انڈیا چین تنازع: ایک سال بعد گلوان وادی میں حالات کیا ہیں؟

امبراسن ایتھیراجن - بی بی سی نیوز، لداخ سے


نوانگ دورجے نے انڈیا اور چین کی لداخ سرحد پر واقع بلیک ٹاپ پہاڑوں میں مہینوں وقت گزارا ہے۔ وہ انڈین فوج کو رسد فراہم کرنے کے لیے وہاں آتے جاتے رہے ہیں۔

62 سالہ دورجے میرک گاؤں میں ایک چھوٹی سی دکان چلاتے تھے۔ لیکن انھیں پہاڑی علاقوں میں ہتھیاروں اور ضرورت کی دیگر اشیا فراہم کرنا تھیں۔ اس دوران انھیں اپنی جان گنوانے کا بھی خطرہ رہتا تھا۔

دورجے واحد شخص نہیں ہیں جو ان علاقوں میں اس قسم کا کام کر رہے ہیں۔ سرحد پر کشیدگی بڑھنے کے بعد مضافات کے دیہات کے سیکڑوں افراد کو اسی طرح کے کاموں کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔

دورجے نے کہا: ‘ہم کئی بار چینی فوجیوں کے قریب بھی پہنچ گئے اور اس وقت ہم نے سوچا تھا کہ وہ ہمیں نشانہ بنائیں گے۔’

ایک سال قبل انڈیا اور چین نے ایک دوسرے پر لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر دراندازی کا الزام عائد کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ سنہ 1962 کی ہند-چین جنگ کے بعد اس علاقے میں ابھی تک تین ہزار 440 کلومیٹر کے سرحدی رقبے کو نشان زد نہیں کیا گیا ہے کہ کون سا علاقہ کس کے حصے میں ہے اور اس لیے دونوں ممالک مختلف علاقوں میں اپنی اپنی سرحدوں سے متعلق اپنے دعوے پیش کرتے ہیں جو کہ بعض اوقات تنازعے کا باعث بنتے ہیں۔

انڈین میڈیا کی رپورٹس کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر تناؤ اس وقت شروع ہوا جب چینی فوجی انڈیا کی سرحد میں کئی کلومیٹر اندر تک آ گئی اور وہاں اس نے اپنے خیمے لگانے، خندق بنانے اور دیگر بھاری ساز و سامان لانے کا کام شروع کر دیا۔

چین کے اس غیر متوقع اقدام کو دیکھتے ہوئے انڈین فوج نے لداخ میں ہزاروں فوجیوں کو سرحد پر تعینات کیا اور وہاں اضافی اسلحہ جمع کرنا شروع کردیا۔ جون سنہ 2020 میں یہ تناؤ وادی گلوان میں ہاتھا پائی اور پرتشدد جھڑپوں میں بدل گیا۔ اس جھڑپ میں 20 انڈین فوجی ہلاک ہوگئے۔ چین نے بعد میں کہا کہ اس تصادم میں اس کے بھی چار فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

جھڑپ

چین نے جون 2020 میں ہونے والی جھڑپ کی تصویر سنہ 2021 میں جاری کی

مقامی افراد کیا کہتے ہیں؟

لائن آف ایکچول کنٹرول کے قریب واقع پینگونگ تسو جھیل تک پہنچنا اب بھی بہت مشکل امر ہے۔ سیاحوں کو جنوری کے مہینے میں یہاں آنے کی اجازت ملی ہے۔ جبکہ بی بی سی ان چند ذرائع ابلاغ میں شامل ہے جسے میرک گاؤں تک پہنچنے میں کامیابی ملی ہے۔

اس گاؤں میں تقریبا 350 افراد مکین ہیں۔ سب خانہ بدوش زندگی گزارتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی زندگی میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔ گاؤں میں کووڈ 19 وائرس کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں اور گاؤں میں داخل ہونے سے پہلے آپ کو روایتی لباس میں ملبوس خواتین یاک اور بکریوں کی نگہبانی کرتی نظر آ سکتی ہیں۔

تاہم بہت سے مقامات پر لوگوں کو خطرے کے نشان سے خبردار کرنے کی علامتیں لگی ہوئی ہیں۔ ممنوعہ فوجی علاقے تک جانے وایل ایک لین روڈ پر فوج کی گاڑیاں سازوسامان اور فوجیوں کو لاتی لے جاتی نظر آتی ہیں۔

چین اور انڈیا کے مابین کئی دہائیوں سے جاری تناؤ کا اثر اس علاقے پر نظر آتا ہے۔

دورجے نے کہا: ‘سردیوں میں ہمارے گاؤں اور پڑوسی چوشول وادی کے لوگ یاک اور بکریوں کے ساتھ دوسری طرف چلے جاتے ہیں۔ لیکن برسوں سے چین سرحد پر انڈین علاقوں پر قبضہ کرتا جا رہا ہے۔ اس سے ہمارے جانوروں کے لیے چراگاہ کم ہوتی جا رہی ہے۔’

گذشتہ سال سرحد پر دونوں ممالک کے فوجیوں کے مابین پرتشدد تصادم کا اثر علاقے میں بہت دور تک محسوس کیاجاتا ہے۔

اسٹریٹیجک امور کے ماہر اور انڈین فوج کے سابق کرنل اجے شکلا نے کہا: ‘پچھلے ایک سال کے دوران انڈیا اور چین کے درمیان سرحد پر جاری تنازعے نے دونوں ممالک کے تعلقات کو بدل دیا ہے۔ چین نے سنہ 1959 کے سرحد کے دعوے کا اعادہ کیا ہے۔ اگر انڈیا اسے قبول کرتا ہے تو سرحد کا بہت سا علاقہ چین کے حصے میں چلا جائے گا۔’

شکلا اور دیگر ماہرین کے مطابق مشرقی لداخ میں چین کی پیش قدمی کا مطلب انڈیا کی سیکڑوں مربع کلومیٹر سرزمین پر چین کا مالکانہ حق ہوجانا ہے۔

کئی دور کی بات چیت کے بعد دونوں ممالک نے پینگونگ تسو جھیل کے علاقے میں اپنی افواج کو پیچھے ہٹانے پر اتفاق کیا ہے۔ لیکن چین نے ہاٹ سپرنگ، گوگرا پوسٹ اور دیپسانگ سے دستبرداری کا عندیہ نہیں دیا ہے۔

چین کا موقف کیا ہے؟

چین لداخ کے مشرقی علاقے میں پہلے ہی اکسای چن کو کنٹرول کرتا ہے۔ اگرچہ انڈیا اس پر اپنا دعویٰ کرتا رہا ہے لیکن یہ علاقہ سٹریٹیجک لحاظ سے چین کے لیے اہم ہے کیونکہ وہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو مغربی تبت کے ساتھ جوڑتا ہے۔

چین مسلسل یہ کہتا رہا ہے کہ لداخ کی موجودہ صورت حال کے لیے انڈین حکومت کی جارحانہ پالیسی ذمہ دار ہے۔

چین کی پیپلز لبریشن آرمی سے ریٹائرڈ سینیئر کرنل زوہو بو نے بی بی سی کو بتایا: ‘چین کے نقطہ نظر سے دیکھین تو انڈیا لداخ کی وادی گلوان میں سڑک اور دیگر تعمیراتی کام کر رہا تھا جس پر چین کا دعوی ہے کہ وہ اس کی سرحد میں ہو رہا تھا۔’

انھوں نے کہا: ‘چین روایتی طور پر انڈیا – چین سرحدی لائن کے حق میں تھا لیکن انڈیا 1962 سے پہلے کی لائن آف ایکچول کنٹرول پر زور دے رہا تھا۔ لائن آف ایکچول کنٹرول کہاں س کہاں تک ہے اسی بات پر دونوں ممالک کے مابین اختلاف ہے۔

بہرحال کچھ علاقوں سے انڈین فوج کے واپس بلانے کے بعد بھی دونوں ممالک کے مابین موجودہ تناؤ کی وجہ سے پینگونگ تسو جھیل کے اطراف آباد دیہات کے لوگوں کی پریشانی بڑھ گئی ہے۔

مقامی لوگوں پر پابندیاں

چشول کے سرحدی گاؤں میں آزاد کونسلر کونچوک سٹینجن نے بتایا کہ ‘انڈین فوج مقامی خانہ بدوش لوگوں کو اپنی روزی روٹی اور جانوروں کو چرانے کے لیے پہاڑوں میں جانے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔’

ان کے مطابق جانوروں کو سردیوں کے موسم میں چارے کے لیے بلیک ٹاپ اور گورنگ ہلز میں لے جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

سٹینجن نے کہا: ‘جب مقامی لوگ اپنے جانوروں اور خیموں کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں جاتے ہیں تو ایک لینڈ مارک بناتے ہیں۔ اور سرحدی تنازعے کے مذاکرات کے دوران یہ لینڈ مارکز بہت اہم ہو جاتے ہیں۔ اگر مقامی لوگ اپنے روایتی کھیتوں میں جانا چھوڑ دیں گے تو مستقبل میں یہ ہمارے مفاد میں نہیں ہوگا۔’

یہ بھی پڑھیے

وادی گلوان: ’بیٹا کھو دینے سے بہتر تھا کہ روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کر لیتے‘

انڈیا چین سرحدی تنازع: ’خانہ بدوشوں کو چراگاہیں چِھن جانے کا ڈر‘

انڈیا چین سرحدی تنازع: نکُولا کا محاذ انڈیا کے لیے اہم کیوں ہے؟

سٹینجن کے الزامات پر انڈین فوج نے اپریل میں کہا تھا کہ ابھی تک لائن آف ایکچول کنٹرول کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے اور عام لوگ اپنی طرح سے اس کی غلط تشریح و تعبیر کر رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی انڈین فوج نے یہ بھی کہا ہے کہ مشرقی لداخ کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر مقامی لوگ مویشیوں کے ساتھ ممنوعہ علاقوں میں نہ جائيں۔

حالیہ دنوں میں انڈیا کووڈ 19 انفیکشن کی دوسری مہلک لہر سے لڑ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے انڈین میڈیا میں اس وبا کے متعلق زیادہ باتیں ہو رہی ہیں جبکہ انڈیا-چین سرحدی تنازعے کے بارے میں کم باتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن اگر ماہرین کی بات مان لی جائے تو یہ تنازع انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو طویل عرصے تک پریشان کرے گا۔

اس تنازعے کے ابتدائی مرحلے میں وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ سرحد کے اندر کوئی دراندازی نہیں ہوئی ہے۔ ان کے اس بیان پر فوجی ماہرین بہت مایوس ہوئے تھے۔

اجے شکلا کے مطابق اس کے بعد سے صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘انڈیا کی سیاسی قیادت یہ دکھانا چاہتی ہے کہ چین نے ہماری سرزمین پر قبضہ نہیں کیا ہے۔ حکومت اپنی ناکامی کو چھپانا چاہتی ہے۔ لیکن اگر ہم یہ ظاہر کردیتے ہیں کہ ہماری سرزمین پر کسی نے قبضہ نہیں کیا ہے تو ہم اسے واپس کس طرح حاصل کریں گے؟’

انڈین ٹرکوں کا قافلہ

دوسری جانب حکومت ہند کو اب اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ چین سٹریٹجک نقطہ نظر سے زیادہ طاقتور بھی ہے اور انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بھی۔ چینی سرمایہ کاری اور درآمدات کے بغیر انڈیا میں بہت سے کاروبار مشکل میں پڑسکتے ہیں۔

انڈیا کووڈ انفیکشن کا مقابلہ کرنے کے لیے چینی تاجروں سے زندگی بچانے والے طبی سازو سامان اور طبی آکسیجن درآمد کررہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ دونوں ممالک موجودہ تناؤ سے بالاتر ہوکر سرحد پر تحمل اور امن کا مظاہرہ کریں۔

چینی فوج کے ریٹائرڈ افسر جوہو کہتے ہیں کہ ‘مجھے یقین ہے کہ یہ باہمی تعلقات میں سب سے اہم دور نہیں ہے۔ لیکن یہ باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے یقینی طور پر اہم دور ثابت ہوسکتا ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp