ہمارے ڈرامے اور روتی دھوتی یا پھر سازشی عورت


کئی سالوں سے ہمارے ٹی وی ڈراموں میں عورت کا کردار یا تو بہت مظلوم ہوتا ہے۔ یا پھر بہت چالاک یا پھر بہت ہی سازشی روپ میں دکھائی جاتی ہے۔ بہو ہے تو ساس یا نند کے ظلم کا شکار ہے۔ بے چاری دکھیاری کو ڈرامے کے آخری میں ہی راحت کے کچھ مناظر نصیب ہوتے ہے۔ لکھاری عورت کی ایسی عکاسی کرتا ہے۔ جس میں عورت دوسری عورت کے لیے سازشوں کا جال ہی بچھا رہی ہوتی ہے۔ اگر بہن کا کردار ہے تو اسے صرف اپنی دوسری بہن کے خلاف مصیبتوں کا پہاڑ کھڑا کرتا دکھایا جاتا ہے۔

تو کبھی شادی شدہ یا غیر شادی شدہ نندوں کا بھابھی کی زندگی کو اجیرن بناتے دکھایا جاتا ہے۔ کبھی بھابیاں نندوں کا جینا محال کرتی نظر آتی ہیں۔ بیوی ہے تو سسرال میں پہلے دن سے ہی شوہر کو الگ کرنے کی سازشیں اور اگر بہو اچھی ہے تو وہ لازمی سسرال کی کسی نہ کسی خاتون کے ظلم یا سازشوں کا شکار ہوگی۔ بہو بیٹے کی پسند کی آ گئی تو مجال ہے جو ساس یا نندیں اس کا گھر بسنے دیں۔ غریب لڑکی ہے تو وہ امیر لڑکے سے شادی کرنے لیے اپنا سازشی دماغ چلاتی ہے۔ اور اگر امیر دوشیزہ ہو تو وہ کسی غلام کی تلاش میں ہوتی ہے۔ ہر دوسرے ڈرامے کی مرکزی کہانی ایسے ہی کرداروں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔

بلاشبہ ڈرامے معاشرے میں بسنے والے افراد اور معاشرے میں موجود برے عناصر کی عکاسی کرتے ہیں۔ اور ایسے کرداروں سے انکار بھی نہیں۔ مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر دس میں سے نو ڈراموں میں عورت کو دوسری عورت کا دشمن، مجبور اور کمزور دکھایا جائے۔ ہمیں اپنے ہی اردگرد عورت کے ایسے روپ بھی نظر آتے ہیں۔ جہاں عورت عورت کی دشمن نہیں ہے۔ اس کا کردار شیطانی سازشوں کا تابع نہیں ہوتا۔ اس کا مقصد حیات دوسروں کی زندگیوں میں کانٹے بچھانا نہیں ہوتا۔

وہ مثبت سوج کی مالک ہوتی ہے۔ کچھ نے زندگی کے ہر میدان میں آنے والی ہر مشکلات کا مثبت سوچ اور ہمت کے ساتھ سامنا کیا ہے۔ تو کسی نے اپنی تعلیم اور محنت یا پھر اپنے ہنر سے اپنے خوابوں کو پورا کیا ہیں۔ وہ عورت جو صابر ہونے کے ساتھ ساتھ باہمت اور بہادر بھی ہے۔ آخر ڈراموں میں ایسے کردار آٹے میں نمک کے برابر کیوں دکھائی دیتے ہیں۔

70 اور 80 کی دہائی کے ڈراموں میں عورت کو مضبوط اور مستحکم دکھایا جاتا تھا۔ ان ڈراموں کا معیار اور کشش کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی دہائیوں کے بعد بھی وہ ڈرامے لوگوں کے ذہنوں پر آج بھی نقش ہیں۔ جن کی کہاں یاں ایک مثبت سوچ دیتی تھیں۔ ایسا ناممکن ہی لگتا ہے کہ کبھی نئے ڈراموں کا معیار اور کہانیاں پرانے ڈراموں جیسی ہو سکے۔

گمان ہوتا ہے کہ کئی سال سے ڈرامے کا ہٹ ہونے کا معیار صرف یہ ہے کہ جس قدر عورت پر ظلم و زیادتی ہوگی یا دوسری عورت کے لیے حسد، سازش اور چالاکیوں کو دکھایا جائے گا اتنا زیادہ ڈرامہ مقبول ہوگا اور اس کی ریٹنگ بھی زیادہ آئے گی۔ ان ڈراموں سے عورت کا جو تاثر دیا جا رہا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ عورت صرف ظلم سہنے یا پھر دوسری عورت کو برباد کرنے اور سازشیں کرنے ہی دنیا میں آئی ہے۔ اس کا کوئی اور مقصد حیات نہیں۔ کیوں عورت کے ایسے کردار ہی ہر ڈرامے میں غالب نظر آتے ہے۔ عورت کو مضبوط اور مستحکم دیکھا کر بھی ڈرامے کی زیادہ ریٹنگ لی جا سکتی ہے۔ نہ کہ ہر عورت کو مظلوم اور سازشی دکھایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments