انقلاب کون لا سکتا ہے؟


کسی بھی تحریک کو سمجھنے کے لیے لازمی ہے کہ اس کے تمام مراحل کا بغور مطالعہ اور تجزیہ و تحلیل کیا جائے۔ تحریکیں مختلف مراحل سے گزر کر ہی اپنے حقیقی ہدف تک پہنچتی ہیں۔ تحریک کا اولین مرحلہ عوام کے سامنے فکری و آئیڈیالوجیکل بنیاد کو واضح کرنے کا ہوتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں موجودہ نظام سے بیزاری و عدم اطمینان ایجاد کرنا ہوتا ہے لہذا ہر تحریک کو آغاز میں ایک شدت اور رفتار کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ تحریک پوری آب و تاب کے ساتھ میدان میں جلوہ گر ہو سکے۔ امام خمینی نے بھی انقلاب اسلامی کی تحریک کا آغاز بھرپور طریقے سے کیا، اس طرح کہ تمام عوامی طبقات اور حکومت برابر متوجہ ہوئے۔ انقلاب اسلامی کی تحریک زور پکڑتی چلی گئی اور حکومت نے تحریک انقلاب کا راستہ روکنے کی خاطر امام خمینی کو جلا وطن کر دیا۔

امام خمینی کچھ عرصہ ترکی میں مقیم رہے اور پھر نجف اشرف (عراق) تشریف لے گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایران کے اندر حکومت مطمئن تھی کہ انقلابیوں کو مکمل طور پر سرکوب کر دیا گیا ہے جب کہ انقلابی قیادت اور کارکنان نے اس فرصت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے زیر زمین ایسا انقلابی لاوا تیار کر دیا کہ جس کے پھٹنے سے ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت ریزہ ریزہ ہو گئی۔

یہاں ایک اہم نکتہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا ضروری ہے کہ کسی بھی انقلابی تحریک کا دار و مدار عوام پر نہیں ہوتا۔ عوام کی اکثریت انقلاب کے حامی تو ہو سکتے ہیں لیکن انقلابی نہیں ہوتے۔ تحریک کو تمام مراحل سے کامیابی کے ساتھ انقلاب تک پہنچانے والے درحقیقت ایک اقلیت ہوتے ہیں جن کی شخصیت واقعی انقلابی ہوتی ہے۔ یہ انقلابی اقلیت ہی عوامی اکثریت کو میدان میں لے کر آتے ہیں۔ لہذا کسی بھی تحریک کی قیادت کو آئیڈیالوجی کے ساتھ ساتھ اس اقلیتی انقلابی طبقے کی ضرورت ہوتی ہے جس کی مدد سے انقلابی تحریک آگے بڑھتی ہے۔

تحریک اور حکومت کے مابین تصادم اور حادثات کے زمانے میں اس اقلیتی انقلابی طبقے کو منظم ہونے کا وقت نہیں ملتا لہذا لازمی ہے کہ تحریک کو ظاہری طور پر ایسے مرحلے میں منتقل کر دیا جائے جہاں حکومتی تشدد کے اندر کمی لائی جائے، انقلابی طبقے کی بکھری ہوئی توانائیوں کو جمع کیا جائے، تمام امور و اقدامات کو ہم آہنگ کیا جائے۔ نجف میں قیام کے دوران امام خمینی نے انقلابی تحریک کے اس مرحلے کا آغاز کیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نجف کے اندر مذہبی ماحول تھا، قدیم علمی حوزہ بھی موجود تھا لیکن انقلابی کاموں کے لیے یہ ماحول قطعی طور پر سازگار نہیں تھا۔

بلکہ ایرانی حکومت نے باقاعدہ طور پر امام خمینی کی نقل و حرکت اور اقدامات پر نظر رکھنے کے لیے عراق کے ساتھ حکومتی سطح پر اقدامات بھی کیے تھے جن کی وجہ سے انقلابی تحریک کو عراق کے اندر کام کرنے میں سخت دشواری کا سامنا تھا۔ دوسری طرف ایران کے اندر انقلاب تو دور، امام خمینی کا نام تک لینے پر پابندی تھی۔ مجلس، منبر، درسگاہ کہیں بھی امام خمینی کا ذکر کرنے والے افراد کو حکومتی کارندے گرفتار کر لیتے اور سخت ترین شکنجوں کے اندر رکھتے۔ زیارت کی غرض سے عراق جانے والے افراد کی ایران واپسی پر باقاعدہ چیکنگ کی جاتی۔

اس صورتحال میں امام خمینی کے پیغامات کو ایران کے اندر منتقل کرنے کے لیے ایک منظم نیٹ ورک وجود میں آیا جنہوں نے کمال خوبصورتی کے ساتھ انقلابی تحریک کا سفر جاری رکھا۔ امام خمینی کے پیغامات مختلف طریقوں سے عوامی حلقوں تک پہنچتے رہے۔ انقلابی کارکنان اور انقلابی قیادت کے مابین یہ پیغام رسانی خفیہ کوڈنگ کے ذریعے سے جاری رہی، یہاں تک کہ انقلاب کا پیغام تمام حکومتی و سماجی طبقات تک پہنچ گیا۔ لیکن یہ سارا کام زیر زمین ہوتا رہا کیونکہ اس وقت اگر انقلابی تحریک سطح زمین پر آجاتی تو شاید کامیابی سے ہمکنار نہ ہو پاتی جیسا کہ بعض اوقات پیغام رسانی کرنے والے افراد کو حکومتی ادارے پکڑ بھی لیتے اور ظلم و تشدد کا نشانہ بناتے۔ لیکن انقلابی طبقہ بظاہر پر سکون نظر آنے والے ماحول میں ہی انقلاب کی پرورش کر رہا تھا۔

تحریک کے سفر میں یہی وہ مرحلہ ہے جہاں انقلاب کا جنین پیدا ہوتا ہے اور دھیرے دھیرے اپنی پیدائش کے دیگر مراحل کو طے کرتا چلا جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ماں کے پیٹ میں جنین پیدا ہوتا ہے، پرورش بھی پا رہا ہوتا ہے لیکن ظاہراً کسی کو نظر نہیں آ رہا ہوتا۔ انقلابی تحریک کو در حقیقت اس فرصت کی ضرورت ہوتی ہے جس میں انقلاب کی پیدائش کا مرحلہ شروع کیا جا سکے جس میں بظاہر کچھ بھی سامنے نہ ہو لیکن پس پردہ انقلاب کی پرورش ہو رہی ہو۔

ہمارے ملک میں کئی بار انقلاب کے نام پر عوام کو ورغلایا جا تا رہا ہے۔ انقلاب کے نام پر حزبیں اور جماعتیں پلتی رہی ہیں کیونکہ جب انقلاب کے نام پر حزبیں بنا لی جائیں تو انقلاب پرورش نہیں پاتا بلکہ حزبیں پھلتی پھولتی ہیں۔ اس عورت کی طرح جو اپنی خوبصورتی اور صحت کھونا نہیں چاہتی اس لیے اپنے بطن میں موجود اپنے ہی جنین کو قربان کر دیتی ہے۔ حزب اسی عورت کی مانند ہے جو خود ہشاش بشاش اور خوبصورت رہنے کے لیے انقلاب کو قربان کر دیتی ہے۔

لہذا ہمارے ہاں انقلاب آنا تو درکنار، انقلاب کی پیدائش کا جنینی مرحلہ ہی طے نہیں ہوا، ۔ اس کے علاوہ مصر کی مثال بھی دی جا سکتی ہے جہاں کئی سو سال پرانی اسلامی تحریک موجود ہے لیکن آج تک کامیاب نہیں ہو سکی کیونکہ اسلامی تحریک کے نام پر حزب اور جماعت بنا لی گئی اور تمام توانائیاں اسی جماعت کو پالنے میں صرف ہوتی رہیں۔

دوسری طرف انقلابی طبقہ ہوتا ہے جو اپنی تمام توانائیاں، اپنی شخصیت، اپنا وجود انقلاب پر خرچ کر دیتے ہیں تا کہ انقلاب کی پیدائش میں کوئی کمی نہ رہے اور یہ مولود دنیا میں اظہار وجود کر سکے۔ اس ماں کی طرح جو اپنے بطن میں موجود بچے کو اپنی ہستی پلاتی ہے، اپنی تمام طاقت و توانائی بچے میں منتقل کر رہی ہوتی ہے، اس بچے کی پرورش کی خاطر اپنی صحت خراب کرتی ہے، شاید اسی لیے ہی ماں کو اتنا عظیم مرتبہ عطا کیا گیا ہے۔

اسی طرح وہ لوگ جو انقلاب کو پالتے ہیں وہ خود قربان ہو جاتے ہیں، خود کو انقلاب پر فدا کر دیتے ہیں، اپنی شخصیت کو انقلاب پر نثار کر دیتے ہیں، یہی درحقیقت انقلاب کی عظیم ہستیاں ہوتی ہیں اور ایسے افراد کی انقلابی تحریک کو حتماً ضرورت رہتی ہے۔ ورنہ بچے کی پیدائش کے بعد جس طرح مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھ جاتا ہے اسی طرح انقلاب کی کامیابی کے بعد بہت سے لوگ انقلاب کی مبارکبادیں دیتے اور وصول کرتے نظر آتے ہیں جنہوں نے عملی طور پر انقلاب کی پیدائش سے لے کر رونما ہو نے تک کہیں بھی کوئی کردار ادا نہیں کیا ہوتا۔ جب انقلاب کو قربانی کی ضرورت تھی، فدا کاروں کی ضرورت تھی تب بہت ہی قلیل افراد اس راہ پر استقامت دکھا پاتے ہیں، اکثریت مصلحتوں کا شکار ہو کر انقلاب کا راستہ ترک دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments