نام نہاد عظمت اور ہماری خوش فہمیاں


                     

بچپن میں ایک کہانی سنی تھی، کنویں کے مینڈک کی۔ جہاں حادثاتی طور پر سمندر میں رہنے والا ایک مینڈک آ جاتا ہے اور کنویں کے مینڈک کو سمندر کی وسعت کے بارے میں بتاتا ہے تو کنویں کا مینڈک حیرت سے اسے پوچھتا ہے کہ کیا سمندر اس کنویں سے بھی زیادہ وسیع ہوتا ہے؟ کچھ اسی طرح کا قصہ رومانیہ کے باشندوں کا بھی تھا۔

اشتراکی حکومت کے خاتمے کے بعد جب 1990 ء میں رومانیہ کے کچھ باشندوں نے جرمنی کا رخ کیا تو مجھے بھی کئی ایک سے ملاقات اور بات چیت کا موقع ملا۔ ان ملاقاتوں سے جو مجموعی تاثر ملا وہ کچھ یوں تھا۔ تقریباً چالیس سالہ اشتراکی دور میں رومانیہ کے باشندوں کو یہی بتایا گیا تھا کہ عقل و شعور، علم و فن اور ہنرمندی میں وہ دنیا کی بہترین قوم ہیں۔ تعلیم و تربیت اور تمام ذرائع ابلاغ میں یہی باور کرایا جاتا تھا کہ اقوام عالم میں کوئی ان کا ثانی نہیں ہے۔ لیکن جب وہ اسی زعم میں مبتلا مغرب یورپ کے ممالک میں پہنچے تو انہیں قدم قدم پر یہ احساس ہوا کہ ان کا تفاخر بالکل بے بنیاد تھا۔ اقوام عالم میں سب سے نمایاں ہونا تو دور، ان کا تو کہیں کوئی شمار ہی نہیں ہے۔

ایسا ہی کچھ حال اس وقت ہمارا ہے۔ بچپن سے ہمیں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ ہم دنیا کی عظیم ترین قوم ہیں۔ ہر وہ طاقت جو ہم سے ٹکرائے گی وہ پاش پاش ہو جائے گی۔ ہم ایمان کے مینار کی اس چوٹی پر پہنچے ہوئے ہیں کہ اگر کوئی ہم پر حملہ کرے گا تو خدا خود ہماری حفاظت کے لئے زمین پر اتر آئے گا۔ ذرائع ابلاغ پر جابر طاقتوں نے کچھ اس انداز سے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں کہ ہم کچھ نیا سیکھنے کی خواہش ہی نہیں رکھتے۔ اپنے علم کو آسمان کا آخری صحیفہ سمجھ کر آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ باقی دنیا کہاں سے کہاں پہنچ رہی ہے ہمیں کچھ خبر ہی نہیں۔

اپنے موقف کی حمایت میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔ ۔

بچے کو سب سے پہلے اطاعت اور فرماں برداری سکھائی جاتی ہے۔ سوال کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔ بڑے جو کہہ رہے ہیں وہ ہی درست ہے چاہے وہ کتنا ہی غلط کیوں نہ کہہ رہے ہوں؟ صراط مستقیم کے نام پر ہر سوال کا جواب پہلے سے ہی رٹا دیا جاتا ہے۔ خود سوچنے اور اپنے سوالوں کے جواب تلاش کرنے کا ہر راستہ بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کا ہر سفر کنویں کے بیل کا سفر بن جاتا ہے۔

ہمیں ہر معاملے میں عرب مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کوئی نہیں بتاتا کہ ہم دراصل اسی خطے کے باشندے ہیں جہاں ہم اس وقت سکونت پذیر ہیں۔ ہم ہندووں میں نیچ ذات ہونے کی وجہ سے دھتکارے جاتے تھے اس لئے ہم مسلمان ہو گئے کہ اس طرح عزت مل رہی تھی۔ پھر ہم نے اپنے شجرہ نسب بھی بدل لئے۔ اور کچھ نسلوں کے بعد یہ بھی بھول گئے کہ یہ شجرہ نسب ہم نے خود تعمیر کیے تھے۔ تاریخ میں کہیں بھی اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ اتنی بڑی تعداد میں مسلمان عرب یا ایران سے ہجرت کر کے اس علاقے میں آئے ہوں جتنے کہ اس وقت خود کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہمیں عربوں کی تاریخ یہ کہہ کر پڑھائی جاتی ہے کہ یہ مسلمانوں کی تاریخ ہے جبکہ وہ سارے مسلمانوں کی نہیں بلکہ صرف عربوں کی تاریخ ہے۔ سب سے زیادہ علامہ اقبال نے ہمیں اس خوش فہمی میں مبتلا کیا ہے۔

محمود غزنوی ہمارا ہیرو ہے۔ مگر کوئی نہیں بتاتا کہ وہ تو صرف دولت لوٹنے کے لئے ہندوستان کا رخ کرتا تھا۔ الٹے جاتے جاتے ہماری بہنوں بیٹیوں کو بھی اٹھا لے جاتا اور لے جا کر نیلام میں بیچ دیتا تھا۔ اسے بت شکن کہا جاتا ہے۔ جبکہ اس نے سومنات جیسے بت ہی توڑے تھے جہاں سے کہ اسے بہت سی دولت ملنے کی امید تھی۔ باقی سارا ہندوستان بھی بتوں سے بھرا پڑا تھا مگر اس نے کسی اور مندر کو کسی اور بت کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔

مغل شہنشاہ اورنگ زیب کو ایک عظیم مسلمان بادشاہ کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ وہ اتنا جابر، ظالم، بے رحم اور سفاک انسان تھا کہ اس نے بھائیوں، بیٹوں اور پوتوں سمیت ہر اس شخص کو قتل کروایا جو کسی طور بھی اس کے تخت کا دعویدار ہو سکتا تھا۔ اس کے ٹوپیاں بنا کر بیچنے اور قرآن شریف کے نسخے نقل کرنے کو اس کی گراں مایہ خدمت کے طور پر سراہا جاتا ہے۔ اور کوئی نہیں پوچھتا کہ اگر کوئی شہنشاہ ٹوپیاں بنائے گا تو وہ ٹوپیاں خریدے گا کون؟ یقیناً بہت مالدار لوگ۔ پھر شہنشاہ کا کام ہے اپنی رعایا کے لئے سہولتوں اور تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا نہ کہ ٹوپیاں بنانے پر وقت ضائع کرنا۔

سائنس کا ذکر آتے ہی بو علی سینا، ابو قاسم الزاہروی، یعقوب الکندی اور موسی الخوارزمی وغیرہ کے نام لے کر سائنس اور فلسفہ پر ان اکابرین کے احسانات گنوائے جاتے ہیں۔ بے شک مختلف علوم کی ترقی میں مذکورہ بالا علماء، حکماء اور فلاسفہ نے خاطرخواہ حصہ ڈالا ہے اور کوئی بھی ذی شعور ان کی عظمت سے انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن کیا سائنس اور فلسفہ میں یہی اکابرین اول اور آخر ہیں؟

کیوں کوئی نہیں بتاتا کہ مسلمانوں کی تاریخ میں تقریباً تمام علوم نے اس وقت زبردست ترقی کی جب خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں علوم و فنون کی سرکاری سرپرستی کی گئی۔ دنیا کے کونے کونے سے ہر نوع کی کتب لا کر عربی زبان میں ترجمہ کی گئیں۔ خاص طور پر یونانی علوم کا ہر وقیع حصہ عربی زبان میں ڈھالا گیا۔ سقراط، بقراط اور خاص طور پر ارسطو کی تصنیفات کی تشریحات لکھی گئیں۔ بعد کی نسلوں کو تو علم ہی نہیں کہ امام غزالی نے اپنی تصنیف ”تہافتہ الفلاسفہ“ میں بو علی سینا سمیت تمام حکماء اور فلاسفہ کی تحقیر کی اور اسلام کو فکر و تحقیق کی بجائے خانقاہ کی طرف دھکیل دیا۔ اس وقت کے حکمرانوں نے امام غزالی کی پیٹھ تھپکی اور یوں سائنس دانوں، حکماء اور فلاسفہ کو فکر و تحقیق سے بد دل کیا گیا۔

تشریحات ارسطو کے ضمن میں ابن رشد کا نام تو بہت جوش و خروش سے لیا جاتا ہے کہ اسی کے افکار سے یورپ میں نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی گئی، لیکن خود ابن رشد کے ساتھ اس وقت کے علماء اور حکمرانوں نے کیا سلوک کیا یہ کوئی نہیں بتاتا۔ امام غزالی نے کس قدر واپس جہالت کی طرف جانے پر مجبور کر دیا تھا کہ ابن رشد کو ان کی ”تہافتہ الفلاسفہ“ کے جواب میں ”تہافتہ التہافتہ“ لکھنا پڑی۔

اہل حکم کی پوری پوری کوشش ہے کہ ہم عظمت رفتہ کے قیدی بنے رہیں اور فکر و تحقیق کے قریب جانے کی خواہش بھی نہ کریں۔ اگر ہم ذرا بھی زحمت گوارا کر لیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ہم ایک نام نہاد عظمت کے طلسم میں گرفتار ہیں۔ اور کسی ایسے حادثے کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں جو راتوں رات ہماری قسمتیں بدل دے گا۔ اگر ہم نے آج بھی عملیت پسندی سے کام لے کر بدلتی ہوئی دنیا کو جاننے اور اپنے لئے راستے بنانے کی سعئی نہ کی تو ہم اپنی عظمت کے زعم میں بیٹھے معجزوں کا انتظار کرتے رہیں گے اور دنیا ہمیں اپنے قدموں تلے روند کر آگے نکل جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments