ناروے کی راتیں۔ سرد مگر رنگین


ناروے کہنے کو ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ دارلحکومت اوسلو بھی چھوٹا سا شہر ہے۔ کل آبادی ساڑھے چھ لاکھ سے بھی کچھ کم ہی ہے۔ آپ کہیں گے کہ اتنےٹھنڈے ملک کی اتنی سی آبادی والے بھلا کیا کرتے ہوں گے اور ان کی تفریح کے مراکز کہاں اتنے زیادہ ہوں گے۔ جی آپ غلط سمجھے۔ اوسلو میں شب و نیم شب کی لطف اندوزی کے کئی اسباب اور مراکز ہیں۔ ان میں اعلی معیار کے بارز، نایئٹ کلبز، پب، کنسرٹس، ٹیکنو میوزک، مشہور ڈی جیز اور لائیو جاز، افریقن جاز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بار گیمز، پب کوئیز بھی آپ کو مزا دیں گے۔ بس ایک بات یاد رہے یہ شہر سنگینی کی حد تک گراں ہے۔ تفریح مہنگی پڑتی ہے۔

رات دس گیارہ بجے کھلنے والے یہ تفریحی مراکز صبح تین بجے تک کھلے ہوتے ہیں۔ باہر ٹھٹھرتی سردی اور اندر کی گرما دینے والی تپش آنے والوں کو ایک اور ہی طرح کے لطف سے روشناس کرتے ہیں۔

اوسلو کو یہاں کے لوگ پیار سے ’’ ٹائیگر سٹی’’ کہتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں۔ کیونکہ ٹائیگر تو یہاں ہوتے ہی نہیں۔ یہ ناروے کا سب سے گنجان آباد شہر ہے۔ ہر طرح کے لوگ اور ہر طرح کی تفریح یہاں مل جاتی ہے۔ تھری کورس ڈنر سے لے کر پیتزا برگر بھی۔ کاک ٹیل بارز میں جو چاہیں مل جائے گا۔ ناروے کا اپنا ڈرنک اکواویت کہلاتا ہے یہ الکوحلک مشروب گندم اور آلو سے بنایا جاتا ہے۔ اگر پینے سے لگاو نہیں تو صرف ڈنر کے لئیے بھی کئی معیار اور کئی ذائقوں کے ریسٹورنٹس ہیں۔ کئی میچل اسٹار بھی ہیں، ٹیپیکل ناروجین بھی اور چینی، تھائی، میکسیکن، ویجیٹرین اور ہمارے دیسی بھی۔ ان کے علاوہ فاسٹ فوڈ بھی جابجا نظر آتا ہے۔

اوسلو کی نائیٹ لائف حیرت ناک حد تک پر لطف ہے۔ جو لوگ باہر سے یہاں آتے ہیں وہ اسے بھول نہیں پاتے۔ آنے والے کہتے ہیں کہ یہ وقت ان کا بہترین گذرا۔ ہر عمر، ہر مزاج اور ہر سلیقے کے لوگوں کے لئیے یہاں تفریح میسر ہے۔ لائیو میوزک، عربی بیلی ڈانس، افریقن ڈرمز ڈانس، لاطینی ریگے۔ ہپ ہاپ سب موجود ہے۔ نوجوانوں کے لئیے جدید ترین میوزک شور شرابے سے پر موجود ہے تو سکون والی میوزک کے لئیے جاز اور بلوز بھی ہے۔۔ آپ نوجوانی سے نکل چکے ہیں تو آپ کے لئیے بھی جگہیں ہیں جہاں آپ کے زمانے کی موسیقی اور رقص ہے۔ راک اینڈ رول بھی اور۸۰ کا ڈسکو بھی۔ اور اگر آپ کی ٹانگیں اب اتنی جاندار نہیں رہیں اور کمر میں خم آ چلا ہے تو آپ کے لئے بھی سلو ڈانس، ہلکی موسیقی اور قدرے پر سکون جگہیں بھی ہیں۔ پیانو بارز بھی ہیں۔ وہاں ایک پیانسٹ بیٹھا ہلکی میٹھی دھینیں بجاتا ہے اور سننے والوں کی فرمائیشیں بھی لیتا ہے۔ آپ فرینک سناترا کے گیت ’’ اسٹرینجرز ان دا نائٹ’’ کی چٹ بھیجواتے ہیں تو وہ گردن گھما کر آپ کو دیکھتا ہے اور سمجھ جاتا ہے اتنے پرانے آپ ہی ہیں۔ اوسلو میں بہت پائے کے ڈی جیز بھی ہیں۔ ان کی کافی شہرت ہے اور اپنے کام میں طاق ہیں۔ ان سب کے علاوہ ’’ گے بارز’’ بھی ہیں جہاں ڈیرک کوئینز بھی ہیں۔ پسند اپنی اپنی۔ ٹیبل پہلے سے بک کرلیں ورنہ انتظار فرمایئے۔

کسی بھی بار، کلب یا ڈانسنگ پلیس میں داخلے کے لئے ایک لمبی لائن ہوتی ہے۔ گیٹ پر ایک دربان ہے جو آپ کی آئی ڈی چیک کرتا ہے۔ اکیس سال سے کم عمر اندر نہیں آسکتے۔ اس پر سختی سے عمل ہوتا ہے۔ کسی بھی طرح کی منتیں ترلے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس طرح ٹین ایجرز کا بے ہنگم ہجوم نہیں ہو گا اور آپ کسی حد تک پرسکون شام گزار سکیں گے۔ گارڈ پورے احترام اور نرمی سے بات کرتا ہے۔ اگر آپ کی عمر حد سے کم ہے تو بصد احترام معذرت کرے گا۔ آپ بھی ضد مت پکڑیں۔ اگر اندر کوئی دنگا فساد ہو جائے تو یہی خوش اخلاق دربان آپ کو اٹھا باہر پھینک دے گا۔ بلکہ ہو سکتا ہے پولیس بھی بلا لی جائے۔

داخلہ فیس بھی ہے جو عام طور پر سو کرون ہوتی ہے یعنی دس یورو ہے۔ اس کے بدلے میں آپ کو پہلا ڈرنک مفت ملتا ہے۔ سودا برا نہیں۔ اندر جا کر آپ اپنا کوٹ یا جیکٹ ایک مخصوص جگہ ٹانگتے ہیں۔ ان جگہوں پر چوری چکاری کا کوئی خدشہ نہیں۔ ہاں اگر آپ سگریٹ نوشی کرنا چاہیں تو اس کے لئے آپ کو باہر جانا پڑے گا کیونکہ ناروے میں اندر تمباکو نوشی پر پوری پابندی ہے۔ باہر میز کرسیاں ڈلی ہوئی ہیں آپ نے فون میز پر رکھا اور سگریٹ کا دھواں اڑا کر فون بھول ٓآئے تو شاید وہ فون آپ کو پھر نہ ملے۔ اس لئے احتیاط لازم ہے۔ ہوش و حواس قائم رہنے چاہیئں۔ مشتری ہشیار باش۔

ڈانسنگ ہالز میں صحیح معنی میں کھوے سے کھوا چھل رہا ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی کو نہیں بھی جانتے پھر بھی آپ ایک ڈیسنٹ فاصلہ رکھ کر کسی کے ساتھ بھی ڈانس کر سکتے ہیں کیونکہ رقص میں ہے سارا جہاں اور آپ اکیلے بیٹھے اچھے نہیں لگیں گے۔ الکوحل کے دور پر دور چلتے ہیں۔ ساغر و مینا سے میزیں سجی ہیں۔ بوتلیں اعلی قسم کی ہیں۔ کچھ نیٹ پیتے ہیں کچھ ملا کر کہ یوں نشہ بڑھتا ہے۔ موسیقی کی مدھرتا بھی ہے اور مے کی مدھیرا بھی اگر ہم رقص بھی ہے اور ساقی بھی تو پھر جھوم برابر جھوم۔ کچھ مقامات پر ڈرنکنگ کے ساتھ ڈائننگ کا انتظام بھی ہے۔ لیکن جیب کا خیال رکھیں۔ یہ سب مہنگا پڑ سکتا ہے اور بل آئے تو نشہ ہرن ہو سکتا ہے۔

نوجوانوں کی شب گردی کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ وہ سب کسی ایک کےگھر جمع ہوتے ہیں۔ الکوحل مہنگی ہے اس لئے گھر سے کچھ پی کر چلتے ہیں۔ جب بدن میں گرمی آ جاتی ہے تو کسی کلب کا رخ کرتے ہیں۔ یہ پہلے سے طے ہوجاتا ہے کہ گاڑی کون ڈرائیو کرے گا۔ وہ بندا یا بندی پھر الکوحل کو منہ نہیں لگاتا۔ لیکن چونکہ بڑے شہروں میں پارکنگ کا شدید مسئلہ ہے اور مہنگا بھی اس لئے بہتر یہ ہے کہ یا اپنی دو ٹانگوں پر انحصار کریں یا پبلک ٹرانسپورٹ لیں یا ٹیکسی کر لی جائے اور مل کر کرایہ ادا کریں۔ واپسی کی ٹیکسی پہلے سے ریزرو کروا لیں ورنہ کئی گھنٹے تو انتظار میں گذریں گے۔ صبح تین بجے سب کچھ بند ہو جاتا ہے۔ آپ مزید بیٹھنا بھی چاہیں تو نہیں بیٹھ سکتے۔ اگر بہت زیادہ مدہوش ہیں تو شاید ٹیکسی والا آپ کو بٹھانے سے انکار کردے کہ کہیں آپ الٹی کر کے اس کی ٹیکسی میں گند پھیلا دیں۔ یا اتنے مست ہیں کہ اپبے گھر کا پتہ بھی یاد نہیں یا آپ ٹیکسی میں سو جایں اور آپ کو اٹھانا مشکل ہو جائے۔ اس میں مرد و زن کی تمیز نہیں۔ انجوائے کرنے ناچنے، پینے اور بہک جانے میں کوئی صنفی امتیاز نہیں۔

سال میں ایک بار ستمبر کے کسی ایک جمعہ کو ثقافتی شب منائی جاتی ہے۔ اس شب بہترین میوزک سے ہر خاص و عام لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ تمام رات کنسرٹس اور شوز جاری رہتے ہیں۔ اور اس کی کوئی فیس نہیں۔

ناروے میں قمار بازی ممنوع ہے اس لئے کیسینو نہیں ہیں۔ جوا آن لاین کھیلیے۔ زیادہ شوقین ہیں تو فیری بوٹ لے کر جرمنی کے شہر کیل یا ڈنمارک کے شہر فریدریکستاد جایئے۔ ان بوٹس پر ہر طرح کے قمار کا انتظام بھی ہے اور آزادی بھی۔ جدید ترین کیسینو ہیں۔ رولٹ، بلیک جیک سے لے کر سلوٹ مشینیں سب آپ کا ہیسہ ہضم کرنے کو آمادہ ہیں۔

ناروے میں اسٹرپ کلبز بھی۔ انہیں ’’شو بارز’’ کہا جاتا ہے۔ کچھ کلبز ایسے بھی جہاں ڈانسر آپ کی میز تک آ کر آپ کو ایک حد تک محظوظ کرتی ہے۔ اس کے لئے آپ کا بٹوا بھاری ہونا چاہیئے۔ ڈانسر کے لئے شیمپین خریدنا ہو گی۔ اسی طرح ایسے شو بارز بھی جہاں مرد اسٹریپر ہیں اور خواتین کے دلوں کو بہلاتے ہیں۔ ہونے والے دولہا دولہن کی بیچلر پارٹیز عام طور پر اسی قسم کے شو بارز میں منعقد کی جاتی ہیں۔

کچھ ایسے کلب بھی ہیں جو ’’سٹریکٹلی فار جنٹل مین’’ ہیں۔ یہاں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہ بات کافی حیران کن ہے کیونکہ ناروے جینڈر ایکولیٹی کے لئے مشہور اور مثال ہے۔ ان کلبز میں نہ تو اس وقت کی وزیراعظم جا سکتی ہیں نہ پارلیمان لیڈر اور نہ ہی ناروے کی نوبل کمیٹی کی چیر پرسن کیونکہ یہ سب خواتین ہیں۔ ہاں اگر کلب کا کوئی ممبر انہیں ساتھ لے آئے تو داخلہ مل سکتا ہے۔ کلب میں وی آئی پی رومز بھی ہیں جہاں پسندیدہ رقاصہ ان کے لطف کو کسی اور ہی سطح پر لے جاتی ہے۔ یہ کلب متنازعہ رہا ہے اور عورتوں کی تنقید کا نشانہ بھی۔ اسے صنفی امتیاز جانا جاتا ہے۔۔ لیکن کلب اپنی بات پر قایم ہے۔ ’’ خواتین کا داخلہ ممنوع’’ ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈانسرز سب عورتیں ہی ہیں اور یورپین بھی۔ کلب کی ممبرشپ آسانی سے نہیں ملتی۔ ہر ایک کا بیک گراونڈ چیک کیا جاتا ہے۔ ممبرز میں بزنس مین، سائنس دان، اعلی حکومتی عہدےدار شامل ہیں۔ اس وقت گیارہ سو ممبر ہیں اور ویٹینگ لسٹ لمبی ہے۔ ممبرشپ کے لئے موجودہ ممبرز میں سے کم از کم دو کی تائید ہونی چاہئیے۔

strictly for gentlemen

ان سب کے علاوہ گھریلو پرائیوٹ پارٹیز بھی ہوتی ہیں۔ اس میں دعوت درکار ہے۔ یہ نہیں کہ آپ کا کوئی دوست مدعو ہے آپ بھی ساتھ ہو لئیے۔ نہیں۔ بن بلائے ہرگز مت جائیے گا اپنی عزت اپنے ہاتھ۔

لباس کے بارے میں عام مقامات پر کوئی ڈریس کوڈ نہیں۔ بس موزوں اور مناسب ہو۔ نارویجینز ویسے بھی رسمی لباس سے گھبراتے ہیں۔ سوٹ ٹائی کے شوقین نہیں۔ بس لباس اچھی کوالٹی کا ہو آرام دہ ہو اور موسم کے لحاظ سے ہو۔ لڑکیاں بھی کوئی خاص اہتمام نہیں کرتیں۔ اونچی ہیل کے جوتوں کے بجائے اسپورٹ شوز کو ترجیح دیتی ہیں۔ ہاں جینٹل مین کلب میں آپ کو پراپر ڈریس اپ ہونا پڑے گا۔ وہاں کے معیار اور آداب کچھ اور ہیں۔

عام طور پر لئے دئیے اور اپنے آپ میں رہنے والے نارویجینز پب، بار یا کلب میں سرور آتے ہی انجانے لوگوں سے بھی گھل مل جاتے ہیں۔ اگر آپ یہاں نئے ہیں تو یہ مت سمجھ لیجئیے گا کہ اب دوستی پکی۔ یہ تبسم یہ تکلم ان کی عادت ہے آپ اسے پیار کا انداز ہرگز مت سمجھئیے۔ اگر کسی سے بات چیت ہو جائے اور وہ آپ کو اجنبی جان کر آپ سے اپنایت سے بات کرے، آپ کی زبان کی مشکل دیکھتے ہوئے انگریزی میں آپ سے گفتگو کرے، فون نمبرز کا بھی تبادلہ ہو جائے آپ کے ڈانس پارٹنر بھی ہو جائیں اور آپ اگلے دن فون کر بیٹھیں تو شاید اسے آپ کو پہچاننے میں مشکل ہو۔ رات گئی بات گئی۔

کلب یا بار سے نکل کر آپ کو بھوک لگے تو چند برگر، شورما، ہاٹ ڈاگ اور کباب کے ڈھابے ہیں جو شاید آپ ہی کے انتظار میں اب تک کھلے ہوئے ہیں۔ چند کافی شاپس بھی شاید کھلی مل جایں۔ گھر جانے سے پہلے پیٹ پوجا کر لی جائے۔

موسم گرما یہاں مختصر ہے لیکن اسے بھی انجوئے کیا جاتا ہے۔ اوسلو میں سمندر کے ساحل کے پاس ایک اسٹریٹ ہے ایک طرف بارز اور کافی شاپس کی قطار ہے۔ لوگ باہر بیٹھ کر موسم کا لطف اٹھاتے ہیں۔ نصف شب تک لوگ باہر بیٹھے رہتے ہیں۔

نئے آنے والوں کو یہ بھی جان لینا چاہئیے کہ واپسی کا پکا انتظام رکھیں۔ کسی سے لفٹ مانگنے کا مت سوچیں۔ یہاں اس کا رواج نہیں۔ ہاں آپ کسی کے ساتھ مل کر ٹیکسی ضرور شیئر کر سکتے ہیں۔ یا کوئی آپ کی رہنمائی کردے کہ نائیٹ بس کب اور کہاں سے مل سکتی ہے۔ آخری بس عام طور پر رات دو یا تین بجے چلتی ہے۔ اور ویک ڈیز میں تو رات گیارہ بجے کے بعد نہ بس نہ میٹرو۔

مختصر یہ کہ ناروے اور خاص طور پر اوسلو تفریح کے لئے بہترین اور محفوظ ترین مقام ہے۔ اچھا میوزک، اچھی شراب، اچھے پروگرامز اور اچھے لوگ۔ اور کیا چاہئیے آپ کو؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments