دولت مند امریکی ہر سال اربوں ڈالر ٹیکس چوری کرتے ہیں


امریکہ کے فیڈرل انکم ٹیکس کا فارم، فائل فوٹو
واشنگٹن — پر تعیش زندگی اور انتہائی کم ٹیکس ادا کرنے والے ہزاروں دولت مند امریکیوں کے ٹیکسوں کا ڈیٹا افشا ہونے کے بعد امریکہ میں ٹیکس اصلاحات کی بحث ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے۔ امریکی عوام کو یہ احساس ہوا ہے کہ کہ مختلف ٹیکس ضابطوں کا سہارا لے کر امرا ٹیکسوں میں کس طرح چھوٹ لیتے ہیں۔

یہ ڈیٹا ایک غیر منافع بخش صحافتی ادارے پروپبلکا نے فاش کیا ہے، جس نے پچھلے 15 برسوں کے دوران ہزاروں دولت مند امریکیوں کے ٹیکس گوشوارے حاصل کر کے ان کے بارے میں مکمل تفصیل عام کر دی ہے۔

اس ہفتے افشا ہونے والے اس ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ امریکہ میں کس طرح صاحب ثروت لوگ غیر معمولی مراعات حاصل کر کے پرتعیش زندگی گزارتے ہیں، جب کہ حکومت کو اپنی آمدنی کے لحاظ سے بہت کم بلکہ بعض اوقات سرے سے انکم ٹیکس دیتے ہی نہیں۔

مثال کے طور پر فوربز میگزین کے مطابق ایمیزون کے بانی جیف بیزوز دنیا کے امیر ترین شخص ہیں۔ انہوں نے 2007 اور2011 میں فیڈرل انکم ٹیکس ادا ہی نہیں کیا۔

اسی فہرست میں اور بھی بہت سے ارب پتیوں کے نام آتے ہیں، جنہوں نے وفاق کو بہت کم یا کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا، جب کہ ان کی دولت میں اربوں ڈالرز کا اضافہ ہوا۔

ان ہزاروں دولت مندوں میں وارن بوفیٹ، مارک زکربرگ، جارج سورس، مائیکل بلوم برگ اور کئی دوسرے امراٗ کے نام شامل ہیں۔

واشنگٹن ڈی سی میں ٹیکس اصلاحات کے خلاف مظاہرہ۔ فائل فوٹو
واشنگٹن ڈی سی میں ٹیکس اصلاحات کے خلاف مظاہرہ۔ فائل فوٹو

رپورٹ کے مطابق امریکہ کے 25 امیر ترین افراد کی کل دولت میں 2014 سے 2018 کے دوران 401 ارب ڈالرز کا اضافہ ہوا۔ اس کے عوض انہوں نے حکومت کو صرف 13 اعشاریہ 6 ارب ڈالر ٹیکس ادا کیا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹیکس کا گوشوارہ بھرتے ہوئے آمدنی اور دولت پر الگ شرح سے ٹیکس لاگو ہوتا ہے اور اسی فرق کا امیر طبقہ بے تحاشہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیونکہ دولت پر بہت ہی جزوی ٹیکس عائد ہوتا ہے۔

ان امیروں پر صرف ان کی آمدنی پر ٹیکس عائد ہوتا ہے۔ اثاثوں کو جب تک فروخت نہ کیا جائے، اسے آمدنی میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔

پروپبلکا کے ڈیٹا سے واضح ہوتا ہے کہ دولت مند اپنی آمدنی کو کس طرح کم سے کم رکھتے ہیں اور دولت اور اخراجات کو بڑھاتے جاتے ہیں۔

دوسری طرف امریکہ میں ایک اوسط آمدنی والا خاندان اپنی کل سالانہ آمدنی کا 14 فی صد ٹیکس ادا کرتا ہے۔ پروپبلکا کی تحقیق کے مطابق اسی پانچ برس کے عرصے میں متوسط خاندان کی دولت میں تقریباً 65 ہزار ڈالر کا اضافہ ہوا، جس کی بڑی وجہ مکانات کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ہیں۔ مگر دولت کے اضافے کے ساتھ اس عرصے میں ان پر 62 ہزار ٹیکسوں کا بوجھ بڑھ گیا۔

پروپبلکا نے جن معلومات کا انکشاف کیا ہے، وہ چونکا دینے والی تو ہیں، مگر ان کے بارے میں تھوڑا بہت سبھی کو اندازہ تھا۔ لوگوں کے ٹیکس کا ڈیٹا محکمہ خزانہ کے پاس ہوتا ہے، جسے عموماً ظاہرنہیں کیا جاتا۔

بہت سے لوگ اور ماہرین ٹیکسوں کے اس گورگھ دھندے سے واقف ہیں، انہیں علم ہے کہ دولت مند اشخاص کس طرح ٹیکسوں کے ان کوڈز کا استعمال کر کے کم سے کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

فیڈرل ٹیکس پالیسی کے ایک انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر سٹیو وام ہوف کہتے ہیں کہ یہ انکشاف ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ہمیں پتا تھا کہ امیر لوگوں کو مختلف طریقوں سے ٹیکس بچانے کی سہولت حاصل ہے۔ مگر اس رپورٹ سے ان لوگوں کے نام افشا ہو گئے ہیں اور عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ اس صورت حال کو بدلنا چاہیے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ میں ٹیکسوں کا نظام خاصا پیچیدہ ہے، اس لیے اس میں بتدریج تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ دولت پر کس طرح ٹیکس بڑھایا جائے، یہ ایک مشکل معاملہ ہے۔

پروپبلکا کی اس رپورٹ سے ٹیکسوں میں اصلاحات کی ضرورت کو مہمیز ملے گی اور بتدریج ایسے ضابطوں کو بدلنے کے لیے تحریک زور پکڑے گی جن کی مدد سے امریکی دولت مند کم سے کم ٹیکس دیتے ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ نے اپنی بجٹ تجاویز میں ٹیکسوں کے نظام میں چند تبدیلیاں شامل کی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments