قومی اسمبلی کا وقار تار تار


یوں تو ہمارے ہاں قومی اسمبلی کے اجلاس کبھی بھی مثالی اور قابل ستائش نہیں رہے اور اسی اسمبلی میں دھکم پیل، دھما چوکڑی اور ہاتھا پائی کے دوران کرسی لگنے سے ہمارے ایک سپیکر بھی جان سے گزر چکے ہیں مگر جو کریہہ، غلیظ، غیر مہذب اور اخلاق سے گرے ہوئے مناظر بجٹ اجلاس کے دوران دکھائی دے رہے ہیں انہیں دیکھ کر ایک شریف آدمی کو گھن آتی ہے۔ کچھ روز قبل سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ایک رکن نے جس گھٹیا اور بازاری انداز میں بلاول بھٹو زرداری پر رکیک اور پست جملے کسے، وہ حکمران پارٹی کی اخلاقی تربیت میں ایک بڑے خلا کا پتہ دیتے ہیں۔

بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کی طرز سیاست سے ہمیں بھی اختلاف رہا ہے اور ہم اس کا بارہا اظہار بھی کرتے رہے ہیں مگر اس کے ساتھ ہمیں یہ اعتراف بھی کرنا پڑے گا کہ بلاول نے سیاست میں اخلاقی اقدار، مروت، لحاظ اور رکھ رکھاوٴ کا ہمیشہ خیال رکھا ہے۔ شیخ رشید جیسے دریدہ دہن اور زبان دراز آدمی نے انہیں ایسے ایسے بازاری القاب و آداب سے یاد کیا ہے کہ زبان اور تہذیب جنہیں دہرانے سے معذور ہے مگر اس کے باوجود بلاول نے کبھی شیخ صاحب کی حد تک گر کے انہیں جواب نہیں دیا۔

گزشتہ روز حکمران پارٹی کے اراکین نے جس طرح ایوان کے تقدس کو پائمال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو تقریر کے آغاز ہی میں سب و شتم، شور شرابے، گھٹیا جملہ بازی، ہلڑ بازی اور گالم گلوچ کے ذریعے مزید بات کرنے روک دیا اس سے ان اراکین کی بد تہذیبی اور شقاوت قلبی تو اظہر من الشمس ہے ہی مگر ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ظاہر ہوئی کہ حکمران پارٹی کے پاس اپنے عوام دشمن بجٹ کے حوالے سے اپوزیشن لیڈر کے مسکت، صائب اور ٹھوس سوالات کے جوابات نہیں تھے۔

شروع کے چند جملوں ہی سے پتہ چل رہا تھا کہ شہباز شریف بجٹ کے حوالے سے اچھی طرح تیاری کر کے آئے ہیں اور وہ بجٹ میں بولے گئے وزیر خزانہ کے لا متناہی کذب و افتراق اور مصنوعی اعداد و شمار کا بڑی ہنر مندی اور پیشہ ورانہ مہارت سے پول کھولنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر حکمران پارٹی کے اراکین نے وہ طوفان بد تمیزی برپا کیا کہ الحفیظ و الامان۔

گزشتہ دنوں ایک ٹاک شو کے دوران مشیر اطلاعات پنجاب نے جس طرح قادر مندوخیل کو گریبان سے پکڑ کر تھپڑ مارے اور غلیظ زبان استعمال کی ابھی اس واقعے کی بازگشت فضاوٴں میں ہی تھی کہ اعوان برادری کے ایک اور ”شیریں سخن“ اور ”میٹھے لہجے“ کے بانکے سجیلے جوان علی نواز اعوان نے اجلاس کے دوران اخلاقیات کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے اپوزیشن اراکین کی طرف بجٹ کی کاپیاں اور گالیاں اچھالیں۔ علی امین گنڈا پور، زرتاج گل، مراد سعید، فواد چودھری اور دوسرے اراکین کی شعلہ نوائی اور ہرزہ سرائی بھی اپنے عروج پر تھی، جسے دیکھتے ہوئے شرافت و نجابت منہ چھپا رہی تھی۔ اس حمام میں سب ہی ننگے تھے اور ایک موقعے پر سکیورٹی اہلکاروں نے اپوزیشن اراکین کو حکمران جماعت کی دست برد سے محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ‏ اور تو اور محترمہ ڈاکٹر شیریں مہر النسا مزاری، پی ایچ ڈی کولمبیا یونیورسٹی، سابق ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ قائد اعظم یونیورسٹی، وفاقی وزیر برابر انسانی حقوق۔

‏ کچھ صحافی دوست بڑی محنت سے محترمہ شیریں مزاری کو قابل احترام بنانے کی تگ و دو کرتے ہیں لیکن انہوں نے بھی آج تہذیب و شائستگی کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے اپنے مداحین کو سخت مایوس کیا۔

ہمارے لیے یہ امر نہایت حیران کن ہے کہ بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج، شور شرابا اور ہنگامہ آرائی تو سمجھ میں آنے والی بات اور ایک مستحکم روایت ہے مگر اس ہائبرڈ حکومت میں یہ حسن اہتمام پہلی بار دیکھنے کو مل رہا ہے کہ خود حکمران پارٹی اپنے ہی بجٹ کے خلاف ہنگامہ آرائی کر کے اسمبلی کے ماحول کو خراب کر رہی ہے۔ کیا ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے کہ خود حکومت یہ چاہتی ہے کہ ان کا یہ عوام دشمن اور خونیں بجٹ پاس نہ ہو سکے اور نا اہل حکومت کو سیاسی شہید بننے کا موقع مل سکے؟

آج کے اجلاس میں حکمران پارٹی کی غنڈہ گردی اور بد معاشی دیکھ کر ہمیں تو ایوان کا مچھلی منڈی بننے والا محاورہ بھی بہت بے ضرر اور معصوم سا نظر آر ہا تھا۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کو فوری طور پر مستعفی ہو کر اس ایوان سے باہر آ جانا چاہیے جو اب حکمران جماعت کی کرتوتوں کے باعث قانون سازی کا ادارہ کم اور ایک ریسلنگ و پہلوانوں کا اکھاڑا زیادہ بن گیا ہے جہاں قانون سازی کے بجائے دنگا فساد اور ہلڑ بازی کے ریکارڈ زیادہ قائم ہو رہے ہیں۔

موجودہ وزیراعظم، ان کے حواریوں اور لانے والوں کو مبارک ہو کہ انہوں نے بائیس سالا جدوجہد کے بعد آخر کار ایک ایسی نسل تیار کر لی ہے جو ہر فورم پر اپنی نا اہلی، بد تمیزی اور بد تہذیبی کے کانٹے بو کر سیاست کی وادی کو مزید خارزار، بے وقار اور بے اعتبار بنا رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments