شجر کاری کی تعلیم


جو قومیں تعلیم جیسے معیاری ہتھیار کو چھوڑ کر کر بیکار، بے معنی اور فضول ہتھیاروں کو پکڑ لیتے ہیں وہ دنیا سے بہت زیادہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اگر ہم ماضی سے مثالیں اٹھائیں تو ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ جتنی بھی قومیں ترقی یافتہ بنی یا خوشحال بنی وہ تعلیم کی ہی نسبت سے بنی ہیں۔ اور اگر ہم موجودہ دور میں بھی دیکھ لیں آج کی طاقتیں بھی تعلیم کی نسبت سے ہی دنیا پر راج کر رہی ہیں اور دنیا ان کو مانتی ہے۔

ہم دن رات مغرب کو یہاں بیٹھ کر گالیاں نکالتے رہتے ہیں اور بے بنیاد مثالیں بے بنیاد دلائل اور بغیر کسی منطق کے باتیں کر کے ان کے اندر سے جو نقص نکالتے رہتے ہیں اس کا ان کو کوئی نقصان ہے اور نہ کوئی ہمارا فائدہ۔ اگر ہم وہاں جا کے ان کی روزمرہ زندگی اور طریقہ کار کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ ہم سے دو سو سال آگے چل رہے ہیں۔ وہاں پہ ہر چیز کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں پے تعلیم کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں پر درختوں کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں پر جانوروں کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں پہ سڑکوں کا خیال رکھا جاتا ہے وہاں پہ پانی کا خیال رکھا جاتا ہے مٹی کا خیال رکھا جاتا ہے سماج اور سماج میں رہنے والے لوگوں کا خیال رکھا جاتا ہے اردگرد کے ماحول کا خیال رکھا جاتا ہے صفائی کا خیال رکھا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

اور اگر یہی چیز ہم پاکستان میں دیکھیں تو ہمیں ایسا کچھ بھی نہیں ملے گا نا یہاں پے درختوں کا خیال رکھا جاتا ہے نہ یہاں پر تعلیم کا خیال رکھا جاتا ہے نہ یہاں پہ اردگرد کے ماحول کا خیال رکھا جاتا ہے نہ صفائی کا خیال رکھا جاتا ہے نہ سیاست اچھی ہے نہ ہی یہاں بجلی کا نظام اچھا ہے نہ پانی کا نظام اچھا ہے۔ پاکستان کے ابھی بھی کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پینے کے لئے صاف پانی نہیں ہے۔ اگر ہم شہروں کے اندر چلے جائیں تو آبادی اتنی زیادہ ہے کہ وہاں پر چلنا مشکل ہو جاتا ہے اور بھرے بازار ہیں۔

سڑکوں کے اوپر کوئی نظام نہیں ہے سڑکوں کے اوپر چلانے کے لئے آپ اگر آپ گاڑی لے جائیں تو اللہ اللہ، کچھ کہہ نہیں سکتے کہ وہاں پہ آپ محفوظ طریقے سے گاڑی چلا پائیں گے یا نہیں۔ کوئی ٹریفک قوانین نہیں ہیں اتنے زیادہ موٹر بائیکس ہیں گاڑیاں اتنی زیادہ ہیں پھر ان کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں اور اس قدر دھواں خارج ہوتا ہے کہ فضا ہر وقت آلودہ رہتی ہے۔ اور پھر جو ہمارے پاس اللہ تعالی نے ایک تحفہ رکھا ہے درختوں کا وہ درخت ہم سرے سے لگاتے ہی نہیں ہیں۔ میں گوجرانوالہ میں رہتا ہوں اور یہاں شہری آبادی خطرناک حد تک پھیل چکی ہے۔ گھروں پر گھر بن رہے ہیں اور کوئی نظام نہیں کہ گھروں کو کیسا ہونا چاہیے۔ شاید کوئی ایک گھر بھی ماحول دوست نہیں ہے۔ کسی ایک گھر کے اندر کوئی ایک درخت نہیں ہے یہاں تک کہ لوگوں کے گھروں کے اندر گملے تک نہیں۔

یہ صرف یہاں نہیں ہے ایسا حال پورے ملک کا ہے آپ کہیں بھی چلے جائیں سندھ میں چلے جائیں پنجاب میں خیبرپختونخوا میں بلوچستان میں آپ کو یہی نظام ملے گا۔ یہاں پر کوئی نظام کے اوپر عمل کروانے والا نہیں ہے اگر ہیں تو وہ پتہ نہیں کیا کر رہے ہیں اپنے فرائض کیوں سر انجام نہیں دے رہے؟

اس ملک کو بنے ہوئے کئی دہائیاں گزر گئیں ہیں اور پھر اتنی دہائیوں سے کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ نظام کہاں سے خراب ہے ہم اپنے اپ کو کیوں نہیں بچا رہے ہمارے پاس جو سہولیات ہے ہم ان کا کیوں فائدہ نہیں اٹھا رہے؟ ہم اپنے فائدے کے لئے کیوں نہیں سوچتے ہیں؟

ان سب مسائل کی جڑ میرے ذہن میں تو بس یہی آتی ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کا بہت بڑا فقدان ہے۔ ہمارے ملک میں سماجی بنیادی تعلیم تک نہیں ہے۔ اس ملک کی اشرافیہ کلاس جنہوں نے اپنے لئے علیحدہ سے سوسائٹیاں بنا رکھی ہیں اور وہ سوسائٹیوں میں رہتے ہیں۔ جہاں ایک نظم و ضبط دیکھنے کو ملتا ہے لیکن اس کو افورڈ کرنا صرف چند لوگوں کی بس کی بات ہے۔ اور پھر باقی ملک کا کیا؟ کیا ان سوسائٹیوں سے باہر رہنے والے لوگوں کے ماحول آلودہ کرنے سے ان کی سوسائٹیاں خراب نہیں ہوگی؟ ان کے نظام خراب کرنے سے ان کو نقصان نہیں پہنچے گا؟ یقیناً سب اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔

مستقبل کا تعین کرنے والی کچھ رپورٹس کے مطابق پاکستان آج سے دس سال بعد ایک ماحولیاتی کرائسس سے گزرے گا جو کہ شدید ہوگا۔ دنیا میں گلوبل وارمنگ بڑھ رہا ہے اور مختلف ممالک اس پر قابو پانے کے لیے بہت سے اقدامات کر رہے ہیں۔

لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پورے ملک کو یکساں تعلیم دی جائے ان کو ان کے ان کے جو فرائض ہیں ان سے آگاہ کیا جائے یہاں کے لوگوں کو ماحول دوست بنایا جائے ان کو اخلاقیات سکھائی جائے۔ اور اس بات کو اچھی طرح سمجھایا جائے کہ ماحول کا خیال رکھنا کس قدر ضروری ہے۔

اسکولوں میں اس بات کی تعلیم دی جائے کہ درخت لگانا کتنا ضروری ہے اور ہر بچے کے اوپر یہ فرض کیا جائے۔ اس کی تعلیم کا اور نصاب کا حصہ بنایا جائے کہ درخت لگانا ہماری پہلی ذمہ داری ہے تاکہ ہر بچہ اسکول سے پڑھ کے نکلے تو اس کو پتہ ہو کہ یہ میری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ میں اپنے حصے کا ایک درخت لگاؤ۔ خاص کر پرائمری سکولوں میں اور مڈل سکولوں میں اس کی تعلیم دی جائے۔ پاکستان میں پرائمری اور مڈل سکولوں میں بہت زیادہ تعداد بچوں کی پڑھتی ہے لہذا درختوں کو لگانے کی تعلیم دینا پرائمری اور مڈل سکول سے شروع کیا جانا چاہیے۔

حکومت کو گھروں کے نقشے پر خاص توجہ دینا چاہیے۔ ہر گھر میں کم سے کم اتنی جگہ ہو کہ وہاں ایک چھوٹا سا باغ لگایا جا سکے یا کم سے کم ایک درخت لگایا جا سکے۔ سڑکوں کو کشادہ کیا جائے اور ان کے اردگرد درخت لگائیں جائیں۔ شاید ایسے ہی ہمارا ملک ماحولیاتی دوست بن جائے۔

دیر ہو جائے تو اتنا نقصان نہیں پہنچتا لیکن اگر اندھیرا ہو جائے تو امید کی کوئی کرن نہیں بچتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments