اقتصادی سروے 21-2020: پاکستان کن معاشی اہداف کو حاصل نہیں کر سکا

تنویر ملک - صحافی، کراچی


 

شوکت ترین

پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے مالی سال 21-2020 کے لیے اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے حکومت کی معاشی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ معیشت میں بہتری کے آثار پیدا ہو چکے ہیں اور یہ ’ٹیک آف پوزیشن میں پہنچ چکی ہے‘۔

وزیر خزانہ نے زیر جائزہ مالی سال میں مختلف معاشی اہداف کے حصول کا ذکر کیا جن میں ملک کی مجموعی ملکی ترقی میں 3.9 فیصد کی شرح نمو، لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں ترقی، خدمات کے شعبے میں ترقی، برآمدات میں اضافہ، سر پلس اکاؤنٹ اور ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ وغیرہ شامل ہیں۔

تاہم اقتصادی سروے میں کچھ ایسے معاشی اہداف بھی شامل ہیں جن کی کارکردگی اہداف سے کم یا منفی رہی۔ ان معاشی اہداف میں ملک کے زراعت کے شعبے میں ہدف اور گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں کم پیداوار، بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہے۔

ان شعبوں میں معاشی اہداف کے مقابلے میں ناقص کارکردگی کی وجہ سے ملک کی مجموعی اقتصادی ترقی متاثر ہوئی ہے۔

زرعی شعبے میں ہدف کے حصول میں ناکامی

کپاس

اقتصادی سروے کے مطابق کپاس کے زیر کاشت رقبے میں بھی زیر جائزہ مالی سال میں کمی دیکھنے میں آئی ہے

اقتصادی سروے کے مطابق اس سال زرعی شعبے کی کارکردگی 2.7 فیصد رہی جب کہ اس کا بجٹ میں ہدف 2.8 فیصد تھا۔ تاہم گزشتہ سال میں زرعی شعبے میں ہونے والی 3.3 فیصد ترقی سے اس سال میں اس کی کارکردگی کافی نچلی سطح پر ہے۔ زرعی شعبے کی تنزلی میں ملک کی اہم فصل کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی ہے جو زیر جائزہ مالی سال میں 22 فیصد کم ہو کر 70 لاکھ بیلز تک محدود ہو گی۔ گزشتہ مالی سال میں اس کی پیداوار 90 لاکھ بیلز سے زائد تھی۔

کپاس ملک کے سب سے بڑے برآمدی شعبے ٹیکسٹائل کا اہم خام مال ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق کپاس کے زیر کاشت رقبے میں بھی زیر جائزہ مالی سال میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ گزشتہ مالی سال میں کپاس 2517 ہزار ہیکٹر رقبے میں کاشت کی گئی تھی تاہم موجودہ مالی سال میں اس کی کاشت کے رقبے میں تقریباً ساڑھے 17 فیصد کمی دیکھنے میں آئی اور زیر کاشت رقبہ 2079 ہزار ہیکٹر رہا۔

ملک میں پیدا ہونے والی دوسری فصلوں کی پیداوار میں اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی کی وجہ سے یہ شعبہ اپنے ہدف کے حصول میں ناکام رہا اور گزشتہ سال تین فیصد سے زیادہ کی گروتھ سے بھی بہت پیچھا رہا۔

غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی

ترسیلات زر

بیرونی سرمایہ کاری کا بڑا حصہ چین سے آیا جو پاکستان میں سی پیک کے منصوبوں کے لیے تھی جو مجموعی سرمایہ کاری کا تقریباً 47 فیصد ہے

حکومت نے اقتصادی سروے میں نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں بیرون ملک سے آنے والی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی سطح پر پیدا ہونے والے حالات ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان ایمازون کی سیلرز لسٹ میں شامل: مگر ملک کو اس سے کیا فائدہ ہو گا؟

پاکستان میں بھنگ سے بنی یہ جینز کیا کپڑے کی صنعت کا مستقبل ہے؟

ملکی معاشی ترقی کا حکومتی دعویٰ: حقیقت یا اعداد و شمار کا ہیر پھیر؟

چینی،کپاس کی درآمد: پاکستان کے انڈیا سے تجارتی تعلقات کی بحالی کا فیصلہ موخر

اقتصادی سروے میں موجودہ مالی سال کے پہلے نو ماہ میں ملک میں آنے والی بیرونی سرمایہ کاری کے اعداد و شمار ظاہر کیے گئے ہیں جن کے مطابق جولائی سے مارچ کے عرصے میں اس سرمایہ کاری کی مالیت تقریباً 1.4 ارب ڈالر رہی جو گزشتہ مالی سال کے ان نو مہینوں میں دو ارب ڈالر سے زائد تھی۔

واضح رہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کا بڑا حصہ چین سے آیا جو پاکستان میں سی پیک کے منصوبوں کے لیے تھی جو مجموعی سرمایہ کاری کا تقریباً 47 فیصد ہے۔ دنیا کے دوسرے خطوں سے پاکستان میں آنے والی سرمایہ کاری کا حجم اس سال بہت کم رہا۔

بڑھتا تجارتی خسارہ

موجودہ مالی سال کے اقتصادی سروے میں پاکستان کے بڑھتے تجارتی خسارے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ سروے میں اس مالی سال کے پہلے دس ماہ یعنی جولائی تا اپریل میں بیرونی تجارت کے اعداد و شمار فراہم کیے گئے ہیں جن کے مطابق ان دس مہینوں میں ملک کا تجارتی خسارہ 21 فیصد سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔

غیر ملکی کرنسی

سروے میں جولائی تا اپریل میں بیرونی تجارت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کا تجارتی خسارہ 21 فیصد سے زائد بڑھ گیا ہے

ان مہینوں میں ملک کی مجموعی درآمدات 42.3 ارب ڈالر رہیں جو گزشتہ مالی سال کے اس عرصے میں ہونے والی 37.3 ارب ڈالر درآمدات سے ساڑھے تیرہ فیصد زیادہ رہیں۔ زیر جائزہ عرصے میں ملکی برآمدات میں ساڑھے چھ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم درآمدات میں بے تحاشہ اضافے نے برآمدات میں اضافے کے فائدے کو زائل کر دیا۔

یاد رہے کہ پاکستان نے اس سال مجموعی طور پر درآمدات کا ہدف 42 ارب ڈالر رکھا تھا تاہم دس ماہ میں ملک میں ہونے والی درآمدات اس ہدف سے تجاوز کر گئیں جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ بڑھا۔ زیادہ درآمدات کی ایک بڑی وجہ ملک میں کھانے پینے کی اشیاء کی درآمدات ہیں جب حکومت نے چینی اور گندم کی بڑھتی قیمتوں میں اضافے کو روکنے کے لیے ان دونوں اجناس کی اجازت دی جس کا منفی اثر بیرون ملک تجارت کے توازن پر پڑا۔

وزیر خزانہ شوکت ترین نے گندم اور چینی کی درآمد کو تجارتی خسارے میں اضافے کی وجہ قرار دیا ہے۔ اگرچہ ملک میں آنے والی ترسیلات زر نے بیرونی ادائیگیوں کے توازن کو مدد فراہم کی تاہم اس کے باوجود بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ ملک کے بیرون تجارت کے لیے ایک منفی رجحان کی علامت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp