ایک رپورٹ کے مطابق، چین کی مانع حمل کی پالیسی سے لاکھوں اویغوروں کی آبادی کم ہو سکتی ہے


An ethnic Uyghur woman walks with her children on June 28, 2017 in the old town of Kashgar, in the far western Xinjiang province, China.

سینکیانگ میں کاشغر کے پرانے شہر سے ایک اوئغر عورت اپنے بچوں کے ہمراہ جا رہی ہے۔ چین پر الزام ہے کہ وہ اوئغروں کی آبادی کو مانع حمل پالیسی کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ایک جرمن محقق کے تجزیے کے مطابق، چین کی مانع حمل کی پالیسیاں چین کے جنوب مغربی صوبے سنکیانگ میں اویغوروں کی آبادی میں آئندہ بیس برسوں میں ایک تہائی کمی لا سکتی ہے۔

جرمن ریسرچر کے تجزیے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ علاقائی پالیسیوں کی وجہ سے اقلیتوں کی آبادی میں 26 لاکھ سے 45 لاکھ کے درمیان کمی ہو سکتی ہے۔

کچھ مغربی ممالک نے سنکیانگ میں نسل کشی کے الزامات عائد کیے ہیں۔

چین نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ شرح پیدائش میں کمی کی دیگر وجوہات ہیں۔

جرمن ریسرچر ایڈرین جینز کی نئی تحقیق، سنکیانگ میں اویغور اور دیگر اقلیتی گروہوں پر چین کے کریک ڈاؤن کے طویل مدتی آبادی پر اثرات کے بارے میں پہلا علمی مقالہ ہے۔

اس کے جائزے کے مطابق، خطے میں چین کی پیدائش پر قابو پانے والی پالیسیوں کے تحت جنوبی سنکیانگ میں نسلی اقلیتوں کی آبادی 2040 تک کسی حد تک 86 لاکھ سے ایک کروڑ پانچ لاکھ کے درمیان تک پہنچ جائے گی، جبکہ بیجنگ کے کریک ڈاؤن سے قبل چینی محققین کی جانب سے ایک کروڑ اکتیس لاکھ کی آبادی بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

مسٹر زینز نے رائٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ‘یہ (تحقیق اور تجزیہ) اویغور آبادی کے بارے میں چینی حکومت کے طویل مدتی منصوبے کے پیچھے ان کا ارادہ ظاہر کرتی ہے۔’

اپنی رپورٹ میں مسٹر زینز لکھتے ہیں کہ سنکیانگ کے حکام نے سن 2019 میں ‘جنوبی خطے کی چار اقلیتی علاقوں میں بچے پیدا کرنے کی عمر والی عورتوں میں سے اسی فیصد کو مختلف مانع حمل آپریشنز کر کے بانچھ بنانے کی کوشش کرنے کا ارادہ کیا، جس میں IUDs یا نس بندی کا حوالہ دیا گیا ہے’۔

آبادی میں اچانک کمی

ماہرین کا خیال ہے کہ چین نے سنکیانگ میں کم از کم دس لاکھ اویغور اور دوسرے مسلمانوں کو حراست میں لیا ہے، اور حکومت کو وہاں اقلیتوں کی مسلمان آبادی کو کم کرنے کی کوشش کے الزامات کا سامنا ہے۔

اطلاعات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکام نے جان بوجھ کر ہن چینی آبادی کے لوگوں کو سنکیانگ کے ان علاقوں میں منتقل کردیا ہے جن پر پہلے نسلی اقلیتی گروہ رہتے تھے اور اویغوروں کو ان علاقوں سے باہر کے خطوں میں منتقل کردیا ہے۔

زینز کی تحقیق کے مطابق، چین کی پیدائش پر قابو پانے والی پالیسیاں جنوبی سنکیانگ میں ہن چینیوں کی آبادی میں موجودہ آٹھ فیصد سے 47 فیصد کا اضافہ ہو سکتا ہے۔

سنکیانگ کا مطالعہ کرنے والے ایک تھنک ٹینک آسٹریلیائی اسٹریٹیجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے گذشتہ ماہ شائع ہونے والے ایک مطالعے کے مطابق سنکیانگ کے نسلی اقلیتی علاقوں میں سال 2017 سے 2019 کے درمیان شرح پیدائش میں 48.7 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

اے ایس پی آئی نے بتایا کہ اقوام متحدہ نے عالمی سطح پر فرٹیلیٹی کے اعداد و شمار جمع کرنے کے بعد 71 سالوں میں آبادی کی کم شرح نمو حاصل کر لینے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔

Muslim Uyghur man in a mosque, Xinjiang region (file pic)

چینی حکومت پر الزام ہے کہ وہ سنکیانگ صوبے میں اویغور مسلمانوں کی آبادی کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

مردم شماری کے اعداد و شمار کے بعد پیدائش کی شرحوں میں زبردست کمی واقع ہونے کے بعد چین نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ جوڑوں کو تین بچوں تک پیدا کرنے کی اجازت دے گا۔ لیکن سنکیانگ کی جانب سے دستاویزات کے انکشاف ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں دعوؤں کے برعکس ایک پالیسی پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے، جن میں خواتین کو حراست میں لیا گیا یا دوسری صورت میں پیدائش پر قابو پانے کے لیے ان عورتوں کے جبراً آپریشن کیے گئے۔

علاقائی اعداد و شمار، پالیسی دستاویزات اور لوگوں کے بیانات پر مبنی مسٹر زینز کی ایک سابقہ رپورٹ میں الزام لگایا گیا تھا کہ سنکیانگ میں حاملہ اویغور خواتین کے حمل گرانے سے انکار کرنے پر انھیں قید میں ڈالے جانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، جبکہ دوسروں کو انٹرا یوٹیرس ڈیوائسز لگائے گئے تھے یا نس بندی کی سرجری پر مجبور کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

اویغور مسلمانوں پر مصنوعی ذہانت کے ذریعے جذبات جانچنے والے سافٹ ویئر کے تجربات

کیا ترکی اویغور مسلمانوں کو چین کے حوالے کرنے جا رہا ہے؟

’بہن کا فون اٹھایا تو ویڈیو کال پر دوسری طرف وہ نہیں بلکہ ایک پولیس اہلکار تھا‘

چین: کپاس کے کھیتوں میں اویغوروں سے جبری مشقت کروانے کا انکشاف

چین خاص طور پر اویغور آبادی کو کم کرنے کی کوئی کوشش کرنے سے انکار کرتا ہے، چینی حکام کی دلیل کے مطابق سنکیانگ میں اقلیتوں کی شرح پیدائش میں کمی کی وجہ اس خطے میں عام پیدائش کے کوٹے کے نفاذ کے ساتھ ساتھ لوگوں کی آمدن میں اضافے اور خاندانی منصوبہ بندی کے وسائل تک بہتر رسائی ہے۔

چین کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں روئیٹرز کو بتایا کہ سنکیانگ میں نام نہاد ‘نسل کشی’ خالصتاً ایک بہتان ہے۔

‘یہ امریکہ اور مغرب میں چین مخالف قوتوں کے مفادات اور چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خوف میں مبتلا افراد کے دعوے ہیں۔’

مسٹر زینز واشنگٹن ڈی سی میں قائم کمیونسٹوں کے خلاف متحرک ایک تنظیم ‘وکٹمز آف کمیونزم میموریل فاؤنڈیشن’ سے تعلق رکھنے والے ایک ریسرچر ہیں جو اپنے آپ کو ‘ان لوگوں کی آزادی کے حصول کے لئے کام کر رہے ہیں جو اب بھی مطلق العنان حکومتوں کے تحت زندگی گزار رہے ہیں’۔

خبر رساں اد.ارے روئیٹرز نے بتایا کہ اس نے آبادی کے تجزیہ، پیدائش روکنے کی پالیسیوں اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے ایک درجن سے زائد ماہرین کے سامنے اپنی نئی تحقیق اور طریقہ کار پیش کیا، جنھوں نے خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ تجزیہ اور نتائج درست ہیں۔

کچھ ماہرین نے خبردار کیا کہ کئی دہائیوں کے دوران آبادیاتی تخمینے غیر متوقع عوامل سے متاثر ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32538 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp