پاک۔ افغان مشترکہ اقدار سے انحراف نا ممکن!


افغان امن مفاہمتی عمل میں پاکستان مثبت اور کلیدی کردار ادا کر رہا ہے جو خطے میں مستحکم و پائیدار امن کے لئے تاریخی ہے۔ مفاہمتی عمل کو ناکام بنانے والے عناصر، افغان عوام کو تشدد اور دہشت گردی سے آزادی دلانے کے بجائے فروعی مفادات کو اہمیت دیتے ہیں، اسی لئے جب بھی افغان امن مذاکرات میں پیش رفت ہوتی ہے تو ذرائع ابلاغ کا سہارا لے کر پورے عمل کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔ غنی انتظامیہ کے بیشتر وزرا اور حکام کی جانب سے پاکستان کے خلاف دشنام طرازی نئی نہیں، ایک مرتبہ پھر افغان قومی سلامتی کے مشیر نے اپنی انتظامیہ و سیکورٹی فورسز کی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی متحمل و ٹھنڈے مزاج کی سیاسی شخصیت ہیں، لیکن اس بار ان سے بھی برداشت نہ ہوسکا اور کابل انتظامیہ کے عہدے دار کی بدزبانی پر کرارا جواب دیا کہ پاکستان اب کسی کے دباؤ میں نہیں آئے گا، انہوں نے افغان قومی سلامتی مشیر کو مخاطب کرتے ہوئی کہا کہ ”پاکستان پر تہمت لگاتے ہوئے شرم کرو، اپنا رویہ بدلو اور زبان کو لگام دو، ورنہ پاکستان تم سے بات کرنے کا بھی روادار نہیں ہوگا اور، نہ ہی کوئی پاکستانی ہاتھ ملائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب سے افغان مشیر  نے پاکستان کے خلاف زہر اگلا ہے ان کا خون کھول رہا ہے، پاکستان نے افغانستان میں امن کی بھاری قیمت چکائی ہے“ ۔

صبر کا پیمانہ لبریز اسی لئے ہوتا ہے کیونکہ شر انگیز بیانات و وطن عزیز کے خلاف سازشوں سے امن کے لئے کی جانے والی کوششوں میں رکاؤٹ پیدا ہوتی ہے، جو کہ خطے میں جاری چار دہائیوں سے جاری جنگ کو ختم نہ کرنے کی مذموم منصوبہ بندی بھی قرار دیا جا سکتی ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں امریکہ و نیٹو افواج کے انخلا کے حوالے سے دو طرفہ بحث و مباحثہ جاری ہے، اگر مثبت لیا جائے تو اس سے افغانستان کے مستقبل پر غور و فکر کرنے کا موقع بھی قرار دیا جاسکتا ہے، دوم اس کے مضمرات کو دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ افغانستان میں اقتدار کے رسہ کشی کے لئے امن عمل کو دشوار گزار بنایا جا رہا ہے اور ایسے عناصر عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں، جس کا فائدہ صرف کرپٹ اور امن دشمن عناصر کو پہنچ رہا ہے۔

کابل انتظامیہ کے بیشتر عہدے دار اپنی حاشیہ بردار حکومت کے مخدوش مستقبل کو محسوس کرچکے ہیں اس لئے اشتعال انگیز و بے بنیاد الزامات کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جو پاکستان کی کاوشوں و احسانات کو فراموش کرنے کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ افغانستان میں سوویت یونین کی جنگ سے لے کر امریکہ کے انخلا تک، بے امنی کی وجہ امن دشمن عناصر ہی ہیں، جنہوں نے افغان عوام کو محفوظ و مستحکم مستقبل دینے کے بجائے انارکی و خلفشار کا ماحول پیدا کیا، جس کا نقصان پاکستان کو بھی پرائی جنگ میں دہشت گردی کی صورت ملا۔

امریکہ و نیٹو افواج کے جانے کے بعد پاکستان کو سیکورٹی معاملات میں مزید امتحانات سے گزرنا ہوگا کیونکہ کابل انتظامیہ نہیں چاہتی کہ افغانستان اور پاکستان میں امن ہو کیونکہ جنگ ہی ان کے اقتدار کی مدت کو بڑھاتی ہے۔ بے امنی کی وجہ سے عوام کے لئے ترقی کے راستے بند اور عالمی امدادی فنڈ میں خرد برد و کرپشن کے دروازے کھلتے ہیں، کئی عالمی ادارے افغان حکام کی کرپشن کی داستانیں دنیا کے سامنے لا چکے ہیں، ان حالات میں سمجھا جاسکتا ہے کہ تشدد کی ایسی کارروائیاں کیوں ہو رہی ہیں جس کا افغان طالبان سے واضح تعلق نظر نہیں آتا بلکہ مبینہ طور پر کابل انتظامیہ پر سوال اٹھتے ہیں۔

امریکی فوج کے ادارے سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) کے مطابق افغانستان سے 31 مئی تک امریکی فوج کے انخلا کا 30 سے 44 فیصد کام مکمل ہو گیا ہے۔ فوجی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے تقریباً نصف امریکی فوج اور فوجی ساز و سامان واپس بھیجا جا چکا۔ اسی طرح بھاری مقدار میں اس سامان کو تلف کر دیا گیا جو ساتھ نہیں لے جایا جا سکتا۔ مجموعی طور پر اب تک لگ بھگ اتنا سامان افغانستان سے واپس بھجوایا جا چکا ہے جتنا کہ 300 سی۔

17 طیاروں پر لادا جا سکا تھا۔ اسی طرح ڈیفنس لاجسٹکس ایجنسی کے پاس 13 ہزار آلات کے پرزے لائے گئے ہیں تاکہ انہیں تلف کیا جا سکے۔ کابل انتظامیہ کو یہ ضرور سوچنا چاہے کہ اگر ان میں اہلیت و قابلیت ہوتی تو امریکہ نے بارک اوباما کے دور میں بھی جنگی ساز و سامان کابل انتظامیہ کو دیے جانے سے اجتناب برتا، اس بار بائیڈن انتظامیہ نے بھی کابل انتظامیہ کو فوجی ساز و سامان دینے سے گریز کیا۔ کیونکہ زمینی حقائق سامنے ہیں کہ افغان طالبان ایک ماہ میں مزید سات اضلاع پر قبضہ اور 60 فیصد سے زائد حصے پر اپنا کنٹرول بھی مزید مضبوط کرچکے، کیونکہ سرکاری فورسز خوف کے باعث تا دیر مزاحمت نہیں کر پاتی، بادی النظر یہی نظر آ رہا ہے کہ کابل انتظامیہ کے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں گرفت مضبوط نہیں کیونکہ مبینہ طور پر ان کی توجہ کرپشن اور سیاسی فروعی مفادات کے حصول تک محدود رہی، کابل انتظامیہ کے عہدے داروں کو سمجھنا چاہیے کہ سوویت یونین کے جانے کے بعد جس طرح افغانستان میں خلفشار و خانہ جنگی ہوئی تھی اسے افغان طالبان نے ہی ختم کیا تھا، اب بھی اگر افغانستان میں امن آ سکتا ہے توان کے علاوہ دوسری کوئی قوت ایسی نظر نہیں آ رہی جو داعش و کابل انتظامیہ میں شامل مسلح جنگجوؤں کو روک سکیں، کم ازکم افغان سلامتی مشیر جیسے امن دشمن عناصر کی موجودگی تک تو یہ ممکن نظر نہیں آ رہا۔

کم و بیش امریکی 2500 اور نیٹو کے 7000 فوجیوں کی باحفاظت واپسی اور بین الافغان مذاکرات کے لئے غنی انتظامیہ تمام افغان اسٹیک ہولڈرز کے مطالبات کو تسلیم کر لے تو یہ پاکستان پر الزام تراشیاں لگا کر عوام کی توجہ ہٹانے سے بہتر ہوگا۔ افغان طالبان کی پیش قدمی و علاقوں کو قبضہ لینے کی وجوہ خود اقوام متحدہ کی انٹیلی جنس کی رپورٹ میں واضح طور آ چکیں کہ غنی انتظامیہ میں اتنی استعداد کار نہیں کہ وہ افغان طالبان کا مقابلہ کرسکیں، امن کا قیام اور تشدد کا خاتمہ افغان عوام کا داخلی معاملہ ہے، افغان عوام کا جو فیصلہ ہوگا، وہ پاکستان پہلے ہی تسلیم کرنے کا اعلان کرچکا لہذا ان حالات میں غنی انتظامیہ میں موجود امن دشمن عناصر کو احتیاط کا دامن تھام کر رکھنا خطے میں امن کے پائدار حل کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان فطری پڑوسی ہے، ثقافت و روایات کی یکسانیت کی وجہ سے مشترکہ اقدار سے انحراف کسی کے لئے ممکن نہیں۔ یہ کابل کو سمجھنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments