کرنیل نی، جرنیل نی


آج کل سوشل میڈیا پر جنرل رانی کا چرچا ہے۔ نوجوان نسل کی اکثریت کے لیے یہ نام نیا ہے۔ وہ اسے جنرل حمید گل ٹائپ ہی کی کوئی شخصیت سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب نام کے ساتھ جنرل کا سابقہ ہو تو کچھ چوں چراں کی گنجائش موجود نہیں رہتی۔ حامد میر کے خلاف ”برپا“ کیے گئے مظاہروں کے شرکاء بھی جنرل رانی کی توہین پر چراغ پا نظر آئے۔ ایک صاحب سے جب استفسار کیا گیا کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ جنرل رانی کون ہیں تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ جو بھی ہو، ہے تو کوئی جنرل ہی نا۔ جیسے ڈگری ڈگری ہی ہوتی ہے، چاہے اصلی ہو یا جعلی۔ بعینہ ایسے ہی جنرل جنرل ہی ہوتا ہے، چاہے رانی ہو یا رانا۔ جنرل رانی تو پھر بھی جرنیلی کے منصب اعلیٰ پر متمکن تھیں، یہاں تو ایک کرنل ہی ”مان“ نہیں۔

”کرنیلی“ کی عظمت کے ہم منکر تو پہلے بھی نہ تھے۔ ظاہر ہے کہ ہر جنرل کبھی کرنل رہا ہوتا ہے اور ہر کرنل مستقبل کا جنرل ہوتا ہے۔ سو یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کرنیلی اور جرنیلی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جنرل رانی بھی کبھی کرنل رانی رہی ہوں گی۔ وہ ٹیلی وژن چینلز کی بھرمار کا دور نہ تھا، ورنہ ریٹائرمنٹ کے بعد یقیناً دفاعی تجزیہ کار ہوتیں۔ تو جیسا کہ اوپر اعتراف کیا گیا ہے کہ کرنیلی کی عظمت پر ہمارا ایمان راسخ تو پہلے ہی تھا، مگر چند روز قبل ایک کرنل صاحب کے جاہ و حشم کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع میسر آیا تو اسے مزید تقویت حاصل ہوئی۔

موقع میسر بھی آیا تو ایک ہئیر سیلون میں جہاں سادہ لباس میں ملبوس ایک کرنل صاحب ہمراہ مصاحبین اپنی کٹنگ کروانے میں مصروف تھے۔ سیلون کے سی۔ ای۔ او ( جو وہ خود کو کہلوانا پسند کرتے ہیں ) دیگر تمام گاہکوں کو نظر انداز کر کے پروانہ وار کرنل صاحب کے طواف میں مشغول تھے۔ ان کی لگن سے عیاں تھا کہ وہ کس شدت سے کرنل صاحب کے حلقۂ ارادت میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔ یہ حضرت کرنل صاحب کی وجاہت اور فراست پر واری واری جاتے اور انتظار گاہ کے صوفوں پر براجمان کرنل صاحب کے مصاحبین ان کے ہر مصرعہ پر گرہ لگاتے۔

بادشاہ سلامت کے تاثرات سے عیاں تھا کہ وہ درباریوں کی ”پرفارمنس“ سے شدید قسم کے محظوظ ہو رہے ہیں۔ اسی دوران کرنل صاحب کو یہ آفر دی گئی کہ وہ ملحقہ لیڈیز بیوٹی پارلر میں بھابھی صاحبہ کو لا کر خدمت کا موقع دیں جہاں شہر کی بڑی بڑی بیگمات آتی ہیں۔ جب سی۔ ای۔ او صاحب نے باقاعدہ ہاتھ کے اشاروں سے سمجھایا کہ جب بھابھی صاحبہ تشریف لائیں گی تو ان کا پروٹوکول یوں اوپر رکھا جائے گا اور دیگر بیگمات کا پروٹوکول ان کے مقابلے میں اتنا نیچے لے آیا جائے گا تو اندازہ ہوا کہ میرا پروٹوکول اتنا نیچے کیسے آ گیا ہے۔

یہ سوچ کر خود کو تسلی دی کہ جب شہر بھر کے روساء کی بیگمات کرنل صاحب کی بیگم کے پروٹوکول کی تاب نہیں لا سکتیں تو کرنل صاحب کے سامنے ہماری کیا اوقات ہے۔ قصہ مختصر بیس پچیس منٹ کے انتظار کے بعد جب کرنل صاحب کی کٹنگ کے خاتمے کے بعد ان کی داڑھی کی تراش کا آغاز ہوا تو کسی دوسرے ہئیر ڈریسر سے کٹنگ کروانے ہی میں عافیت جانی۔

اسی واقعے سے اندازہ لگائیں کہ جب ایک کرنل کی آن، بان اور شان کا یہ عالم ہے تو ایک جنرل کا ”پروٹوکول“ کیا ہو گا۔ چہ جائیکہ جنرل ہونے کے ساتھ ہی ساتھ رانی بھی ہو۔ شطرنج کی ملکہ کی طرح رانی بھی ہر گھر چل سکتی ہے اور جب چاہے بازی پلٹ سکتی ہے۔ اب اگر رانی کی وفات کے بعد بھی پرجا اس کی جانب انگلیاں اٹھانے سے باز نہ آئے تو اس جسارت پر سیخ پا ہونا تو بنتا ہی ہے۔ ایسا رویہ ویسے بھی بزرگوں کی تعلیم کے برعکس ہے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم جاتے جاتے آنے والی پیڑھیوں کو یہ تلقین کر کے اپنا فرض منصبی ادا کرتے گئے ہیں کہ ”میرا ماہی چھیل چھبیلا، کرنیل نی جرنیل نی“ ۔ ماہی کی تو ہر خطا معاف ہوتی ہے اور اس کے ناز تو پھر اٹھانا ہی پڑتے ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ ماہی چھیل چھبیلا بھی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments