وطن عزیز کے سیاستدانوں کی اخلاقیات


لوگوں کے شور و غوغا میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی اور وہ گریبان پھاڑے مغلظات بک رہا تھا۔ ایک پل کو یوں لگا جیسے یہ کسی گلی چوک یا چوراہے کا منظر ہے اور محلے کے فارغ اور اوباش کسی بات پر لڑنے مرنے پر آمادہ ہیں اور قریب ہے کہ کوئی ایک فریق دوسرے کو جان سے مار دے۔ جب آس پاس کھڑے لوگوں نے اسے روکنے کی کوشش شروع کی تو وہ اپنے مخالف کو ماں اور بہن کی ننگی گالیاں دینے لگا۔ یہ گلی محلے میں یا بازار میں شاید ایک عام سا معاملہ ہوتا کیونکہ دن بھر کا تھکا مارا اور زندگی کی الجھنوں میں الجھا عام آدمی اپنے اندر کا غصہ نکالنے کے لیے کوئی بہانہ ڈھونڈتا ہے لیکن یہ معاملہ مختلف اس لیے تھا کہ یہ سب کچھ وطن عزیز کے مقدس ترین ایوان میں ہو رہا تھا۔

قومی اسمبلی میں حکمراں جماعت کے ممبر اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی علی اعوان مسلم لیگ نون کے ایک رکن کے ساتھ کسی بات پر نبردآزما تھے اور گلہ پھاڑ کے ان کو ماں اور بہن کی وہ غلیظ گالیاں دے رہے تھے کہ الامان و الحفیظ اور سامنے موجود اپوزیشن کی نشستوں سے بھی ان پر عوام کے پیسوں سے پرنٹ کیے گئے بل کی کاپیوں کے وار کیے جا رہے تھے۔ اب تھوڑا ماضی کی طرف چلتے ہیں، وہ ایک ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کا وزیر دفاع تھا اور حکومت کی کارکردگی پر بات چل رہی تھی کہ اپوزیشن نے اس کی تقریر میں خلل ڈال دیا اور قومی اسمبلی میں فلور پر کھڑے ہو کر اس نے ایک قومی اسمبلی کی خاتون ممبر کو ”ٹریکٹر ٹرالی“ بول دیا۔

یہ معاملہ کسی ایک سیاسی لیڈر تک محدود ہوتا تو شاید یہ کوئی بڑی بات نہیں ہوتی لیکن ملک میں پارلیمنٹ میں اور اس سے باہر سیاستدانوں کی بازاری زبان استعمال کرنا اور ایک دوسرے پر جھپٹ پڑنا ایک عام سی بات بن گئی ہے اور اس حمام ساری سیاسی پارٹیاں بلاتفریق ننگی ہیں۔ بلکہ اب تو یوں لگنے لگا ہے جیسے ہر پارٹی نے پارلیمنٹ اور جلسے جلوسوں کے لیے ایسی غلیظ زبان استعمال کرنے کے لیے کچھ لوگوں کو ذمہ داری دی ہوئی ہے۔

عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کے دعویداروں نے ملک کے مقدس ترین ایوان کو مچھلی بازار بنانے کی ایک روایت ڈال دی ہے اور سنجیدگی ان کی اتنی ہے کہ حساس معاملات پر بلائے جانے والے اجلاس میں بھی ایک دوسرے پر طعن و تشنیع، نازیبا اشارے اور جملے کسنا، ایک دوسرے کو جانوروں سے تشبیہ دینا ایک معمول بن گیا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے پر ملک کے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس تھا جس میں مسلم لیگ نون کے سینیٹر مرحوم مشاہداللہ خان نے تحریک انصاف کے چودھری فواد حسین کو ”ڈبو“ کہا جس پر فواد چودھری سیخ پا ہو گئے اور کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی اور بھارت کے ظالمانہ اقدام پر پاکستان کی پالیسی دینے کے لیے بلائے گئے اجلاس کا مذاق بنا دیا گیا اور پاکستان سے کشمیریوں کی امیدوں پر ”ڈبو، کمینہ اور بے غیرت“ کے القابات نے یقیناً پانی پھیر دیا ہو گا۔ اور یہ تو کچھ دن قبل ہی کا واقعہ ہے جب حکمراں جماعت کی فردوس عاشق اعوان نے لائیو شو کے دوران اپنی مخالف پارٹی کے ایک رکن کو تھپڑ جڑ دیے۔

جنھیں پارلیمنٹ میں بھیجنے کے لیے عوام، پارٹی کارکنان اپنے دوست و احباب سے دشمنی مول لیتے ہیں، جنھیں اقتدار کی کرسی کے لیے منتخب کرنے کے لیے کارکنان جلسے جلوسوں میں نعرے مار مار کر اپنا گلہ بٹھا دیتے ہیں اور ان کے لیے ووٹ مانگنے کے لیے لوگوں کی منت و سماجت کر کے بھکاری بن جاتے ہیں تاکہ ان کے لیڈران منتخب ہو کر ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں۔ وہ جب پارلیمنٹ میں جاتے ہیں تو آئے روز اسمبلیوں کی کارروائیاں ان لیڈران کی ذاتی لڑائیوں کی نذر ہوجاتی ہیں۔

اور انھیں یہ پوچھنے والا کوئی نہیں کہ آپ تو عوام کے حقوق کے تحفظ اور ان کی فلاح کے لیے منتخب کیے گئے تھے، لیکن آپ تو اپنے ذاتی قضیے لے کر عوام کے نمائندہ ادارے کے تقدس کو آئے روز پامال کرتے ہیں۔ کوئی فردوس عاشق اعوان سے یہ پوچھنے کی جرات نہیں رکھتا کہ قادر مندوخیل کو تھپڑ مارکر انھوں نے عوام کی فلاح کا کون سا کارنامہ سر انجام دے دیا، اور جب عبدالقادر پٹیل نے مراد سعید کی اپنی کارکردگی اور محنت کے بارے میں بیان پر اسمبلی فلور پر کھڑے ہو کر ذو معنی انداز میں ایسی گفتگو کی کہ کوئی معزز بندہ اس پر دادو تحسین دور کی بات، اسے سن کر آگے اسے کسی کے سامنے اصل الفاظ میں بیان بھی نہیں کر پائے گا اور جب وہ اس غلیظ ذہنیت کو الفاظ میں ڈھال رہے تھے تو ان کی پارٹی کے ممبران ان کے لیے ایسے ڈیسک بجا رہے تھے اور قہقہے لگا رہے تھے جیسے کوئی سرکس چل رہا ہو لیکن کوئی عبد القادر پٹیل سے یہ پوچھنے والا نہیں کہ تحریک انصاف کے مراد سعید کے بارے میں ذومعنی باتیں کر کے انھوں نے کون سے ہسپتال، اسکول یا یونیورسٹی کی بنیاد رکھ دی۔

کسی نے اپنی پارٹی کے کسی لیڈر سے یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کہ یہ اسمبلیوں کے اجلاسوں میں استعمال ہونے والی بجلی، ان ایوانوں تک پہنچنے کے لیے اراکین کی گاڑیوں کے ایندھن کا خرچ، ان ایوانوں میں عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر اڑائے جانے والی ضیافتوں کے بعد تو ان اراکین نے عوام کی فلاح کے لیے قانون سازی کرنی تھی، لیکن یہ تو گلی محلے کے چھچھورے لڑکوں کی طرح ایک دوسرے پر جھپٹ رہے ہیں اور عوام کے ٹیکس کو ذاتی لڑائی جھگڑوں میں مصروف ہو کر ضائع کر رہے ہیں۔

یہ ہمارے لیڈران سے زیادہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم یا تو کھرے کھوٹے میں فرق کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے یا ہمارے ووٹ نظریے، کارکردگی اور وژن کی بجائے مسلک، فرقہ، شخصیت اور اسی طرح قوم برادریوں کو دیکھ کر پڑتے ہیں۔ جب اپنے لیڈران کے انتخاب کا معیار یہ ہوگا بجائے اس کے کہ ہم ان لیڈران سے ان کی کارکردگی کا محاسبہ کریں اور ان سے پوچھیں کہ بطور پارلیمنٹ رکن آپ کی گاڑی کا ایندھن، آپ کے گھر کا بل اور آپ کو حاصل سہولیات ہمارے ٹیکس سے پوری ہوتی تھیں تو آپ نے اقتدار میں آ کر ہمارے حقوق کی بات کی یا صرف اپنے مخالفین پر تنقید کے نشتر برساتے رہے اور ایوانوں میں مذاق مستی اور دشنام طرازی کرتے رہے، اگر ہم ایسا کرنے کے قابل ہوں تو شاید اسمبلیوں میں ایسے لیڈران دیکھنے کو ملیں جو حقیقت میں عوام کے لیے آواز بلند کریں دوسری صورت میں پھر لیڈران بھی ایسی ذہنیت کے ہی ہوں گے جو ایوان کو سرکس سمجھ کر تماشا لگائیں رکھیں گے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ کوئی ایسا نظام بنایا جائے جس میں ایوانوں کا تقدس پامال کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے اور ایسے قوانین موجود ہوں کہ کوئی بھی پارلیمنٹ کا رکن اگر غیر اخلاقی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے تو اسے کڑی سزا دی جائے، دوسری صورت میں ایوانوں میں موجود یہ لوگ ایسے ہی عوام کے ٹیکسوں پر من موجیاں کرتے ہوئے اپنی مدت پوری کر کے چلتے بنیں گے اور عوام یوں ہی مسائل کے انبار میں سسکتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments