مغرب کے کچھ ساحلی مناظر



ٹرین کے اسٹاپ سے سی سائیڈ تک دس منٹ کی پیدل مسافت تھی۔ ایک طرف پر گاڑیاں پارک کرنے کی جگہ تھی اور اس ساتھ ہی پیدل چلنے والوں کے لئے فٹ پاتھ بنے تھے۔ درمیان میں سڑک تھی۔ کچھ لوگ اوپر سڑک پر گاڑی پارک کرنے کی بجائے نیچے بیچ پر لے جاتے تھے۔ سمندر تک جانے کے لئے کئی راستے بنے ہوئے تھے۔ نیچے جانے والی سیڑھیاں کافی کشادہ اور بڑی تھی۔ سیڑھیوں کے ساتھ بہت چوڑی سے سڑک تھی جس سے گاڑیاں نیچے سمندر تک جا رہی تھی۔

بچوں کی پرام اور ویل چیئر کے لئے الگ سے سلائیڈ بنی ہوئی تھی۔ غرض ہر طرح کے لوگوں کے سہولیات فراہم کی گی تھی۔ نیچے جانے تک ہم پوری طرح تھک چکے تھے۔ کیوں کہ ہم کبھی اتنا زیادہ چلے ہی نہیں ہے۔ ہم صرف چل کے تھک گئے تھے۔ لیکن یہاں پر لوگ نہ صرف خود چل رہے تھے بلکہ اپنے ساتھ بھاری بھر سامان اٹھائے ہوئے تھے۔ کچھ لوگ بار بی کیو کا سامان لے کر آئے ہوئے تھے اور بار بی کیو کر رہے تھے۔ یہاں پر بچوں کے لئے ایک خاص قسم کی ٹرالی ہوتی ہے۔

جو بچوں کو سلانے کے لئے ہوتی ہے اگر بچا سو جائے تو اس کو ٹرالی میں لٹا دیتے ہے۔ لیکن وہاں پر یہ ٹرالیاں پکنک کی چیزیں رکھنے کے طور پر استعمال کی جا رہی تھی۔ کچھ ٹرالی میں بچے چیزوں کے نیچے دبے ہوئے بھی نظر آئے۔ یہاں پر لوگ اپنے ساتھ ڈھیر سارا سامان اٹھانے میں ذرا بھی ہچکچاتے نہیں ہے۔ نہ صرف خود چلتے ہے بلکہ سامان کو بھی اپنے ساتھ دھکیل رہے ہوتے ہے۔ سامان اٹھانے کے لئے یا پھر کوئی بھی کام کرنے کے لئے یہاں پر مرد اور عورت کی کوئی تمیز نہیں ہے۔

عورتیں بھی بھاری بھر سامان اٹھا لیتی ہے۔ خیر سمندر کے پاس لوگوں نے پکنک میٹ بچھائے ہوئے تھے اور تیز دھوپ سے بچنے کے لئے اوپر ایک چھتری بھی کھڑی کی ہوئی تھی۔ کچھ لوگ اپنے ساتھ کرسیاں بھی لے کر آئے ہوئے تھے یہ آسانی کے ساتھ کھولی اور بند کی جا سکتی ہے۔ زیادہ تر فیملیز وہاں پر موجود تھی۔ اور قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ چاک سے لائنز لگا کر فٹ بال بھی کھیلا جا رہا تھا۔ یہ لوگ ریت سے مختلف چیزیں بھی بناتے ہے بچے ریت میں بیٹھ کر کھیل رہے ہوتے ہے ایک چیز جو ہمیں کافی دل چسپ لگی۔

ایک باپ اپنے بیٹے کو ریت کے اندر دبا رہا تھا صرف اس کا چہرہ باہر تھا۔ اور بچہ اس سے لطف انداز ہو رہا تھا۔ ان سب باتوں سے ہٹ کے سمندر کی خوبصورتی کا کسی چیز سے مقابلہ نہیں تھا۔ عجیب سی کشش اور دیو ملائی حسن سمندر اپنے اندر رکھتا ہے۔ سمندر کی دلکشی میں ایسا جادو ہے جو انسان کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اور انسان رب کی تخلیق اور اس کی قدرت پر لا جواب ہو جاتا ہے۔ سمندر کی سطح نیلی اور سبز تھی۔ جو سمندر کے نظارے کو مزید دوبالا کر دیتی ہے۔

ساحل سمندر وہ جگہ ہے جو انسانی ذہین پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے۔ پانی کے نظارے اور آواز انسان کی روح اور ذہین کے لئے ایک تھراپی کی حیثیت رکھتے ہے۔ اور انسان ایک سکوں اور آرام کی کیفیت محسوس کرتا ہے۔ سمندر سے مزید لطف اندوز ہونے کے لئے انسانی عقل نے بھی حیرت انگیز چیزیں بنا لی ہے۔ سمندر پر ایک پل بنایا گیا تھا جو کنارے سے شروع ہو کر سمندر کے بیچ تک جاتا ہے یہ پل لوہے سے بنایا گیا تھا۔ اس کو پیر کہا جاتا ہے۔

طویل سیڑھیوں سے پل کو منسلک کیا گیا ہے۔ پیر پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بینچ بھی پڑے ہوئے تھے۔ زیادہ تر لوگ فشنگ میں مصروف تھے۔ پیر پر ایک ریسٹورنٹ بھی تھا۔ کچھ لوگ پیر پر سائیکلنگ کر رہے تھے لیکن بوڑھے مرد اور خاص طور پر بوڑھی خواتین کو سائیکل کو اٹھا کر پل سے اوپر اور نیچے لے جاتے ہوئے دیکھ کر ہمیں بہت حیرت ہوئے۔ ہم سے تو سیڑھیاں چڑھنی محال تھی۔ یہ اپنے ساتھ سائیکل بھی اٹھائے ہوئے تھی۔ سائیکلنگ یہاں کا قومی شوق ہے۔ حال ہی میں ہم نے پارک میں ایک سائیکل پہ بیسینیٹ سیٹ لگی ہوئی دیکھی۔ ایسی سیٹ جیسی کار میں بچوں کے لئے ہوتی ہے۔ گوری نے بچے کو سیٹ پہ بٹھایا۔ اور خود سائیکل چلا کر چلتی بنی۔ اور ہم ڈھنگ رہ گے۔ واو کیا ایسا بھی ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments