میڈیا کی سچائی اور فواد چوہدری کا راستہ


وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پاکستانی میڈیا کو متعدد ترقی یافتہ جمہوری ملکوں کے مقابلے میں آزاد اور خود مختار قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی میں آزادی اظہار پر پابندیوں کی باتیں ’بھارتی لابی‘ پھیلاتی ہے ورنہ ملک میں تو ہر طرح کی آزادی ہے۔ اس بیان سے وزیر اطلاعات نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک ملکی میڈیا پر عائد پابندیوں میں اضافہ کے باوجود یہ دعویٰ کہ پاکستانی میڈیا تو دنیا بھر میں آزاد ہے۔ دوسرا جو عناصر اس بے بنیاد دعوے سے انکار کریں انہیں پہلے ہی بھارتی لابی کا ایجنٹ قرار دے کر اس بحث کا سلسلہ ہی بند کر دیا جائے۔

پاکستان میں میڈیا کبھی بھی مکمل طور سے آزاد نہیں رہا لیکن اس شعبہ کو جاننے والے لوگ یہی بتاتے ہیں کہ ملک میں صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو اس سے پہلے کبھی اس قدر تشویشناک صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ملکی تاریخ میں جنرل ضیا کے مارشل کے دور کو میڈیا آزادی کے حوالے سے تاریک ترین کہا جاتا ہے لیکن اب یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ آزادی رائے کو دبانے کے لئے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈا روا رکھا جاتا ہے۔ سرکاری اداروں کو میڈیا کا گلا گھونٹنے کے مشن پر لگایا گیا ہے۔ اشتہاروں اور میڈیا ہاؤسز کی مالی نگرانی کا معاملہ فواد چوہدری ہی کے سابقہ دور وزارت میں شروع ہوا تھا۔ بظاہر یہ کہا گیا تھا کہ ٹی وی چینلز کمرشل ادارے ہیں، اس لئے انہیں سرکاری اشتہاروں کی صورت میں مدد نہیں دی جا سکتی کیوں کہ حکومت کے پاس پہلے ہی بجٹ کم ہے اور اسے اخراجات پورے کرنے کے لئے سخت منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے۔

تاہم فواد چوہدری کا یہ اعلان درحقیقت ’ناپسندیدہ‘ میڈیا ہاؤسز کو سرکاری اشتہاروں سے محروم کرنے کا طریقہ تھا۔ سرکاری پروپیگنڈا کو خبر اور حقیقت بنا کر پیش کرنے والے ٹی وی چینلز کو اشتہار لینے میں کوئی دقت نہیں ہوئی بلکہ ان کی سہولتوں میں اضافہ ہی کیا گیا۔ یوں بھی جب حکومت سرکاری فنڈز کے ذریعے اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اشتہار دیتی ہے تو اس کا مطلب کسی ادارے کی سرکاری اعانت نہیں ہوتا بلکہ اصولی طور پر اہم اور ضروری معلومات عام لوگوں تک پہنچانے کے لئے مقبول اخبارات اور چینلز کو اشتہار دیے جاتے ہیں۔ البتہ پاکستان میں ان فنڈز کو معلومات عامہ یا میڈیا کو مستحکم کرنے کے لئے استعمال کرنے کی بجائے، میڈیا میں سرکاری اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں اس پالیسی کو سابق امریکی صدر بش کی ڈاکٹرائن کے مطابق یک طرفہ طریقہ کار بنایا گیا ہے۔ یعنی ’اگر آپ ہمارے دوست نہیں تو دشمن ہیں‘ ۔ پاکستانی وزارت اطلاعات اس اصول پر سختی سے عمل کرتے ہوئے میڈیا کو سرکاری اشاروں پر حرکت کرنے والی کٹھ پتلی بنانے کی کوششیں کرتی ہے۔

پاکستانی میڈیا پر زیادہ تر سرمایہ دار طبقہ کا کنٹرول ہے۔ ایک آدھ استثنیٰ کے ساتھ ورکنگ جرنلسٹوں کو کسی ادارے کے مالی حتی کہ ادارتی فیصلوں میں بھی اختیار حاصل نہیں ہے۔ اس لئے میڈیا مالکان پر مالی دباؤ میں اضافہ کر کے انہیں تابعداری پر مجبور کیا گیا ہے۔ یعنی اخبارات اور ٹی وی پر وہی خبر یا رائے سامنے آئے گی جس سے سرکاری حکمت عملی اور ریاستی پالیسی کو فروغ ملے۔ اب بات یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ میڈیا سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ حکومت کے سیاسی مخالفین کی کردار کشی میں اس کا دست راست بنے۔ بیشتر صورتوں میں پاکستانی میڈیا یہ خواہش پوری کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ اسی طریقہ کار کے تحت ’سیلف سنسر شپ‘ کی اصطلاح متعارف ہوئی ہے۔ یعنی میڈیا مالکان اور ان کے نمائندے وہی خبر یا مضمون شائع یا نشر کریں جو حکومتی پالیسی کے عین مطابق ہو اور کسی طرح اس کے پیش کردہ حقائق کو چیلنج نہ کرتی ہو۔

مالی وسائل کو کیوں کر میڈیا کو دبانے اور صحافیوں کی آزادی سلب کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، اس کا ایک اظہار حال ہی میں حامد میر کے تنازعہ میں جنگ جیو میڈیا گروپ کے بیان میں سامنے آ چکا ہے۔ حامد میر کو پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ کی میزبانی سے علیحدہ کرنے کے فیصلہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ادارے کو آزادی اظہار کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ اسے اشتہارات کی مد میں 10 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ کسی صحافی و اینکر کو کام سے روکنے کے لئے مالی خسارے کی دلیل سے واضح ہوتا ہے کہ ملک میں طاقت ور ترین میڈیا گروپ بھی خود کو کس حد مجبور اور پابند محسوس کرتے ہیں۔ اس بیان میں صحافیوں کی حفاظت کے لئے احتجاج کی بجائے متبادل ذرائع استعمال کرنے کی بات کر کے بھی یہی بتایا گیا ہے کہ جو صحافی اپنی آزادی کے لئے آواز بلند کرے گا، آج کے پاکستان میں اس کے لئے کام کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔

آزاد میڈیا کا ڈھول بجانے والے وزیر اطلاعات نے جنگ جیو کے اس بیان پر کوئی وضاحت دینا یا سرکاری موقف پیش کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اگر فواد چوہدری واقعی کسی جمہوری ملک کے وزیر اطلاعات ہوتے اور خود مختار میڈیا ان کی گرفت کرنے میں آزاد ہوتا تو انہیں اس الزام کا جواب دینا پڑتا کہ ملک کا اہم ترین میڈیا ہاؤس کیوں کر یہ اعلان کر رہا ہے کہ سرکاری پالیسی کی وجہ سے اسے آزادی صحافت کے جرم میں دس ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ البتہ پاکستان کے وزیر اطلاعات بی بی سی پروگرام ’ہارڈ ٹاک‘ کے بعد اب لاہور میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے آزاد میڈیا کا راگ الاپ رہے ہیں حالانکہ اس وقت پاکستان میں نہ صرف آزادی صحافت و اظہار پر شدید پابندیاں عائد ہیں بلکہ اس کے خلاف آواز اٹھانا بھی جرم قرار دیا جا چکا ہے۔ ورنہ حامد میر کا اس کے سوا کیا قصور ہے کہ انہوں نے ایک صحافی کو اس کے گھر میں گھس کر زد و کوب کرنے کے خلاف احتجاج کیا تھا اور کہا ہے کہ ’اسد طور پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے تو میں معافی بھی مانگنے کو تیار ہوں‘۔ جس ملک کا مقبول اسٹار اینکر اور عالمی شہرت یافتہ صحافی بھی ’آزادی اظہار‘ کی پاداش میں کام سے محروم کر دیا جائے، اس کا وزیر اطلاعات نہ جانے کس منہ سے میڈیا کی آزادی کی باتیں کر سکتا ہے۔

یہ کام صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب حکومت وقت جھوٹ، دھوکہ و فریب کو سرکاری حکمت عملی کے طور پر اختیار کرچکی ہو اور سچ کا منہ در منہ انکار کر کے اپنے برحق ہونے کا اعلان کیا جا رہا ہو۔ یہ صورت حال ملکی جمہوریت اور سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی تشویشناک ہے۔ آج کچھ قوتیں دانستہ یا نادانستہ صحافیوں اور میڈیا کا گلا گھونٹ رہی ہیں، کچھ عرصہ بعد وہ سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کو بھی بات کرنے کے لئے ’ریڈ لائنز‘ کا احترام کرنے کا پیغام دیں گی۔ شاید اسی سفر کو آسان بنانے کے لئے پہلے میڈیا کو پابند، میڈیا ہاؤسز کو مجبور اور مالکان کو عاجز کر کے صحافیوں کو حدود میں رہنے کا پیغام دیا جا رہا ہے۔ ملک میں مطلق العنانیت مسلط کرنے کی یہ کوشش کوئی نیا رویہ نہیں ہے لیکن جب کوئی بزعم خویش منتخب حکومت آواز دبانے کے اس افسوسناک طریقہ کا حصہ بنے گی تو اسے خود ہی اس کی سب سے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ عمران خان ہو یا کوئی دوسرا مقبول لیڈر اگر وہ اس گمان میں مبتلا ہو جائے کہ اس کی ’کرسی‘ مضبوط ہے تو وہی اس کے خوف کی علامت بھی ہوتا ہے۔ اس گمان کو یقین میں بدلنے کے لئے، وہی ہتھکنڈے اختیار کیے جاتے ہیں جو اس وقت حکومت وقت کا شیوہ ہے۔ اسے معلوم بھی نہیں ہوتا لیکن اس طریقہ سے وہ قدم بہ قدم خود ہی اپنے زوال اور گمنامی کی طرف قدم بڑھ رہی ہوتی ہے۔

صحافیوں اور میڈیا کو ہراساں کرنے کے لئے مالی دباؤ کے علاوہ پیمرا جیسے اداروں کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ پروگرام بند کرنا اور ٹی وی اسٹیشن پر جرمانہ عائد کرنا معمول بن چکا ہے۔ اس وقت ملک کے بہترین صحافی اور اینکروں کو کوئی بھی میڈیا ہاؤس کام دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ کوئی غیر ملکی صحافی عزت مآب وزیر اطلاعات سے پوچھ لے کہ یہ کیسی آزادی ہے جہاں لوگوں کو کام سے نکال دیا جاتا ہے اور کوئی بھی ادارہ انہیں ملازم رکھنے پر آمادہ نہیں ہوتا تو فواد چوہدری جیسا وزیر کسی کہنہ مشق اور ممتاز صحافی کے بارے میں یہ کہتے ہوئے کوئی شرمساری محسوس نہیں کرتا کہ ’میں تو اسے صحافی ہی نہیں مانتا‘۔ گویا ملک میں صرف اس شخص کو قلم پکڑنے یا ٹی وی پروگرام کرنے کا اجازت ہو گی جو وزیر اطلاعات سے قبولیت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرے گا۔ اسے اگر آزادی کہا جائے گا تو پابندی اور مجبوری نہ جانے کیا ہوتی ہے۔

عمران خان اور ان کے ساتھی ایک طرف آزاد میڈیا کا راگ الاپتے ہیں اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ حکومت میڈیا کی شدید مگر ناجائز تنقید کی زد میں رہتی ہے۔ حالانکہ پاکستانی میڈیا کا قاری یا سامع اس بات کی گواہی دے سکتا ہے کہ مین اسٹریم میڈیا اس وقت سرکاری درباری سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس پر مستزاد صحافیوں کو اٹھا کر، انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر، خفیہ پیغامات کے ذریعے ہراساں کر کے خوف و دہشت کی کیفیت پیدا کی گئی ہے۔ ملک کی جمہوری حکومت ایسے غیر قانونی کام کرنے والے اداروں کی ترجمان بنی ہوئی ہے اور اپنی بساط کے مطابق انہیں ’تحفظ‘ فراہم کرتی ہے۔ رہی سہی کسر نیا میڈیا آرڈی ننس لا کر پوری کی جا رہی ہے جس میں سرکاری بیورو کریسی ہمہ قسم میڈیا کو کنٹرول کرنے، ضابطہ اخلاق مرتب کرنے، صحافت کے اصول سمجھانے اور ٹریبونل بنا کر ’ریڈ لائنز‘ عبور کرنے والے صحافیوں اور اداروں کو سزائیں دینے کی مجاز ہوگی۔ دنیا کے کسی ملک میں میڈیا کی نگرانی کے کسی ایسے ادارے کا تصور نہیں کیا جا سکتا جس میں صحافیوں اور میڈیا مالکان کو نہ نمائندگی دی جائے اور نہ ہی ان کی رائے سنی جائے۔

فواد چوہدری مغربی ممالک سے میڈیا کی آزادی کا مقابلہ کرتے ہوئے جن ریڈ لائنز کا حوالہ دے رہے ہیں، ان میں بعض اداروں اور تصورات کو تقدیس کے غیر ضروری منصب پر فائز کیا گیا ہے۔ اس طرف انگلی اٹھانے والا کوئی بھی شخص معتوب کیا جائے گا یا بھارتی ایجنٹ کہا جائے گا۔ پاکستان میں کوئی بھی اسلام دشمن یا بھارتی لابی کا حصہ ہونے کا الزام برداشت نہیں کر سکتا۔ اس ناروا ہتھکنڈے کے ذریعے حکومت ملکی میڈیا کو بے دست و پا کرنے والا قانون نافذ کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ پاکستانی صحافی و وکلا تنظیمیں میڈیا اتھارٹی بنانے کی تجویز کو آزادی رائے پر براہ راست حملہ قرار دے چکی ہیں۔

اس دوران تین عالمی تنظیموں ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے ملک میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں اور ان کی حفاظت کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اطلاعات ان دعوؤں کو ’حقائق کے منافی‘ قرار دیتے ہیں۔ کیوں کہ جس ’سچائی‘ میں فواد چوہدری زندہ ہیں اس کا تعلق آزادی رائے سے نہیں بلکہ اقتدار تک پہنچنے کے راستے سے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments