کیا چین ابلاغ کی جارحانہ حکمت عملی سے ہٹنا چاہتا ہے

بی بی سی - مانیٹرنگ


چینی صدر شی جن پنگ

صدر شی کے دور میں چین کے سرکاری میڈیا کو بین الاقوامی سطح پر وسعت دی گئی ہے

ایسے میں جب کہ کووڈ 19 کی عالمگیر وبا سے نمٹنے کے سلسلے میں چین پر ہونے والی تنقید کے بعد بیجنگ اپنی شبیہ کو بہتر بنانے کا سوچ رہا ہے، صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ چین کو دنیا کے سامنے اپنا موقف بہتر طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ چین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ‘ماہرین کی ایک ایسی ٹیم بنائے جو بین الاقوامی سطح پر نئے عہد کے تقاضوں کے مطابق ابلاغ کرنے یا پیغام پہنچانے کے اہل ہوں۔’ انھوں نے کسی ایک ملک کی اجاراداری کی مخالفت پر بھی زور دیا۔

ہوا کیا ہے؟

صدر شی نے حال ہی میں کہا ہے کہ عالمی سٹیج پر مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے چین کو ‘مزید دوست بنانے’ کی ضرورت ہے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی شینوا کے مطابق اکتیس مئی کو پولیٹ بیورو سے خطاب کے دوران انھوں نے کہا تھا، ‘ہمیں چین کی قابل احترام، ہر دلعزیز اور باوقار شبیہ تعمیر کرنے کے لیے لب لہجے پر توجہ دینے، کھلے ذہن، پر اعتمادی، انکساری اور شائستگی کی ضرورت ہے۔’ پولیٹ بیور چین میں حکمراں جماعت چائنیز کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی فیصلہ ساز مجلس ہے۔

ایسا کیوں ہوا؟

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ چینی صدر نے سی سی پی کے حکام اور سرکاری میڈیا کو اپنے بین الاقوامی ابلاغ کو طاقتور بنانے کا کہا ہو۔

سنہ 2013 میں پروپیگنڈا اور نظریے سے متعلق اجلاس میں چینی صدر نے پارٹی لیڈروں سے کہا تھا کہ وہ ‘چین کے موقف کی بہتر ترویج اور چین کے پیغام کو مؤثر طور پر پھیلانے’ کے طریقے تلاش کریں۔

پھر 2017 میں سی سی پی کی نیشنل گانگریس کے دوران بھی شی نے کہا تھا، ‘ہم بین الاقوامی ابلاغ کے لیے اپنی استعداد کو بڑھائیں گے تاکہ چین کا موقف اچھی طرح بیان کر سکیں اور چین کی کثیر الجہتی اور مکمل تصویر دنیا کے سامنے رکھ سکیں۔’

حالی ہی میں 27 مئی کو چین کے سرکاری اخبار اور ترجمان چائنا ڈیلی کے 40ویں یوم تاسیس کے موقع پر انھوں نے اپنے تہنیتی پیغام میں اخبار پر زور دیا تھا کہ وہ ‘چین کی ترقی کو خوش اسلوبی’ سے پیش کرے،’ اور ‘دنیا کے ساتھ چین کے میل جول کو بڑھائے۔’

مزید پڑھیے

چینی صدر کی ملک کی تقسیم کی کوششوں پر تنبیہ

چینی صدر کا ’نئے جدید سوشلسٹ تبت‘ کی تعمیر کا اعلان

البتہ سافٹ پاور یعنی سختی کے بجائے نرمی سے کام لینے پر صدر شی کا زور اس لیے اہم ہے کہ وہ یہ بات ایک ایسے وقت میں دہرا رہے ہیں جو مغربی طاقتوں کے ساتھ کئی معاملات پر تناؤ بڑھا ہے۔

مثلاً شنجیانگ میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں، کووڈ 19 سے نمٹنے کی بیجنگ کی کارکردگی اور ہانگ کانگ سے متعلق چین کی متنازع اصلاحات۔

رد عمل کیسا ہے؟

چین کے سرکاری میڈیا اور ماہرین نے چین کے بین الاقوامی ابلاغ کو مؤثر بنانے کے لیے صدر شی کے بیان کو اجاگر کرتے ہوئے اپنے تئیں مغرب کے ‘رائے عامہ کے میدان میں اجارادانہ غلبے’ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

یونیورسٹی آف چائنا سے وابستہ پروفیسر سٹیون ڈونگ نے گلوبل ٹائمز کے انگلش ایڈیشن سے گفتگو کرتے ہوئے دو جون کو کہا تھا کہ ‘شی کے بیان سے لگتا ہے کہ چین اپنے موقف کو پیش کرنے اور دنیا سے میل جول بڑھانے کی خاطر لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ایک اعلیٰ ڈیزائن بنانا چاہتا ہے۔’

ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز اخبار ایپل ڈیلی نے، جو بیجنگ کا زبردست نقاد ہے نے اپنے 5 جون کے تبصرے میں شنگھائی میں فوڈان یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار چائنیز سٹڈیز کے ڈائریکٹر ژانگ ویوے کو، جنھوں نے ایک سٹڈی سیشن میں پریزنٹیشن دی تھی، تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

تبصرے میں کہا گیا تھا: ‘اپنے ملک کے لیے تعلقات عامہ کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس (سی سی پی) نے تعلقات عامہ کو ثقافتی جارحیت اور سیاسی مداخلت میں بدل دیا ہے۔’

آگے کیا ہوگا؟

china

مبصرین کا کہنا ہے کہ شی کے اعلان سے چین کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ مل سکتا ہے، لیکن بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس میں فوری طور پر کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔

بیجنگ میں مقیم غیر جانبدار تجزیہ نگار وُو چیانگ نے ہانگ کانگ کے مؤقر اخبار ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ سے 2 جون کو گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ شی نے ‘عملی طور پر چین کے خارجی ابلاغ کی ناکامی اور ملک کی تنہائی کو تسلیم کر لیا ہے، جسے ابلاغ عامہ کی مؤثر حکمت عملیوں کے فقدان سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔’

البتہ وُو کا مزید کہنا تھا کہ انھیں جارحانہ سفارتی طریقۂ کار میں سوائے نوک پلک سنوارنے کے کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں ہے۔

ان تاثرات کا اثر سرکاری میڈیا پر بھی پڑ سکتا ہے جس میں 2012 میں شی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں، ان میں بین الاقوامی سطح پر وسعت لانا بھی شامل ہے۔ مثلاً سرکاری نیوز ایجنسی شینوا اور براڈکاسٹر چائنا گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے، جو سرکاری ملکیت میں قائم سی سی ٹی وی کا حصہ ہے، دنیا بھر میں اپنے دفاتر قائم کیے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ چین اپنے بین الاقوامی ناظرین کی رائے ہموار کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔

وزارت خارجہ کی ترجمان ہُووا چُن یِنگ کا کہنا ہے کہ ‘چین کو کووڈ نائنٹین جیسے معاملات کے بارے میں معروضی بیانیہ پیش کرتے رہنا ہے۔’ اور یہ بھی کہ’سی این این اور بی بی سی جیسی مغربی آوازوں’ کے علاوہ دوسری آوازیں بھی ہونی چاہییں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp