بجٹ ہے یا سیاسی تھیٹر


آج کل بجٹ کا سیزن چل رہا ہے اور ایسے میں بجٹ اجلاس خصوصاً وزیرخزانہ کی تقریر کے دوران اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی تو گزشتہ دو عشروں میں روایت بن چکی ہے۔ میرے ایک کولیگ جو کہ تحریک انصاف کے بہت بڑے حامی ہیں نے سندھ اسمبلی کے بجٹ اجلاس شروع ہوتے ہی یہ فقرہ کسا کہ اب قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی والا حساب کتاب چکتا ہوگا۔ دیکھا جائے تو پنجاب اسمبلی میں بھی بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے سیٹیوں اور نعروں کی وجہ سے کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔

کچھ ایسا ہی سندھ اسمبلی کے اجلاس میں ہوا جہاں اپوزیشن کے شور شرابے سیٹیوں اور وزیراعلی کا گھیراؤ کرنے کی وجہ سے حکومتی اراکین کو وزیراعلی سندھ کے گرد حفاظتی حصار بنانا پڑا۔ پنجاب اور سندھ اسمبلی کے اجلاسوں سے یہ لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی فٹ بال میچ ہو رہا ہے جس میں اراکین اسمبلی نہیں بلکہ شائقین اپنی اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لئے سیٹیاں بجا رہے ہیں۔ یا پھر یوں سمجھئے کہ تھیٹر چل رہا ہے جہاں مداحوں کی جگہ اراکین اسمبلی نے لی ہوئی ہے سیٹیاں اور ہلڑ بازی کر کے داد دی جاری ہے۔

مگر گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں تو کچھ انوکھے ہی مناظر سامنے آئے، اسمبلی رولز کے تحت بجٹ تقریر کے بعد بجٹ پر بحث کی جاتی ہے جس کے لئے اس دفعہ چالیس گھنٹے مختص کیے گئے ہیں، بجٹ پر بحث کا آغاز اپوزیشن لیڈر کی جانب سے کیا جاتا ہے، اسی روایت کے پیش نظر جب اپوزیشن لیڈر بجٹ پر بحث کے لئے کھڑے ہوئے تو حکومتی اراکین نے شور شرابا اور ہنگامہ آرائی شروع کی اور یوں اودھم مچایا کہ گویا شہباز شریف وزیرخزانہ ہوں اور بجٹ پیش کرنے جا رہے ہوں۔

یہ مناظر نہ صرف پارلیمانی روایات کے برخلاف تھے بلکہ پارلیمانی رپورٹرز کے لئے بھی باعث حیرت تھے۔ حالانکہ حکومت کو ہمیشہ سے ہی بڑا دل کر کے اپوزیشن کی تنقید کو برداشت کرنا ہوتا ہے مگر نوبت یہ پہنچی کہ سپیکر نے مداخلت کرتے ہوئے ضابطہ اخلاق طے ہونے تک اجلاس ملتوی کیا اور اپوزیشن لیڈر کو تقریر سے روک دیا۔ یوں پہلی دفعہ حکومت کی ہلڑ بازی کی وجہ سے قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوا۔ جس کے بعد حکومت کی جانب سے ضابطہ اخلاق سپیکر آفس سے جاری کروایا گیا۔

جس کے تحت ہاؤس کے اندر ویڈیوز بنانے پر پابندی لگادی گئی اور یہ پابندی بھی تب سامنے آئے ہی جبکہ حکومتی رکن مجید نیازی کی جانب سے پہلے بلاول بھٹو اور پھر شہباز شریف پر آوازیں کسے گئے جس سے ان کے ساتھ بیٹھے وزراء اور عمران خان کی کچن کیبنٹ سمجھے جانے والے اراکین خوب لطف لیتے رہے۔ جس سے حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ ہاؤس میں پلے کارڈ اٹھا کر مخالف پارٹی کی سیٹس پر جانے کی اجازت بھی نہیں ہوگی، اراکین کو اسپیکر ڈائس پر کھڑے ہو کر نعرہ بازی اور احتجاج کی اجازت بھی نہیں ہوگی، صرف اپنی نشست پر ہی موجود رہ کر احتجاج کیا جائے گا۔

ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر سپیکر کسی بھی کارروائی کے مجاز ہوں گے، سارا ہاؤس اسپیکر کی اجلاس چلانے میں مدد اور فیصلہ سازی کی تعظیم کرے گا۔ مگر ان قواعد و ضوابط کی خود حکومتی اراکین کی جانب سے دھجیاں اڑاتے ہوئے ایک دفعہ پھر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر کے دوران سیٹیاں بجائی گئیں اور ہلڑ بازی کی گئی۔ عوام خاطر جمع رکھیں کیونکہ یہ سیاسی تماشا اگلے سات سے آٹھ دن مزید دیکھنے کو ملے گا۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ بحث چالیس گھنٹے تک رہے گی، جس میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو بحث کے لئے 18 گھنٹے 14 منٹ اور 44 سیکنڈ ملے ہیں، حکومت کی اتحادی ایم کیو ایم کو بجٹ پر بحث کے لئے 47 منٹ 7 سیکنڈ ملے ہیں۔

ق لیگ کو بجٹ پر بحث کے لئے 35 منٹ 5 سیکنڈ، باپ کے حصے میں 35 منٹ 5 سیکنڈ جبکہ جے ڈی اے کو 21 منٹ 3 سیکنڈ ملے ہیں۔ عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی، اور آزاد حکومتی رکن کو 7، 7 منٹ اور 7 سیکنڈ میں بحث نمٹانی ہوگی۔ جبکہ پوری اپوزیشن کو 19 گھنٹے 4 منٹ کے ساتھ حکمران جماعت تحریک انصاف سے 40 منٹ اضافی ملیں گے۔ جس میں سے نون لیگ کو 9 گھنٹے 49 منٹ 28 سیکنڈ، پیپلز پارٹی کو 6 گھنٹے 33 منٹ ملیں گے۔ ایم ایم اے کو 1 گھنٹہ 45 منٹ 16 سیکنڈ، بی این پی کو 28 منٹ 4 سیکنڈ ملیں گے۔

اے این پی کو 7 منٹ 7 سیکنڈ جبکہ 3 آزاد امیدواروں کو 21 منٹ 3 سیکنڈ ملیں گے۔ دیکھا جائے تو مجموعی طور پر اپوزیشن اور حکومت کے ہر ممبر کو بجٹ پر بحث کے لئے 7 منٹ اور 7 سیکنڈ ملیں گے۔ ہر پارٹی اور ممبر کو بجٹ پر اپنی تقریر اپنے مقررہ وقت میں ختم کرنی ہوگی۔ ایسے میں جہاں حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کی تقاریر میں ہنگامہ آرائی کرتے نظر آئیں گے وہیں کٹوتی کی تحاریک اور فنانس بل کی منظوری کے بعد آخری مرحلے میں وزیرخزانہ کی جانب سے اختتامی تقریر کی جائے گی۔

اصل مرحلہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی تقریر کا ہوگا جس پر بجٹ اجلاس کا اختتام ہوگا۔ جو روایت حکومتی اراکین کی جانب سے اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران ڈالی گئی تو کوئی بعید نہیں کہ اپوزیشن اس سے بھی زیادہ سیاسی بچگانہ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیادہ شدت سے بے ہنگم اور مایوس کن احتجاج کرے گی اور اس تقریر میں ایک دفعہ پھر ایوان کے مچھلی منڈی بننے جیسے مناظر نظر آئیں گے، یوں اعداد و شمار کا یہ گورکھ دھندا ہمارے سیاسی مداریوں کے بھونڈے تماشے کے ساتھ اختتام پذیر ہو جائے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments