پاکستان میں ہم جنس پسند خواتین کی مشکلات اور شناخت کا بحران


پاکستان میں مختلف شناخت کے حامل افراد کے لئے کئی مشکلات ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کی عدم دستیابی سمیت خوف کا مسلط رہنا زیادہ اذیت ناک ہے۔ یہی کیفیت مختلف عقیدہ رکھنے والوں کو بھی درپیش ہے۔ اختلاف رائے رکھنا بھی خود کو موت کے منہ میں دھکیلنے والی بات ہے۔

مختلف شناخت کے حامل افراد میں سر فہرست خواجہ سرا (ٹرانسجینڈرز ) ہیں جبکہ ہم جنس پسند افراد کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے جو شناخت مخفی رکھ کر زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان میں خواتین کے لئے زیادہ مسائل اور مشکلات ہیں۔ مرد حضرات شادی کے بعد بھی سابقہ تعلقات کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھتے ہیں جبکہ خواتین کے لئے انتہائی مشکل ہے کہ سابقہ تعلقات کو جاری رکھ سکیں کیوں کہ خواتین نے نئے گھر جانا ہوتا ہے۔

شریعہ کے دباؤ کے باعث ہم جنس شادیوں کی اجازت ممکن نہیں ہے۔ خفیہ طور پر جسمانی تعلق ہیں اور کئی ہم جنس پسند برسوں سے ساتھ رہ رہے ہیں۔ 377 کی تعزیراتی دفعہ سر پر لٹکتی تلوار ہے۔ ذرا سی غلطی پر مقدمہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم جنس پسند جوڑے کسی نہ کسی صورت میں ساتھ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاص کر خواجہ سراؤں کی آڑ لے کر رہنا قدرے محفوظ سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مضافاتی گاؤں میں رہنے والی رخسانہ خان کی کہانی بھی یہی ہے۔ کئی جاں گسل مراحل سے گزر کر جب رخسانہ سے ملاقات ہوئی تو رخسانہ نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے بتا یا کہ پہلی بار ہم چھت پر ملے تھے۔ میں اپنی چھت پر تھی اور سماویہ (فرضی نام) اپنی چھت پر تھی۔ ہم نے عام سی باتیں کیں۔ دو تین ملاقاتیں دوستی میں بدل گئی۔ دوستی نے پیار کا روپ دھار لیا۔ یوں ہم ملتے ملتے جسمانی تعلق تک پہنچ گئے۔

محبت میں یوں مدغم تھے کہ پتا ہی نہیں چلا ماہ سال کیسے گزر گئے اور سماویہ کے مجھ سے بچھڑنے کا وقت آ گیا ہے۔ سماویہ کے بغیر کیسے رہوں گی۔ سماویہ کی شادی زبردستی کی جا رہی ہے۔ سماویہ میرے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ رخسانہ زیادہ تر مردانہ انداز میں بولتی ہے۔ رخسانہ کا کہنا ہے کہ کاش وہ لڑکا ہوتی۔ یعنی شناخت کا بحران ہے۔ رخسانہ اپنی شناخت پر مطمئن نہیں ہے۔ اسے لگتا ہے کہ وہ لڑکی نہیں لڑکا ہے۔ رخسانہ خان دیہاتی اور نیم خواندہ 24 سالہ لڑکی ہے۔ قبائلی اور پشتون پش منظر ہے۔ غریب اور مذہبی گھرانے سے تعلق ہے۔ گھر میں پردے کی سخت پابندی ہے۔ گھر سے باہر دکان پر بھی جانا ہو تو گھر کا کوئی مرد ساتھ جاتا ہے۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر عثمان علی کا کہنا ہے کہ ہم جنس پسندی میں رہنے سہنے کا ماحول اثر انداز ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں ہم جنس پسندی جنسی نقائص اور جنسی تبدیلیوں کے باعث بھی ہوتی ہے۔ ماہر نفسیات کے مطابق کئی کیسز میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ خواتین کے ساتھ کسی مرد کی جانب سے برا سلوک بھی خواتین کو ہم جنس کی جانب راغب کرتا ہے۔ بچپن میں ریپ کا شکار ہونے والے بھی جنس مخالف سے نفرت کرتے ہیں اور اپنے ہم جنس کو ترجیح دیتے ہیں۔

انسانی حقوق کی کارکن اور ماہر قانون عالیہ سید کے مطابق جتنا کسی چیز کو دبایا جائے گا وہ اتنی ہی شدت سے ابھرے گی۔ سماجی ناہموار اور دباؤ اور جبر کی کیفیت میں ہم جنس پسندی کے رجحانات ابھر رہے ہیں۔ ہم جنس پسندی ازل سے ہے۔ جب معاشرے میں جبر اور خوف نہیں ہوتا ہے تو پھر کوئی کسی کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا ہے۔

سماویہ کی شادی کے دن رخسانہ نے فون کر کے بتایا تھا کہ لڑکی کے گھر والے زبردستی نکاح کر رہے ہیں جبکہ لڑکی بالکل راضی نہیں ہے۔ گھر والوں نے لڑکی کو کمرے میں بند کر رکھا ہے۔ رخسانہ کے فون پر مقامی پولیس سے رابطہ کیا گیا۔ پولیس موقع پر گئی تو لڑکی نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ اس پر کوئی دباؤ نہیں ہے اور شادی پر راضی ہے۔

شادی کے موقع پر پولیس کی آمد سے سماویہ کے بھائی آگ بگولہ تھے کہ پولیس کو کس نے بلایا ہے۔ انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ اطلاع کنندہ کوئی لڑکی ہے مگر رخسانہ کی قسمت اچھی تھی کہ انہیں نام معلوم نہیں ہوسکا اور نہ کوئی اور خبر ان کے کانوں تک پہنچی وگرنہ دونوں کا برا حال کیا جاتا۔

سماویہ شادی کے بعد جنسی نوعیت کا بہانہ کر کے سسرال سے واپس اپنے گھر آ گئی ہے اور شوہر کو یہی بہانہ کر رہی ہے کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ بچے پیدا کر سکوں آپ دوسری شادی کر لیں۔

سماویہ کی عمر 21 سال ہے اور خواندہ ہے۔ روایتی پنجابی گھرانے سے تعلق ہے۔ باپ اور بھائیوں کے سامنے اونچا سانس لینے کی جرات نہیں کر سکتی ہے۔ سماویہ نے فون پر بتایا کہ وہ کسی صورت شادی کو قبول نہیں کرتی ہے۔ ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکتا ہے۔

رخسانہ اور سماویہ دونوں کا تعلق ایسے خاندانوں سے ہے کہ غیرت کے نام پر عورت کو جان سے مار دینا معمولی اور قابل فخر بات سمجھا جاتا ہے۔ یہ کہانی صرف رخسانہ اور سماویہ کی ہی نہیں ہے بلکہ سیکڑوں پاکستانی ہم جنس پسند خواتین کی کہانی ہے۔ 2014 میں یہی دن تھے۔ جب راقم نے بی بی سی کو اس نوعیت کی اپنی پہلی کہانی https://www.bbc.com/news/world-asia-28693456 دی تھی۔ اس کے بعد آج تک کئی کہانیاں رپورٹ کی ہیں۔ ہم جنس پسندی کے موضوع پر سیکڑوں مضامین لکھ کر آگاہی دینے کی کوشش کی ہے کہ ہم جنس پسندی اختیاری فعل نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments