ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں


اسد محمد خاں نے اپنی کتاب ”یادیں“ میں اپنے گزری صدی کے دوستوں کی واقعات قلمبند کیے ہیں۔ زندہ دل لوگوں کے تذکرے بھی زندگی سے بھر پور ہوتے ہیں۔ لیکن موت کی گمنام وادیوں کو روانہ ہوئے۔ ان شگفتہ لوگوں کا ذکر کرتے کبھی کبھی ہچکیاں بھی عود کر آتی ہیں۔ کتاب کے آخر میں سات وداع کی نظمیں ہیں۔ ان سات نظموں میں سے ایک نظم میں کئی بار پڑھ چکا ہوں، زیر لب بھی اور با آواز بلند بھی۔ حق تو یہ ہے کہ اس نظم کا پھر بھی حق ادا نہیں ہوا۔ آپ بھی اسے پڑھ دیکھ لیجیے۔

’لوگ مرنے لگتے ہیں‘
یہ بڑھتی ہوئی عمر کی عطا ہے کہ چیزیں اور لوگ
سمجھ میں آنے لگتے ہیں
زندگی کہیں کہیں سے واضح ہونے لگتی ہے
یہ بڑھتی ہوئی عمر کی سزا ہے
کہ دیکھتے ہی دیکھتے چیزیں بکھرنے لگتی ہیں
اور لوگ مرنے لگتے ہیں
زندگی پھر سے غیر واضح ہو جاتی ہے
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ
یا تو میرے لئے چیزیں اور لوگ اتنے
من موہنے نہ بنائے ہوتے
یا جب تک میں ہوں
میرے خزانے کو چھیڑا ہی نہ جاتا

نظم ختم ہوئی۔ اب کالم آگے بڑھتا ہے۔ مولا علیؑ نے فرمایا۔ میں موت سے کیوں ڈروں کہ جب تک میں ہوں، موت نہیں ہے۔ جب موت ہوگی تب میں نہیں ہوں گا۔ شاعر مجید امجد سے پوچھا گیا۔ موت سے ڈرتے ہو؟ جھٹ بولے۔ نہیں۔ زندگی سے ڈرتا ہوں۔ کالم نگار خوب جانتا ہے۔ یہ وہ زندگی نہیں جو من پسند لوگوں کے بیچ بسر ہوتی ہے۔ یہ وہ زندگی ہے جو من مرضی کے لوگوں کے دنیا سے چلے جانے پر کاٹنی پڑتی ہے۔ یہی روداد شعیب بن عزیز نے یوں لکھی۔

میں گزرا ہوں تنہائی کے دوزخ سے بھی لیکن
بے لطف رفاقت کا عذاب اور ہی کچھ ہے

شعیب کتنے شائستہ انسان ہیں کہ اس موقع کے لئے انہوں نے لفظ ’بے لطف‘ برتا ہے۔ وہ کسی بد ذائقہ لفظ سے کسی دوسرے کو بد مزا نہیں کرنا چاہتے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ ان کے نزدیک بے لطف بندے کئی اوروں کے لئے بہت پرلطف ہوتے ہوں گے۔ خالق کائنات نے روز آفرینش سے شکل سے شکل، بندے سے بندا، ذائقہ سے ذائقہ تک ملنے نہیں دیا۔ بندا اک عالم حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ جب اسے علم ہوتا ہے کہ اربوں کھربوں انسانوں کا نشان انگوٹھا تک اک دوسرے سے نہیں ملتا۔ پھر اک بندے کا مزاج دوسرے سے کیسے مل سکتا ہے؟ کسی کو کچھ پسند ہے اور کسی کو کچھ اور بھاتا ہے۔ اللہ جی! آپ بھی کیا شے ہیں۔ یہ موہن سنگھ دیوانہ ہی لکھ سکتا تھا۔

رب اک گنجل دار بجھارت
رب اک گورکھ دھندا
کھولن لگیاں پیج ایس دے
کافر ہو جائے بندا
کافر ہونوں ڈر کے ایویں
کھوجوں مول نہ کھنجیں
لائی لگ مومن دے کولوں
کھوجی کافر چنگا

موہن سنگھ دیوانہ زندہ ہوتا اور اس سے ملاقات بھی ممکن ہو جاتی تو اس سے ضرور پوچھتا۔ بے شک کھوجی کافر اچھا ہوگا، پھر کھوجی مسلمان تو اور بھی اچھا، لیکن آج کے ہمارے متشدد مذہبی ماحول میں اسے زندگی کی ضمانت کون دیتا۔ سو ان دنوں لائی لگ مومن ہی بھلا کہ کم از کم اس کی زندگی تو محفوظ ہے۔ اس دنیا میں سب سے قیمتی چیز زندگی ہی تو ہے او ر موت ہی سب سے بھیانک اور تکلیف دہ شے۔ کتنا بے حس ہوگا جس نے بڑے رسان سے کہہ دیا۔ مرگ انبوہ جشن دارد۔ یعنی بہت سے لوگوں کی اموات اک میلہ بن جاتی ہیں۔ ایک انسان سے کسی ایک پیارے کی موت برداشت نہیں ہوتی۔ یہاں تو کئی پیاروں کی موت، مرگ انبوہ کو جشن کہا جا رہا ہے۔ مرزا غالب نے اپنے لے پالک بیٹے کی جواں مرگ پر لکھا تھا۔

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

میت بے زبانی میں یہی کہتی ہے۔ لو! اللہ بیلی۔ اب روز قیامت ہی ملاقات ہوگی۔ غالب اپنے بیٹے کو کہتے ہیں کہ ہمیں اگلی ملاقات قیامت کے دن ہونے کا کیا بتاتے ہو۔ کیا آج ہمارے لئے قیامت کا دن نہیں۔ درشن سنگھ آوارہ نے بھی اپنے اکلوتے نو عمر بیٹے کی موت پر ”بغاوت“ کے نام سے اک نظم لکھی تھی۔ گرچہ نقل کفر کفرنباشد، پھر بھی یہ نظم نقل کرنی محال ہے۔ کرونا وبا میں بہت سے عزیزوں دوستوں کی جدائی کا غم سہنا پڑا۔ کرونا کی پہلی لہر کی میتیں اپنے پیاروں کا پیار بھی نہ دیکھ سکیں۔ ان کی تدفین کا منظر موت سے بھی کربناک تھا۔ ان کی عزت سے تدفین بھی نہ ہو سکی۔ زندہ لوگ ڈرتے ڈرتے مردوں کو دفناتے کہ کہیں انجانے میں کسی مردے کو چھو نہ بیٹھیں۔ بہت سی میتیں پولیس کی حراست میں دفنائی گئیں۔ لیکن آہستہ آہستہ خوف کم ہوتا گیا۔ بہت سے دوست بچھڑے۔ گجرات شادیوال سے یار جانی طارق دراجی، لاہور سے پیارا رؤف طاہر، اپنے شہر گوجرانوالہ سے جواں سال دوست خواجہ عماد الدین، یہ لوگ ہیں جو نام اور شناخت رکھتے تھے۔ غیر معروف دوستوں کی اک لمبی فہرست ہے۔ دو چند دکھ یہ ہے کہ کسی کا جنازہ نہیں پڑھا جا سکا۔ اپنے گھر ہی کرونا اسیری میں زندگی دینے اور چھیننے والے سے ان کی مغفرت کی دعا مانگتا رہا۔ ابھی وبا کا قتل عام بدستور جاری ہے۔ ہر روز صبح دم اخبار سے کرونا کے تازہ مرنے والوں کی تعداد پڑھتا ہوں اور پکار اٹھتا ہوں۔

کوئی روکے کہیں دست اجل کو
ہمارے لوگ مرتے جا رہے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments