پاکستان نہیں، پاکستانی اوپر جا رہا ہے!


صداقت و امانت سے لبریز زبان سے فرمان شاہی جاری ہوا ہے کہ پاکستان اوپر جا رہا ہے۔ میں خوشی میں جھومنے ہی والا تھا کہ اچانک ایک اور فرمان ”سیاہی“ پر نظر پڑی جس میں فر ”مایہ“ گیا تھا کہ اگلے پانچ سالوں میں ہم پاکستان کو بہت اوپر لے جائیں گے۔ بس یہ پڑھنا تھا کہ دل اچاٹ ہو گیا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں پاکستان کو اوپر جاتا نہیں دیکھ سکتا بلکہ اس کی وجہ پاس بیٹھے ایک بابا جی تھے۔ جن کے اس فقرے نے مجھے اداس کر دیا تھا : بیٹا میں اگر اگلے پانچ سال زندہ نہ رہا تھا تو؟

درد دل تو میرے پاس اتنا کہ اپنے کپتان کے وژن کی طرح میں بھی گوڈے گوڈے درد غریباں میں دھنسا ہوا ہوں۔ بابا جی بات سن کر میرا تو دل غم سے پھول کر ”کپی“ بن گیا کہ جن بزرگوں نے ستر اسی سال کپتان کی بائیس سالہ جہدوجہد کا انتظار کیا کہ وہ اپنے خواب کی تعبیر ملنے سے پہلے ہی آنکھیں بند کر لیں گے؟ میں بابا جی سے کہا: بے فکر رہو بزرگو! پاکستان اوپر جائے نہ جائے آپ اوپر جانے کے پیٹے میں ضرور ہیں۔ بابا جی کو میری بات سمجھ آئی یا نہیں لیکن بہرحال میں نے ہینڈسم انداز میں تقریر جھاڑ کر اپنا فرض پورا کیا اور چلتا بنا۔

کچھ دور ہی گیا تھا کہ اچانک خیال آیا کہ لکھوا کر تو کوئی نہیں لایا کہ پہلے اولڈ ہی اوپر جائیں گے آج کل تو ناگہانی اموات کا عالم ہے اور یوتھ بھی کافی تعداد میں اوپر جا رہی ہے۔ میرے خیال کے مطابق یوتھ کے اوپر جانے کا زیادہ سبب اندھا دھند فیصلے ہیں جیسا کہ تیز رفتاری وغیرہ۔ بسا اوقات ان میں سے کسی کے ابو کسی مجبوری کی وجہ سے انہیں موٹرسائیکل یا گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیتے ہیں اور جب سب کو کراس کرنے کے جنون میں ایکسیڈنٹ ہوتا ہے تو کہتے ہیں : ہمارا کیا قصور ہے؟ ہمیں کیا پتا تھا کہ یہ گاڑی کو کسی قسم کا کھیل سمجھ کر ڈیل کرے گا۔

بہرحال بات چلی تھی پاکستان کے اوپر جانے سے اور کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میں کاغذ قلم تھامے کالم لکھ رہا ہوں نہ کہ کسی کنٹینر پر کھڑا تقریر کر رہا ہوں۔ ہوش آتے ہی واپس کالم کی طرف آیا تو بجٹ پیش کر دیا گیا تھا۔ بجٹ پیش کرنے میں پوری حکومت ہی بہت سنجیدہ تھی لیکن ایک معزز رکن کی سنجیدگی نے تو میرا دھواں نکال دیا۔ وہ بیچارہ ”بلو، بلو، بلو۔“ پکار رہا تھا۔ میں نے بہت سوچا کہ بجٹ میں بلو کا کیا کام لیکن بات بن نہیں پائی۔

اچانک مجھے چاچا صادق نامی ایک امین انسان یاد آیا جس کی امانت اس کی فیملی کے سوا سبھی مانتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کی ایک بلو تھی جو پچھلی حکومت میں سستائی کے بوجھ تلے دب کر مر گئی۔ آج جب ایک مہنگا اور قیمتی بجٹ پیش ہوا ہے تو اسے اپنی مرحوم بلو یاد آ رہی ہیں کہ کاش وہ زندہ ہوتی تو اسے معلوم ہوتا کہ بائیس سالہ محنت کے بعد بجٹ کیسے لشکارے نکالتا ہے۔ میں نے پوچھا:سستائی اور بوجھ؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔

بابا جی کہنے لگے :تمہیں بھی ابو کی طرح لیٹ ہی سمجھ آتا ہے۔ میں نے پوچھا: چاچا جی کوئی ایک مثال؟ کہنے لگے : پچھلی حکومت میں مثلاً چینی سستی تھی تو اس کی بلو کیبنٹ کے علم میں لائے بغیر کچن میں گھس گئی اور جی بھر کے اتنی چینی کھائی کہ اسے شوگر ہو گئی اور وہ مر گئی۔ یہ رکن سوچ رہا ہے کہ کاش چینی آج کی طرح مہنگی ہوتی تو بلو چمچوں کے حساب سے ”پھکنے“ کی بجائے دانہ دانہ گن کر چوستی، نہ اسے شوگر ہوتی اور نہ ہی وہ مرتی۔ تم تو ٹھہرے پٹواری، پڑھے لکھے ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا ناں کہ پچھلے دور میں چوروں نے کیسے چاچا ٹیسا پہلوی کی ”کالی قمیص“ (عموماً قمیض لکھا جاتا ہے جو غلط ہے ) چرا کر اپنی بدصورت مہنگائی نامی معشوقہ کو پہنا کر اسے سستائی بنا کر پیش کیے رکھا؟

میں نے کہا: چاچا جی! تو وہ قمیص یہ کیوں استعمال نہیں کرتے؟ چاچا جی نے پاس پڑی ہوئی پرچیوں کو بل کی طرح پھاڑا اور اس کی پرچیاں فضا میں اڑاتے ہوئے بولے :یہ لوگ اس ملک کی آخری امید ہیں۔ یہ چوروں کے نقش قدم پر چلنا بالکل گوارا نہیں کریں گے۔ عوام اور ملک سے ان کی کمٹمنٹ اس قدر خالص ہے کہ یہ امانت دار مہنگائی کو تو گلے لگا لیں گے لیکن کرپٹ سستائی کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ اسی خلوص کا صدقہ ہے کہ ملک ریاست مدینہ کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔

میں نے پوچھا : وہ کیسے؟ چاچا صادق ایک بار جھوما اور مخمور لہجے میں کہنے لگا : کفایت شعاری اور ایثار، صرف ان دو لفظوں پر غور کرو تمہیں ساری بات سمجھ آ جائے گی۔ میں نے کہا چاچا میں تو ٹھہرا پٹواری آپ ہی بتا دیں۔ چاچا کہنے لگا :پہلے دور میں ناقص پالیسیوں کی وجہ سے لوگ فضول خرچ ہو گئے تھے۔ اب دیکھو ناں کیسے ایک ایک چیز دھیان سے خرچ کرتے ہیں۔ پہلے ہم اتنے کنجوس تھے کہ گندم ذخیرہ کر لیتے تھے لیکن اب ہم میں ایثار کا اتنا جذبہ پیدا ہو گیا ہے کہ خود بھوکے رہ کر ہمسایہ ملک کو دے دیتے ہیں۔ یہ صرف ”امین“ مہنگائی کی وجہ سے ممکن ہو پایا ہے۔

چاچا جی نے اپنی چادر اٹھائی، کندھے پر رکھی اور گویا ہوئے : رب راکھا! پاکستان بڑی تیزی سے اوپر جا رہا ہے۔ میں ٹھہرا بوڑھا انسان۔ اب چلتا ہوں کہیں پیچھے ہی نہ رہ جاؤں۔ وہ چلے گئے تو میں نے ویران گلی کی طرف دیکھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے واقعی میرا پاکستان مجھ سے بہت اوپر چلا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments