بیانیوں کا تصادم


جدیدیت کے جن تجربات اور ہیجانات سے ترقی یافتہ قومیں تین سو سال کے عرصے میں گزری ہیں، ہمارے ہاں ان کی جھلک پچھلے بیس سالوں میں نظر آ رہی ہے۔ جب تبدیلی اتنی تیز ہو تو اس کو سمجھنا اور سمت دینا آسان نہیں ہوتا۔ ہم سب اپنے اپنے خول میں بند تھے اور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اچانک اس خول کو توڑ کر ہمیں ایک عالمی بھیڑ بھاڑ والی شاہراہ پہ لا کھڑا کیا ہے۔ ہماری پرائیویسی کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ گئی ہے اور بہت کچھ آشکار ہو رہا ہے۔

ایسی صورت حال میں ہم میں سے اکثر اپنی اپنی شناخت کو منوانے اور دوسروں کی شناخت کو سمجھنے کے عمل سے گزر رہیں۔ ہیں۔ ہم یکا یک اپنے سے مختلف کلچرز، سیاسی نظریات، صنفی شناختیں اور مذہبی عقائد کے لوگوں سے روبرو ہو رہے ہیں۔ لیکن ہمارے تعلیمی نظام نے ہمیں اس انسانی گونا گونی کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں کیا ہے۔

ہم اس بات کو سمجھنے کے لئے شاید فکری طور پر تیار نہیں کہ ایک ہی معاشرے میں اور ایک ہی وقت پہ ایک سے زیادہ سماجی، سیاسی، اخلاقی معاشی اور روحانی سچائیوں کے بیانیے ہو سکتے ہیں۔

سچائی اور حقیقت میں فرق ہوتا ہے سچائی کا تعلق ذاتی نقطہ نظر پہ منحصر ہوتا ہے اور ذاتی نقطہ نظر شخصی، گروہی اور ثقافتی تجربے، رجحانات اور تاریخی بیانیوں سے تشکیل پاتا ہے۔ مثلاً میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری والدہ کے ہاتھ کا بنایا ہوا کھانا دنیا کا لذیذ ترین کھانا ہے یہ میری سچائی ہے جبکہ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی والدہ کے ہاتھ کا بنایا ہوا کھانا سب سے لذیذ ہے۔ یہ ان کی سچائی ہے۔ ایک ہی وقت میں کئی سچائیاں ہو سکتیں ہے۔

ہم سماجی، سیاسی، روحانی اور جمالیاتی سچائیوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ جب کہ حقائق کا تعلق قابل مشاہدہ ثبوت سے ہوتا ہے۔ مثلاً سورج روشن ہے، درخت پہ پھل لگتے ہیں، پانی گرم ہے وغیرہ یہ سب حقائق ہیں۔ جب ہم حقیقت اور سچائی کے درمیان فرق نہیں کر پاتے تو سچائی کو حقیقت کے طور پر پیش کر کے یہ توقع کرتے ہیں کہ دوسرے بھی ہماری سچائی کو قبول کریں۔ اور اگر اس فکری رجحان کے ساتھ طاقت بھی ہاتھ لگے تو فاشزم وجود میں آتا ہے جو اپنی سچائی کو مسلط کرنے کے لئے ٹکراو اور جبر کے راستوں کا انتخاب کرتا ہے۔ اس طرح کی تاریخی اور سماجی نرگسیت کی انگنت مثالیں ہماری مروجہ بیانیوں میں دیکھی جا سکتیں ہیں۔

یہ روز مرہ مشاہدے کی بات ہے کہ جب کوئی دوسرا فرد معاشرہ، سیاست، عقائد، معیشت، اخلاقی اقدار، صنفیت اور کلچر کے بارے میں ہم سے مختلف رائے رکھتی/رکھتا ہے تو ہم میں سے اکثر اضطراب، بے چینی اور تناو کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور یہ تناو بعض اوقات گالی گلوچ، کفر کے سرٹیفیکیٹس، غداری کے القابات، بے حیائی کے الزامات اور بربادی کے نوحوں کی صورت میں سوشل میڈیا کی پوسٹس میں نظر آتا ہے۔ اس میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔

اپنے اپ کو لبرل کہنے والے کچھ افراد قدامت پسندوں کو انگلیوں سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے اکیسویں صدی کی جدیدیت کی رنگوں میں رنگنا چاہتے ہیں، اور بہت سارے قدامت پسند لبرل لوگوں کو عقائد، اقدار اور معاشرے کے باغی گردانتے ہوئے اپنی چال ڈھال تبدیل کرنے کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ جو روایت پسندی اور جدیدیت پسندی کے معاملے میں متوازن رویہ رکھنا چاہتے ہیں وہ تذبذب، خوف مصلحت اور ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔

مجموعی طور پر معاشرہ اس وقت تقسیم ہے۔ ہمارے ارد گرد بیانیوں کا ایک دنگل جاری ہے۔ اس دنگل میں ہر ویٹ کیٹیگری کے پہلوان اپنی صداقت کے دعوے کا گرز چلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ملکی اور عالمی مالی اور معاشی بحرانوں نے اس تقسیم اور انتشار کو ہوا دی ہے، اور اس میں مزید تیزی بھی آ سکتی ہے۔ لیکن امید یہی ہے کہ ہم بحیثیت معاشرہ اس فکری انتشار سے نکلیں گے۔ لیکن شاید اس کی کچھ قیمت ہمیں ادا کرنی پڑے۔ وہ قیمت فرد اور معاشرے کے لئے الگ الگ بھی ہو سکتی ہے۔

اس قیمت کی نوعیت کیا ہوگی کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔ لیکن پورپ میں جدیدیت کے تجربات کی تاریخ کی بنیاد پر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ بے رحم قسم کی معاشرتی بیگانگی، ، منڈی کی اجارہ داری، رشتوں کو روندتی شخصی آزادی، شہری آزادیوں کا سلب ہونا، جارح قسم کی روایتی انتہا پسندی اور نفسیاتی صحت کے پیچیدہ مسائل کا انبار اس تبدیلی کی قیمت ہو سکتی ہے۔ اس کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لئے ایک متوازن بیانیے کے خدو خال تشکیل دے کے تعلیمی نصابوں، ممبر و محراب اور میڈیا کے ذریعے لوگوں کی تربیت کرنی ہوگی ورنہ بیانیوں کا یہ تصادم خدانخواستہ جسمانی تصادم میں تبدیل ہو جائے تو سنبھلنا مشکل ہوگا۔

جب سوشل میڈیا نہیں تھا تو معاشرے کے طبقات کو پروگرام کرنا، معلومات کو کنٹرول کرنا اور حالات کو قابو میں لانا آسان تھا۔ اب جب کہ معلومات تک رسائی آسان ہوا ہے تو کسی ایک فرد گروہ یا ادارے کے لئے معاشرے میں کسی بٹن کو ان اف کر کے حالات قابو کرنا اسان نہیں رہا ہے۔ بد قسمتی سے آج امن کے مقابلے میں بد امنی اور معلومات کے مقابلے میں گمراہ کن پروپیگنڈا کرنا اسان بن گیا ہے۔ اور یہ پروپیگنڈا اندر سے بھی ہو سکتا ہے اور باہر سے بھی۔

اس سے نبرد آزما ہونے کے لئے معاشرے کی مجموعی تعلیم و تربیت ضروری ہے تاکہ عدم برداشت، تشدد، اور قومی، ریاستی، اور مفاد عامہ کے راستے میں اڑے آنے والے رویوں کو معتدل بنانے میں مدد اور رہنمائی مہیا کی جاسکے۔ اس کے بغیر قومی یکجہتی، ملکی ترقی اور سلامتی کے اہداف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ اس حوالے سے چند مشکل مگر حقیقت پسندانہ پالیسی ساز فیصلے لینے ہوں گے جیسا کہ

کسی بھی حوالے سے نفرت پھیلانے کی اجازت نہ ہو۔
جمہوری اداروں اور رویوں کو اور بھی مضبوط کیا جائے تاکہ معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکے۔
عدلیہ اور قوانین میں اصطلاحات ضروری ہیں تاکہ سماجی عدل کو یقینی بنایا جا سکے
بنیادی انسانی آزادیوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
آئین کے مطابق مختلف مذاہب اور نسل کے لوگوں کی مذہبی آزادی اور عقائد کا احترام یقینی بنایا جائے
اساتذہ کی تربیت کو اکیسویں صدی کے مہارتوں سے ہم آہنگ کیا جائے

تعلیمی نصاب میں برداشت، اپنے سے مختلف لوگوں کے ساتھ جینے اور کام کرنے کی تربیت اور تنقیدی نقطہ نگاہ کو پروان چڑھانے پہ زور دیا جائے۔

میڈیا کو منفی سوچ اور رویوں کے خلاف ایک محرک کے طور پر استعمال کیا جائے جہاں تعمیری تنقید اور مکالمے کو فروغ دیا جاسکے۔

نوجوانوں کے لئے کھیل کود، ثقافتی سرگرمیوں، اور تخلیقی اظہار کے لئے مواقع فراہم کیے جائیں۔

اگر اس بارے میں ہم نے دیر کر دی تو ہمارے معاشرے میں نفرت، غصے اور فرسٹریشن کی چنگاریاں دبی دبی سلگ رہیں ہیں، جس کو کوئی بھی فرد داخلی ہا خارجی طور پر ہوا دے کر اگ اور انگاروں میں بدل سکتے ہیں۔ ہمیں معاشی، ماحولیاتی اور انسانی ترقی کے بہت بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ہم زیادہ دیر ان مسائل کو کارپٹ کے نیچے دبا نہیں سکتے۔ ان مسائل سے نکلنے کے لئے داخلی اور خارجی امن کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو مہارتیں سکھا کے ان کی توانائی کو ملکی ترقی کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ایک مضبوط اور محنتی قوم ہیں۔ ہمارے پاس بہترین دماغ اور قدرتی وسائل موجود ہیں۔ اگر ہم صرف اپنی قومی ترجیحات کا تعین کریں تو یہ ملک ایک عظیم ملک بن سکتا ہے۔ انشاء اللہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments