بحیرۂ عرب میں دنیا کے سب سے بڑے ‘ڈیڈ زون’ سے پاکستان کو کیا خطرات ہیں؟


کراچی — دنیا بھر میں آٹھ جون کو سمندروں کو عالمی دن منایا گیا جس میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آبی حیات کو درپیش خطرات اور سمندری طوفانوں سے انسانی آبادی کے تحفظ سمیت دیگر عوامل پر غور کیا گیا۔

سن 2018 میں سامنے آنے والی ایک تحقیق میں بحیرۂ عرب میں سب سے بڑے ‘ڈیڈ زون’ کی نشان دہی کے بعد پاکستان کی سمندری حدود میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں پر بھی اب بات ہو رہی ہے۔

عمان کی سلطان قابوس یونی ورسٹی کے تعاون سے ہونے والی مذکورہ تحقیق میں بحیرہ عرب میں دنیا کے سب سے بڑے ڈیڈ زون کی نشان دہی کی گئی تھی۔

ڈیڈ زون سمندر کا وہ حصہ کہلاتا ہے جہاں موسمیاتی تبدیلیوں اور سمندر کا پانی زیادہ گرم ہونے کے باعث آکسیجن لیول کم ہو جاتا ہے جس سے آبی حیات کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ڈیڈ زون کے حجم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا میں اب تک 500 کے لگ بھگ ڈیڈ زونز دریافت ہو چکے ہیں۔

اسی طرح نیو یارک یونی ورسٹی ابوظہبی کی جانب سے 2019 میں کی جانے والی ریسرچ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بحیرۂ عرب میں دنیا کے سب سے بڑے ڈیڈ زون کے بڑھنے سے متحدہ عرب امارات کے ساحل اور وہاں آبی حیات کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق امریکی ریاست کیلیفورنیا کے حجم کے برابر اس ڈیڈ زون کا سائز اس لیے مسلسل بڑھ رہا ہے کیوں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث سمندر میں پانی مسلسل گرم ہو رہا ہے۔

سمندر کا کون سا حصہ ڈیڈ زون کہلاتا ہے؟

ماہرین یہ نشاندہی کرتے ہیں کہ درجۂ حرارت بڑھنے کے باعث ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سمندر کے ایک خاص حصے میں ایسی کیمیائی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہاں آکسیجن کا لیول کم ہوجاتا ہے، اور پھر وہاں آبی حیات کی نمو اور ان کی بقا ممکن نہیں رہتی۔ اس کے ساتھ آبی نباتات کا اگنا بھی اس مخصوص علاقے میں ممکن نہیں رہتا۔ وہاں صرف وہی جانور یا پودے باقی رہتے ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے بہت کم آکسیجن درکار ہوتی ہے۔

گلوبل وارمنگ یعنی درجہ حرارت میں اضافہ سے پیدا ہونے والے یہ اثرات اس ڈیڈ زون کے باہر بھی کئی ہزار کلومیٹرز تک محسوس کیے جاتے ہیں اور یوں سمندروں کا ایکو سسٹم یعنی قدرتی نظام متاثر ہو جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر اس ڈیڈ زون کے بڑھتے ہوئے سائز پر توجہ نہ دی گئی تو اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ یہ پاکستان پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔ سمندر جو دنیا کی 50 فی صد آکسیجن پیدا کرنے اور 30 فی صد کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے ذمے دار ہیں، وہاں اس عمل سے آکسیجن پیدا کرنے میں تیزی سے کمی آسکتی ہے۔

پاکستان کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف میری ٹائمز افیئرز میں سینئر ریسرچر نغمانہ ظفر کا کہنا جس طرح جنگلات انسانی زندگی کے لیے ضروری ہیں، اسی طرح سمندر بھی اتنی ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ لہذٰا خشکی کی طرح ان کا بھی آلودگی سے پاک رہنا ضروری ہے۔

‘سمندری نظام میں خلل کے اثرات ساحلی شہروں پر نمایاں ہو رہے ہیں’

نغمانہ ظفر نے بتایا کہ بحیرۂ عرب کے ساحلی شہروں بالخصوص کراچی پر سمندری ماحولیاتی نظام کے اثرات بخوبی سامنے آنے لگے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ برسوں سے کراچی کے موسم میں واضح فرق دیکھا جا رہا ہے جہاں گرمی کی لہریں (ہیٹ ویوز) شدت سے آ رہی ہیں کیوں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر کا پانی گرم ہو رہا ہے۔

نغمانہ کہتی ہیں کہ سطح سمندر بلند ہو رہی ہے اور نتیجتاً اس سے سمندری نظام میں خلل پڑنے سے سمندری ہواؤں کا تسلسل اکثر منقطع ہو جاتا ہے اور یوں گرمی کی شدید لہر محسوس کی جاتی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ ہیٹ ویو یعنی شدید گرمی کی لہر کی وجہ سے 2015 میں کراچی میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان بھی ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ شدید گرمی کی یہ لہر سمندر کے بڑھتے ہوئے لیول ہی کے اثرات ہیں۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس میں آںے والے عرصے میں مزید اضافہ ہو گا۔

ماہرِ ماحولیات رفیع الحق کا کہنا ہے کہ سمندروں ہی کی وجہ سے زمین پر گرمی، سردی، خزاں، بہار اور برسات جیسے موسم ملتے ہیں۔ لیکن سمندروں کے سائیکل میں خلل پڑنے کی وجہ سے زمین پر موسم غیر متوازن ہو جاتے ہیں۔ جہاں گرمی ہے وہاں سردی بڑھ جائے گی، جہاں سردی ہے وہاں بارش شروع ہو جائے گی۔

ماہرین کے مطابق ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان میں سمندر کا لیول بڑھنے سے متعلق فی الحال کوئی ایسی ریسرچ موجود نہیں جس سے سمندروں کے بڑھتے ہوئے لیول کے اثرات کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جا سکے۔

البتہ، حال ہی میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوشنو گرافی نے دیگر اداروں سے مل کر اس حوالے سے ریسرچ پروگرام شروع کیا ہے جس کے نتائج آنے میں پانچ برس کا عرصہ لگے گا۔ یہ منصوبہ سپارکو، پاکستان بحریہ کے ہائیڈرو گرافک ڈپارٹمنٹ اور پاکستان کونسل آف ریسرچ نے مشترکہ طور پر شروع کیا تھا۔

‘ساحلی علاقوں کی ترقی بہت زیادہ منظم نہیں ہے’

نغمانہ ظفر کے مطابق اس وقت ملک میں ساحلی علاقوں میں اگر کوئی ترقیاتی کام ہو بھی رہے ہیں تو وہ اس قدر منظم نظر نہیں آتے۔

اُن کے بقول ساحلی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے یا پھر عمارتوں کی تعمیرات کے لیے فی الحال ماحولیاتی قوانین پر سختی سے عمل نہیں کیا جا رہا۔

نغمانہ کہتی ہیں کہ مثال کے طور پر یوں دیکھا جا سکتا ہے کہ صوبائی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی ابتدائی اندازوں ہی کی بنا پر بہت سے منصوبوں کی منظوری دے دیتی ہے۔ بعد میں معاملہ اگر سنگین نکل آئے تو لوگ عدالتوں سے جا کر حکم امتناع لے لیتے ہیں یا اس پر کئی دیگر مسائل چل رہے ہوتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق جب سمندر آلودہ ہو گا تو سب سے پہلے ماہی گیری کی صنعت سے جڑے افراد کو روزگار کے خاتمے کی صورت میں نقصان پہنچے گا اور پھر بعد میں یہی افراد میری ٹائم کرائمز جیسی غیر قانونی تجارت منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر جرائم میں ملوث ہوسکتے ہیں۔

سمندروں کی بقا کے لیے کیا کرنا ضروری ہے؟

ماہر ماحولیات رفیع الحق کے مطابق سمندری نظام کو بچانے اور آبی حیات کی بقا کے لیے انسانوں کو صحت مندانہ اور ماحول دوست طرز زندگی اپنانا ہو گا۔

اُں کے بقول پلاسٹک کے استعمال اور اسے ضائع کرنے کو روکنا ہو گا جب کہ صنعتوں کے فضلے کو باقاعدہ ٹریٹ کر کے ہی سمندر میں ڈالنے پر زور دینا ہو گا۔

رفیع الحق کہتے ہیں کہ عام لوگوں میں شعور بھی اجاگر کیا جائے کہ زمین پر انسانوں کی بقا کے لیے صاف سمندر ہونا بے حد ضروری ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments