خوشیاں کسی کی محتاج نہیں



گزشتہ دنوں مجھے اپنے گاؤں جانے کا اتفاق ہوا جاتے وقت تو میں نے فیصل موورز بس سروس کو ترجیح دی کیو کہ گرمی بھی شدید تھی۔ اور گھر بھی وقت پر جانا چاہتا تھا۔ یہ وقت کی پابندی کا خیال رکھتے ہیں سواری ایک ہو یا ساری گاڑی سواریوں سے بھری ہو جائے گی وقت پر۔ اور ویسے بھی سہولتیں بھی کافی ہوتی ہیں۔ اسی لیے میں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اچھی گاڑی پر سفر کیا جائے۔ مہنگائی تو ویسے بہت ہے اور سکون تو قبر میں ہی ہے۔

بقول وزیراعظم صاحب۔ خیر میں اپنے گھر خیریت سے پہنچ گیا۔ اور وہاں پر جو کام کاج تھے کر لیں اور اگلے دن واپسی کا ارادہ بنایا اس دفعہ میرے پاس سامان کافی تھا سوچا اب واپسی کے لیے کس ٹرانسپورٹ پر سفر کیا جائے۔ کیو کہ فیصل موورز والے سامان ساتھ نہیں رکھ رہیں تھے۔ تب ہی میں نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ اس بار لوکل ٹرانسپورٹ پر سفر کیا جائے۔ مگر ساتھ میں ایک ڈر بھی تھا کہ ان لوکل ٹرانسپورٹ والوں کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا پتا نہیں کہا پر اتار دے اور اگلی گاڑی کی نظر کر دے۔

مگر جب دل و دماغ کا فیصلہ ایک ہو جائے تو بڑی سے بڑی مشکل بھی ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتی ہے۔ میں دس بجے سامان کے ساتھ گھر سے نکلا اور تقریباً گیارہ بجے میاں چنوں پہنچ گیا۔ اس دن گرمی بھی بے حد زیادہ تھی اور میرے ساتھ سامان بھی زیادہ تھا۔ اور اوپر سے یہ وہم بھی تھا بھائی آج تو جانا بھی لوکل پر ہے کیا بنے گا خیر میں اڈے پر پہنچ گیا آگے ہاکر صاحب کا دیدار ہوا اور اس نے بڑے پیارے انداز میں پوچھا جناب کہاں جانا ہے آپ نے۔

میں اس کو ابھی بتا ہی رہا تھا کہ میرے روٹ کی گاڑی آئی اور اس نے مجھے گاڑی والے کے حوالے کیا اور ساتھ میں بتایا کہ یہ میری سواری ہے۔ گاڑی میاں چنوں سے روانہ ہوگی میں نے اپنی چاہ بھری آنکھوں کے ساتھ پوری بس میں سیٹ کے لیے نظر گھما دی مگر مجال ہے جو سیٹ دیکھنے کے لیے بھی مل جاتی۔ اس دوران ذہن میں گمان پیدا ہوا اللہ کے بندے تجھے سیٹ کی پڑی ہے۔ تھوڑا اپنے سامان کی فکر بھی کر لیں۔ میں نے سامان دیکھا مگر مجھے نظر نہ آیا نہ جانے کہاں گیا۔

میں نے یہ فیصلہ کیا کہ کنڈیکٹر سے پوچھتا ہوں جب میں نے اپنے سامان کے بارے دریافت کیا تو آگے سے جواب آیا ”پاہن تہاڈہ اک توڑا چھت تے ہے گا“ ۔ جیسے ہی میں نے اپنے باقی سامان کے بارے میں دوسرے کنڈیکٹر سے پوچھا تو یک لخت آواز میں بولا ”تہاڈے سامان وچ کوئی سونا سی ایتھے ہی ٹک کے کھلوتا رہ“ ۔ میں ابھی اسی پریشانی میں تھا کہ آگے ایک سٹاپ آ گیا اور اس سٹاپ سے ایک دیسی حکیم گاڑی میں سوار ہو گے۔ ان صاحب نے سب سے پہلے گاڑی میں بیٹھے لوگوں کو غور سے دیکھا اور پھر اپنی حکمت کی دکان کھول دی۔

اس ڈاکٹر صاحب نے اپنے بکس نما میڈیکل سٹور سے آنکھوں کے ڈراپ نکالے اور اس دوا کے فوائد سے پہلے جو تمہید باندھی اس کے خوبصورت الفاظ میرے کان آج بھی محسوس کرتے ہیں۔ اور بار بار یہ پکار کرتے ہیں کہ کاش وہ حکیم بابا فیصل موورز میں بھی آئے۔ اب حکیم صاحب نے دوا کھولی اور ہر مرد و زن کی آنکھوں میں زبردستی ڈالنا شروع کر دی اور اپنی تقریر کا خلاصہ مزید لمبا کرتے گئے۔ یہ منظر دیکھنے لائق تھا۔ اسی دوران دوا نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا اور عوامی رائے بھی آنا شروع ہوگی کسی نے بولا کہ بھائی اس سے تو میری آنکھوں کو بہت سکون مل رہا ہے اور کسی نے بولا کہ بہت یہ تو آنکھوں میں آنسوؤں کا سبب بن رہی ہے۔

ایک بندے نے تو کمال ہی کر دیا اور یہ فرمایا کہ مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے میری آنکھیں برف میں لگ گی ہوں۔ قیمت ڈراپ بیس روپے بیس روپے۔ یہ وہ پہلے حکیم صاحب تھے جن کی وجہ سے میرا میاں چنوں سے خانیوال کا سفر بنا کسی تھکاوٹ کے پورا ہوا۔ یہ حکیم صاحب تو وہاں اتر گے مگر ایک اور ماہر حکیم گاڑی میں سوار کروا گے۔ یہ حکیم صاحب اپنی خوش گپیوں اور اپنے رویہ کی وجہ سے مسافروں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرتے گے اور اپنے مqرر کردہ سٹاپ پر اتر گے۔

یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا اور ہر مرض کا ماہر ڈاکٹر گاڑی پر سوار ہوتا اور عوام کے رویوں کی مرمت کرتا اور اتر جاتا۔ اس گاڑی میں کوئی مثانے کی گرمی کا علاج بتاتا تو کوئی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کو ختم کرنے کے علاج بتاتا۔ یقین مانے یہ میری زندگی کا پہلا سفر تھا جا اتنا خوش اور ہنستے مسکراتے گزرا اس کا ایک ایک پل میرے جسم و جان میں گھر کر گیا اور آج بھی مجھے خوشی کا احساس دلاتا ہے۔ ہمیں ہمارے مسائل کو الگ رکھ کر کچھ لمحات میں ایسا سوچنا چاہیے جس سے ہم اور ہمارے ساتھ والے لوگ جن کی زندگیوں کی خوشیاں ہم سے جڑی ہوئی ہیں۔

ان کے لیے کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ یہ بھی خوشیاں محسوس کر سکے۔ اس دن اس گاڑی میں مجھے احساس ہوا کہ یار زندگی میں خوشیاں صرف مہنگے کپڑوں اور مہنگے جوتوں کے پہننے سے نہیں ملتی بلکہ صرف ایک میٹھے بول کے بولنے سے جو خوشی ملتی ہے وہ دنیا کی کسی آسائش میں ممکن نہیں ہے۔ ہمیں ہر طرح کے مسائل کو چھوڑ کر اللہ کریم کی عطاء کردہ زندگی کی خوبصورتی کو محسوس کرنا چاہیے۔ اور یہ سوچنا چاہیے کہ مالک عظیم نے ہمیں کتنا آزاد پیدا فرمایا ہے اور ہم دنیا کے معاملات میں پھنس چکے ہیں لہذا ہمیں اپنی زندگی کی خوشیاں کو خود سے واپس لانا ہوگا اور رب عزت کا لاکھ لاکھ شکر کرنا ہوگا۔ کہ مالک نے ہمیں کتنا کچھ عطاء فرمایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments