حامد میر کی معذرت: ‘امید ہے معاملہ جلد حل ہو جائے گا’


فائل فوٹو
اسلام آباد — پاکستان کے سینئر صحافی حامد میر نے راول پنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کی بنائی گئی کمیٹی کے توسط سے نیشنل پریس کلب کے باہر کی گئی تقریر پر معذرت کر لی ہے۔

کمیٹی کے رکن اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سابق صدر افضل بٹ کا کہنا ہے کہ حامد میر نے تقریر کے دوران جو الزامات عائد کیے تھے ان پر صحافتی روایات کے مطابق معذرت کی ہے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر حامد میر نے ایک تقریر کے دوران ریاستی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر صحافیوں پر گھروں میں گھس کر آئندہ تشدد کیا گیا تو وہ طاقت ور افراد کے گھروں کی باتیں عوام کو بتائیں گے۔

انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف پر بھی شدید تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ “صحافیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امیگریشن کے لیے باہر بھاگ جاتے ہیں لیکن صحافی یہیں موجود ہیں، لیکن سابق جرنیل اور سابق صدر مشرف ملک سے بھاگ گئے ہیں۔”

حامد میر کی اس تقریر کے بعد ‘جنگ جیو گروپ’ نے انہیں ان کے پروگرام ‘کیپٹل ٹاک’ سے آف ائیر کر دیا تھا۔ اس کے بعد اس معاملے کے حوالے سے پی ایف یو جے نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی اور حامد میر کو مزید بات کرنے سے روک دیا تھا۔

راول پنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (آر آئی یو جے) کے لیٹر پیڈ پر منگل کو جاری ایک بیان میں حامد میر اور دیگر کمیٹی ممبران کے دستخط موجود ہیں جس میں حامد میر کی طرف سے معذرت نامہ جاری کیا گیا ہے۔

اس بیان میں کہا گیا ہے کہ 28 مئی کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر پی ایف یو جے کے مظاہرے میں صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کی مذمت کی جا رہی تھی اور حامد میر پر ہونے والے حملے سمیت دیگر صحافیوں پر ہونے والے حملوں کے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا جا رہا تھا۔

بیان کے مطابق حامد میر کا کہنا ہے کہ “میری تقریر سے پیدا ہونے والے غلط تاثر کا مجھے بخوبی احساس ہے اور میں بغیر کسی دباؤ کے اپنے ضمیر، احساسِ ذمہ داری اور مروجہ صحافتی اقدار کے تحت واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے نہ اپنی تقریر میں کسی فرد کا نام لیا اور نہ ہی میری فوج سے کوئی لڑائی ہے۔ میں فوج کا بحیثیتِ ادارہ احترام کرتا ہوں، میں نے سیاچن سے لیکر لائن آف کنٹرول تک اور فاٹا سے بلوچستان تک فوج کی قربانیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور ان کی کوریج کو باعث فخر سمجھا۔ میرا مقصد ہرگز کسی کی دل آزاری اور جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں تھا، لیکن میرے الفاظ سے پہنچنے والی تکلیف پر میں تہ دل سے معذرت خواہ ہوں۔”

اس بیان میں حامد میر نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ صحافیوں پر حملوں کا سلسلہ رکوایا جائے اور ان حملوں کے ذمہ داروں کو گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

پی ایف یو جے نے اس بیان پر اتفاق کرتے ہوئے توقع ظاہر کی ہے کہ اب یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو جائے گا۔

‘فی الحال معاملے پر مزید بات نہیں کروں گا’

اس بارے میں سینئر صحافی حامد میر سے ردعمل کے لیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پی ایف یو جے کی طرف سے ان پر اس بارے میں بات کرنے پر پابندی ہے لہذا وہ فی الحال اس پر مزید بات نہیں کریں گے۔

انہوں نے آر آئی یو جے کے اس خط کی تصدیق کی اور نجی ٹی وی چینل ‘جیو نیوز’ پر آن ائیر ہونے کے حوالے سے حامد میر نے کہا کہ جیو کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔

پی ایف یو جے کے سابق صدر افضل بٹ نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری صحافتی روایات اور اقدار کے مطابق اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اخبار میں اگلے روز پہلے صفحے پر تصحیح کا نوٹ چھاپا جاتا ہے۔

ان کے بقول، “حامد میر کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے کہ انہوں نے جو چند باتیں کی تھیں ان کا کوئی ثبوت ان کے پاس موجود نہیں تھا۔ لہذا، انہوں نے کمیٹی میں معذرت کرلی تاکہ اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معاملہ ختم کر دیا جائے۔”

افضل بٹ نے مزید کہا کہ یہ معذرت ہم نے خالصتاً صحافتی اصولوں کے پیش نظر کی ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ پی ایف یو جے کے پلیٹ فارم سے تقریر کے دوران بعض ایسی باتیں ہوئیں جن کے ثبوت موجود نہیں تھے۔ لہذا اس صورتِ حال میں بہتر یہی ہے کہ ہم نے مثبت رویہ رکھتے ہوئے معذرت کی ہے اور امید ہے کہ یہ معاملہ جلد حل ہوجائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ اب تک ان کا کسی حکومتی ادارے، ریاستی ادارے یا جیو کی انتظامیہ کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا۔

یاد رہے کہ حامد میر گزشتہ 35 برس سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں اور گزشتہ 20 سالوں سے جیو ٹی وی پر ان کا پروگرام ‘کیپٹل ٹاک’ ہفتے میں چار روز نشر ہوتا ہے۔

گزشتہ ماہ صحافی اسد طور پر تین نامعلوم افراد کی جانب سے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعے کے بعد حامد میر نے نیشنل پریس کلب کے باہر ہونے والے مظاہرے میں اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی تھی۔ بعدازاں, سوشل میڈیا پر ان کی مخالفت اور حق میں ٹرینڈ سامنے آئے تھے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments