھر وہ عالم کیسے ہوئے۔ اگر یہ بات سمجھ میں آ جائے تو جگہ جگہ دکانیں کھولے ہوئے اور محبوب کو آپ کے قدموں میں ڈال کر آپ کی مراد پوری کرنے کے دعوے دار عالم فاضل کامل سنیاسی بابوں کو تو وہ جان لیں گے کہ کیا علم ہے اور کیا نہیں۔
اس طرح لوگ اندھے یقین کو علم سمجھنا چھوڑ دیں گے، کیوں کہ اگر تصور علم واضح ہو تو علم کا درجہ دینا یا علم کو اندھا یقین یا ڈوگما بنا لینا کس حد تک جائز اور معقول ہے؟
ان تمام سوالوں کا معاشی اور معیشت سے گہرا تعلق ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ڈوگما کو علم کے طور پر پیش کرنے والے معاشی طور پر کام یاب نہ ہوتے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جس معاشرے میں ڈوگما کو علم سمجھا جائے وہاں نام نہاد عالم بڑے خوش حال ہوتے ہیں کیوں کہ معاشرے کا تصور علم ہی ناقص ہے۔
اسی لیے لاعلمی یا جہالت کو علم کا درجہ دے کر معاشی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں اور جو واقعی عالم ہیں وہ معاشی طور پر عموماً بدحال ہوتے ہیں، کیوں کہ سماج ان کے علم کو علم نہیں مانتا۔
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے ایسے لوگوں کے سامنے اندھے پجاریوں کے ہجوم ہوتے ہیں جو دراصل عالم نہیں ہیں۔ لیکن ایسے لوگ ابلاغ بہت اچھا کرتے ہیں یعنی انہیں جھوٹی سچی باتیں دوسروں تک پہنچانے کا فن خوب آتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ زیادہ تر دھوکے باز ابلاغ کے بڑے ماہر ہوتے ہیں یعنی اپنی چکنی چپڑی باتوں میں کچھ علم اور کچھ جہالت کا تڑکا لگا کر خوب معاشی فائدے حاصل کرتے ہیں، حتی کہ بڑے بڑے اعلی عہدے دار ان کے سامنے سرنگوں ہو کر ان سے رہ نمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں، ایک ایسے علم کی جو شاید علم ہے ہی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments