مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا


میری ڈائری کا ایک ورق
منگل۔ 9 مارچ 2021

ہار جیت، فتح و شکست کوئی چیز نہیں۔ مدمقابل، فرد واحد ہو یا کوئی قوم وکٹری اسٹینڈ پر بہر صورت ایک وقت میں ایک ہی فریق کو جگہ ملتی ہے۔ دیکھا صرف یہ جاتا ہے فریقین کے درمیان مقابلہ کیسا رہا۔ کس نے کتنا زور لگایا، کس قدر جان ماری بھاگ دوڑ سنجیدگی اور دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ غیرت عزت ذلت اور موت و حیات کا مسئلہ بنایا۔ آگے نصیب اپنا اپنا۔ کہ گاہے ایک فریق محض معمولی یعنی انیس بیس کے فرق سے پٹ اور بیس والے کے سر خوش قسمتی کا تاج سج جاتا ہے۔

ہمارا یعنی ”دار السلام“ (المعروف اسلام کا قلعہ) والوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہوا وگرنہ مقابلہ تو واقعی دل ناتواں نے خوب کیا۔ بس خوبیٔ قسمت سے ”دار الکفر“ والوں نے میدان مار لیا اور ہم تھوڑا سا پیچھے رہ گئے یا یوں کہئے کہ خرابیٔ قسمت سے ہماری ستاروں پہ ڈالنے والی کمند عین اس وقت ٹوٹ گئی، جب لب بام فقط دو چار ہاتھ کی دوری پر رہ گیا تھا۔ آہ صد آہ! اور یوں یہ تاریخی معرکہ کفار نے اپنے نام کر لیا اور پھر دل جلانے والی حرکت یہ کی کہ اپنے مرکز ناسا (NASA) کی متعلقہ شاخ میں کھڑے ہو کر مارے خوشی کے جھومتے اور تالیاں بجاتے بھی نظر آئے۔ ان ”بد بختوں“ کو اللہ پوچھے۔ اگر آج بھی وہ بازی لے گئے ہیں تو اس میں کوئی نئی بات نہیں۔ ہم ”صورت خورشید“ جینے والے اہل ایمان بھی نہ کسی سے کم ہیں اور نہ ہی اس حقیقت سے بے خبر کہ

ہے جذبۂ جنوں تو ہمت نہ ہار
”جستجو“ جو کرے وہ چھوئے آسماں
”محنت“ اپنی ہو گی پہچان، کبھی نہ بھولو پاکستان۔

بھلے امریکہ اپنی آبادی اور رقبے وغیرہ کے اعتبار سے ہم پر فوقیت رکھتا ہے، لیکن اگر اس کے پاس دولت ایمان ہی نہیں تو خالی سامان فیض اور سامان تفاخر سے کیا حاصل؟

تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ امریکی خلائی تحقیق کے ادارے ناسا نے 2.07 ارب ڈالر کی لاگت سے 2 سال تک مسلسل ایک عجیب و غریب اور خطرناک ترین منصوبے یعنی پر سیو یرنس روور روبوٹ (کسی دوسرے سیارے پر بھیجی جانے والی جدید ترین فلکیاتی و حیاتیاتی لیب) پر کام کیا، 6 بہیوں والا یہ روور 7 ماہ تک مسلسل خلا میں محو سفر رہا اور پھر تقریباً 480 ملین کلو میٹر کی مسافت طے کرنے کے بعد بالآخر 18 فروری 2021 کو باحفاظت نظام شمسی کے چوتھے سیارے مریخ پر لینڈ کر گیا۔

اہل ناسا کی اس عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب کے پیچھے کیا شوق جنون کار فرما تھا؟ سائنس دانوں کا خیال تھا وہاں اربوں سالوں پہلے دریا یا جھیل کی باقیات موجود ہیں اور یہ مریخ نورد عین اس وسیع نشیبی مقام بنام جزیرو (Jezero) پر اترا جہاں اسے اتارنا مقصود تھا اور پھر اس جگہ سے مزید 2 کلو میٹر کی مسافت کے بعد وہاں رکا جو مریخ پر جیو، حیاتیاتی تحقیق کے لئے بہترین مقام سمجھا گیا۔

Perseverance Rover Robotاب اس سرخ سیارے (مریخ) پر مائیکر بیل (Microbial) زندگی کے آثار، حیات گزشتہ کی تلاش کرے گا۔

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

الحمدللہ، ہم بھی کوئی ایسے نکمے اور ناکارہ نہیں تاریخ کی اس بڑی جست کا ہم نے بھی کفار کو بڑا بھرپور اور دندان شکن جواب دیا۔ ٹھیک ہے وہ کچھ ہم سے آگے نکل گئے اور انیس بیس کے فرق سے یوں جیت گئے کہ ان کی اس کامیابی میں اور اپنی وضع کی ہماری اس عظیم الشان کامیابی کے درمیان فی الواقعی انیس بیس دنوں کا ہی وقفہ آیا۔ اہل ناسا کی ستاروں سے آگے والے جہان تک رسائی 18۔ فروری کو ممکن ہوئی جبکہ ہماری 9۔ مارچ 2021 کو۔

بد قسمتی سے ہمارا یہ فلک شگاف کارنامہ کچھ اغیار کی سازشوں اور کچھ حالات حاضرہ کی بہتات کے نیچے دب کر ہر خاص و عام کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ حالانکہ یہ ہمارے دار الحکومت جس کا نام بھی حسن اتفاق سے ”اسلام آباد“ ہے، وہاں ہمارے نگہ بلند سخن دلنواز جان پرسوز رکھنے والے حضرت مولانا عبد العزیز آف لال مسجد کے دست ہنر سے انجام پایا۔ اس کے باقاعدہ آغاز سے پہلے حضرت مولانا مد ظلہ نے پاس موجود عشاق کے ہجوم سے بڑے درد دل سوز جگر سے مگر مختصراً خطاب بھی فرمایا جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہم سب کو مجاہد بننا ہے۔

صوفوں والوں کے لئے ہمارے پاس کوئی جگہ نہیں۔ میں خود بھی گھر میں زمین پر بیٹھتا اور حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی طریق کے آدمی اور سخت صوفہ بیزار تھے۔ اس کے بعد اعلیٰ حضرت نے اپنی ”ناسا“ میں رکھے صوفہ سیٹ کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے جملہ سائنسدانوں کی بھرپور ”تربیت“ کے خیال سے نذر آتش کر دیا۔ دریں چہ شک،

انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments