لاہور میں چھجو کا چوبارہ کہاں ہے؟


جو سکھ چھجو کے چوبارے، وہ بلخ نہ بخارے۔ یہ محاورہ اکثر بولا جاتا ہے اور یہ ایک ضرب المثل بھی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ زندگی کی جو راحت اور سکون چھجو کے چوبارے میں ملتی ہے وہ بلخ اور بخارہ شہر کی راحت سے کہیں اعلی اور عرفہ ہے۔ باختریہ (بلخ) ایک قدیم شہر ہے۔ جو بدھ مت، زرتشت اور مسلمانوں کے مذہبی راہنماؤں کا مسکن رہا ہے۔ عربوں نے اس شہر میں نوادرات اور اس کی علاقائی اہمیت کی بنا پر اسے عروس البلاد کا نام دیا۔

بلخ جو کبھی وسط ایشیاء کا ایک انتہائی ترقی پذیر صوبہ تھا۔ آج کل شمالی افغانستان میں کھنڈر ات میں تبدیل ہو گیا ہے۔ موجودہ دور میں ازبکستان کے شہر بخارہ کو ثقافت، تجارت اور مذہب کے ناتا سے ایک اہم مقام حاصل ہے۔ قدیم شاہراہ ریشم میں واقع یہ شہر کبھی سلطنت فارس کا حصہ تھا۔ قدیم زمانے میں بلخ اور بخارہ دونوں ثقافت، مذہب، اسکالرشپ اور تجارت کے لحاظ سے ایک اہمیت کی علامت تھے اور ہمارے یہاں یہ ضرب المثل ہے جو یہ دعوی کرتے ہوئے کہتی ہے کہ چھجو کا چوبارہ ایک ایسی جگہ ہے جو مراقبہ اور روحانی تلاش میں بلخ اور بخارہ کی عظیم تر اہمیت سے کہیں زیادہ پرسکون ہے۔ یہ جگہ دلوں کے شہر لاہور کے وسط میں واقع ہے۔

چھجو، مغل بادشاہ شاہجہان کے عہد میں لاہور کا ایک سنار ہو گزرا ہے۔ وہ آج کے میو ہسپتال کے نزدیک ایک چوبارہ میں رہتا تھا جس کے نیچے اس کی سنار کی دکان تھی۔ وہ ہندو بھاٹیہ خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور اکیلا ہی اپنے چوبارے میں رہتا تھا۔ چھجو کی محفل اکثر اللہ کے ماننے والے بزرگوں اور صوفیوں سے رہتی تھی۔ اس وقت لاہور میں حضرت میاں میرؒ، شاہ بلاول لہوری، شیخ اسماعیل المشہور وڈے میاں اور کچھ دوسرے بزرگ رہتے تھے۔

وہ سارے اکثر چھجو کے چوبارے میں آتے رہتے تھے۔ ان بزرگوں کے ساتھ چھجو کی دوستی جب کمال تک جا پہنچی تو اسے جذب الہی نے اپنی طرف ایسا کھینچا کہ اس نے دنیا سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اپنا سارا کاروبار ختم کر دیا اور بھگت بن گیا۔ بھگت بن کر اس نے یہ عہد کیا کہ وہ شراب نہیں پیئے گا اور نہ ہی گوشت کھائے گا۔ وہ کہتا تھا کہ اگر آپ سچے ہو تو صرف رب کی عبادت کرو اور یہی اس نے اپنا نصب العین بنا لیا۔ وہ اپنے چوبارے سے کم ہی نکلتا اور زیادہ وقت مراقبے اور عبادت میں گزار دیتا۔

چھجو کا زیادہ وقت حضرت میاں میرؒ کے ساتھ گزرا۔ مغل شہنشاہ حضرت میاں میر کو اپنا روحانی بزرگ مانتے تھے اور ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ سکھ بھی میاں میرؒ کو ارجن دیو سنگھ کا ساتھی اور قریبی دوست مانتے تھے۔ چھجو نے بھگت بننے کے بعد دنیا سے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنے دو منزلہ مکان (چوبارہ) کے بالا خانے میں رہنے لگا۔ وہ خدا کی یاد میں مصروف رہتا۔ اس کے چوبارہ پر جانے کے لئے لکڑی کی ایک سیڑھی تھی وہ سیڑھی اوپر کھینچ لیتا تا کہ اسے کوئی اس کی عبادت میں مخل نہ ہو۔ جب کوئی دوست آتا تو وہ سیڑھی لگا کر اسے اوپر بلا لیتا۔ تمام عمر اس نے عبادت میں گزار دی۔ اس کی بہت سی کرامتیں لاہور میں زبان زد عام تھیں۔

کہتے ہیں کہ لاہور کے ایک شاہی نوکر نے ایک رات اپنی بیوی کو اشرفیوں کی ایک تھیلی امانت کے طور پر دی۔ صبح وہ اشرفیاں بیوی سے لے کر چھجو کے پاس اس کی دکان پر آیا اور اسے کہا کہ وہ ان کو چیک کر کے ان کے اصلی ہونے کی سند دے۔ چھجو نے اشرفیاں اچھی طرح پرکھ کر ان کے اصل ہونے کی تصدیق کردی۔ شاہی نوکر نے اس کے بعد اشرفیاں چھجو کی دکان پر گنیں اور کہا کہ ایک اشرفی کم ہو گئی ہے۔ چھجو نے شاہی نوکر سے کہا کہ میں نے تو نہیں گنیں، پوری ہی ہوں گی۔

یہ سن کر وہ شاہی نوکر آپے سے باہر ہو گیا اور چھجو پر چابک کی برسات کردی۔ لوگوں کے کہنے پر ساری دکان کی تلاشی لی گئی لیکن اشرفی برامد نہ ہوئی، اس پر وہ دھمکیاں دیتا ہوا چلا گیا۔ جب وہ گھر پہنچا تو دیکھا کہ اس کی بیوی پیٹ کے درد سے کراہ رہی ہے۔ طبیبوں سے علاج کروانے پر بھی بیوی تندرست نہ ہوئی۔ آخر کسی نے اس سے کہا کہ آج تم نے ناحق چھجو کو مارا ہے وہ کبھی کسی کا مال ناحق نہیں کھاتا، اس سے معافی مانگو۔ اس پر اس کی بیوی نے اقرار کیا کہ وہ اشرفی اس نے نیت خراب ہونے پر چرا لی تھی۔ ادھر عورت نے اشرفی چوری کرنے کا اقرار کیا ادھر اس کا پیٹ کا درد جاتا رہا۔ چنانچہ دونوں میاں بیوی چھجو کے پاس آئے اور خلق خدا کے سامنے اس سے اپنی زیادتی کی معافی مانگی۔

کہتے ہیں کہ چھجو کی موت بھی بڑی پراسرار ہوئی۔ جب اس کا آخری وقت آیا تو وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور پھر کبھی کسی نے اسے نہیں دیکھا۔ وہ 1696 میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ سید محمد لطیف لاہور کی تاریخ لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ چوبارہ میو ہسپتال کے نزدیک جنوب میں رتن چند سرائے کے ساتھ واقع ہے۔ اب چوبارے کی جگہ مندر بنا ہوا ہے جو لاہور کے تینوں حکمرانوں کے عروج کے دور میں محنت باوا پریتم داس نے تعمیر کروایا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ ہر سوموار کے دن اس مندر پر حاضری دیتا تھا اور ایک خطیر رقم مندر کے لئے دھان کرتا۔ اس نے سادھوں کی رہائش کے لئے ایوان خانے اور عام کمرے بنوائے۔ اب بھی ہر منگل اور سوموار کو مردو خواتین کی ایک بڑی تعداد یہاں حاضری دیتی ہے۔

ہماری ایک بہت بڑی بد قسمتی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہم نے تاریخی اہمیت کی تمام عمارتوں کی دیکھ بھال پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ خصوصی طور پر سکھ اور ہندو مذاہب کی عمارتوں کو توڑ پھوڑ کر ان کو خراب کر دیا۔ یہی حال اس چوبارے کا ہوا۔ لاہور کی تعمیرات کے دوران اس کے اردگرد کی جگہ اتنی سکڑ گئی ہے کہ اس تک عام فرد کا پہنچنا مشکل ہو گیا ہے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments