تیز رفتار میڈیا اور صحافیوں کو درپیش چیلنج


الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا نے جہاں قوم کو تیزی کے ساتھ انفارمیشن پہنچانے اور باخبر رکھنے کا فریضہ انجام دینا شروع کیا ہے۔ اس پر قوم باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ حیران بھی ہے۔ مشرف کے دور سے پہلے تو کسی نے انفارمیشن کی اس تیزی کا تصور بھی نہ کیا ہو گا۔ یہ سب کچھ خوش آئند ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان کن بھی ہے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ پریشان کن کیوں؟ تو وہ اس لیے کہ نہ صرف چھوٹے بلکہ ہمارے بڑے بڑے ٹی وی چینلز پر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی ریس میں وہ صحافتی اخلاقیات پامال ہوتی نظر آتی ہیں جن کے بغیر صحافت اپنا معیار کھو بیٹھتی ہے۔

اس پر رہی سہی کسر آن لائن ٹی وی چینلز نے پوری کردی ہے۔ جنہوں نے اپنی آزادی کا مطلب تمام اخلاقی قدروں سے بلکہ قومی بیانیے اور اپنے بین الاقومی امیج کی فکر سے بھی آزاد ہو جانا سمجھا ہے۔ اب جبکہ فلسطین کی آزادی کا مسئلہ کھڑا تھا اور قومی بیانیہ فلسطین کے حق میں قومی و بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا وزیر اعظم بیان دے رہا ہے۔ ایسے میں کسی آن لائن چینل کی صحافی فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں لوگوں کی توجہ اصل بیانیے سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں اور خبری اہمیت کے نکات نظر انداز کرتے ہوئے صحافتی اخلاقیات کے خلاف لوگوں کی ذاتیات پر بات کرنا شروع کر دیتی ہے۔

تو کیا اس رپورٹنگ کو ہم ذمہ دارانہ رپورٹنگ کہہ سکتے ہیں۔  ہما رے صحافی اگر جرائم کو کور کرنے کے دوران اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھ سکیں اور طیش میں آ کر کبھی ہاتھا پائی کرنے پہ آ جائیں اور کبھی لوگوں کے گھر، فیکٹریوں، گوداموں اور ریستورانوں میں بلا اجازت زبردستی گھس جائے تو سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے کی اجازت کون سا ملک اور کون سا قانون دیتا ہے۔ ؟

ملک کے دیگر اداروں کی طرح یہاں بھی افراط و تفریط ہے۔ کہیں طاقتور کے ڈر سے خبریں دبا دی جاتی ہیں اور کہیں قوم کی خیر خواہی میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ نہ لوگوں کی پرائیویسی کا خیال رکھ پائے اور نہ اپنے اختیار سے تجاوز کرنے کو روک پاتے ہیں۔

ؔتجزیہ اپنا اعجاز ہے لازمی۔
ہم بہت گر گئے اپنے معیار سے۔

کسی قوم کی تعمیر میں ہمیشہ اس کے میڈیا اور صحافت کے میدان کے مجاہدوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ قوم میں زندگی کی رمق پیدا کرنے کا سہرا ہمیشہ صحافیوں کے سر سے مس ہو کر کسی اور کے سر بندھا ہے۔ پاکستان کے آج دنیا کے نقشے پر موجود ہونے میں مولانا محمد علی جوہر، ظفر علی خان اور ابوالکلام آزاد جیسے نام تاریخ کا حصہ ہیں۔ قوم میں تصور کو زندہ رکھنے اور مہمیز دینے میں شورش کاشمیری، مولانا مودودیؒ اور جسے کردار بار بار ہمیں بھولا سبق یاد دلاتے ہی۔

موجودہ کمرشل ماڈل میں کام کرنے کے باوجود مطیع اللہ جان جیسے صحافیوں نے حق گوئی کی مثالیں قائم کی ہیں۔

آج ضرورت ہے کہ ہماری صحافت دوبارہ سے اپنے مشن اور اپنی اصل کو مہمیز دیں۔ جرات، بہادری، حق گوئی و سچائی، ایمانداری، غیر جانبداری اور ملکی سلامتی و فلاح کے مطابق ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے قوم کی فکری تعمیر بحیثیت اوپینین لیڈر (Opinion Leader) کرنا شروع کردیں۔ تو اس قوم کی بیداری کو کوئی نہ روک سکے گا۔

مشہور امریکی صحافی جوزف پلٹزر صحافتی اقدار کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، ”خوشحالی اور اصلاحات کے لیے ہمیشہ جنگ کیجئے، نا انصافی اور بدعنوانی کو کبھی برداشت مت کیجئے، ہمیشہ تمام فرقوں کے جذبات کا خیال رکھیں۔ کبھی کسی ایک پارٹی کے موقف کی حمایت نہ کیجئے، عوام کا حق غصب کرنے والے اونچے طبقات کی مخالفت کیجئے، غریبوں کے ساتھ ہمدردی کیجئے، ہمیشہ عوامی بہبود کے لیے خود کو وقف کر دیجئے۔ غلط پر تنقید کرتے ہوئے کبھی مت ڈریں، چاہے وہ امراء کی طرف سے ہو یا غرباء کی طرف سے ہو“ ۔

قائد اعظم نے صحافتی شعبے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ، ”صحافت کو کاروبار نہیں بلکہ قومی خدمت کا موثر وسیلہ سمجھا جائے۔ یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جسے عالم انسانیت کی فلاح و بہبود اور معاشرے میں عدل و انصاف کے لیے استعمال ہونا چاہیے“ ۔

سچ ہے کہ جس طرح 1947 ء میں اس قوم کو ایک ملک کی ضرورت تھی اسی طرح اس ملک کو ایک بیدار قوم کی ضرورت ہے۔ اس قوم کو بیدار کرنے، بیدار رکھنے اور پرامید رکھنے کے لئے باضمیر صحافت مطلوب ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments