واٹرگیٹ سکینڈل: وہ سکینڈل جس نے ایک امریکی صدر نکسن کا تختہ الٹ دیا


نکسن

صدر نکسن

آج سے ٹھیک 49 برس قبل یعنی 13 جون 1972 کے دن جب پانچ افراد ڈاکے کی غرض سے امریکی دارالحکومت کی ایک عمارت میں داخل ہوئے تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ چوری کی یہ بظاہر چھوٹی سی واردات امریکہ کی سیاسی تاریخ پر اس قدر گہرے اثرات مرتب کرے گی کہ ملک کے صدر کو اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہونا پڑ جائے گا۔

واشنگٹن کی اس عمارت کا نام ’واٹر گیٹ‘ تھا جہاں کچھ دفاتر کے علاوہ ایک ہوٹل بھی تھا۔

اس واردات نے نہ صرف سیاسی بنیادوں پر کی جانے والی جاسوسی، اپنے مخالفین کی انتخابی مہم میں نقب لگانے اور رشوت ستانی کے ایک بہت بڑے جال کو بے نقاب کیا بلکہ تحقیقی صحافت کے باب میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔

جی ہاں ہم بات کر رہے ہیں ’واٹر گیٹ سکینڈل‘ کی جو صدر رچرڈ نکسن کے زوال کا باعث بنا اور یوں وہ امریکہ کی تاریخ کے وہ واحد صدر بن گئے جنھیں اپنے عہد صدارت کے دوران ہی وائٹ ہاؤس چھوڑنا پڑا۔

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ اس سکینڈل نے امریکہ کے سیاسی کلچر کو ہمیشہ کے لیے بدلنے کے علاوہ، ذرائع ابلاغ کو ایک نئی طاقت بخشی جس کے بعد صحافیوں کو حوصلہ ملا کہ وہ طاقتور سیاسی شخصیات کو قانون کے کٹہرے میں لا سکتے ہیں۔

اس سکینڈل کو منظرعام پر لانے والوں میں کلیدی کردار روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کے دو رپورٹروں، باب وڈورڈ اور کارل برنسٹین نے ادا کیا تھا اور انھیں اپنی تحقیق مکمل کرنے میں ایک پراسرار مخبر کی مدد حاصل تھی۔

سیاست کی دنیا کا ڈراؤنا خواب

سپریم کورٹ میں واٹر گیٹ سکینڈل کی کارروائی کا خاکہ

سپریم کورٹ میں واٹر گیٹ سکینڈل کی کارروائی کا خاکہ

واٹر گیٹ محض 17 جون کو ہونے والی واردات کا نام نہیں، دراصل اس سے مراد سیاسی چالبازیوں کا وہ سلسہ ہے جو سنہ 1972 اور سنہ 1974 کے درمیانی عرصے میں ملک کے بڑے دفاتر کے کمروں اور راہداریوں میں پس پردہ جاری تھا۔

سترہ جون کو جو پانچ افراد گرفتار کیے گئے تھے ان کا مشن صدر نکسن کی مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کی ذیلی تنظیم ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے دفتر میں خفیہ آلات نصب کرنا تھا۔

جب ان افراد کو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تو وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی خفیہ دستاویزات کو الٹ پلٹ کے دیکھنے کے ساتھ ساتھ صدر نکسن کے سیاسی مخالفین کے دفتر میں خفیہ آلات نصب کر رہے تھے تاکہ وہاں ہونے والی گفگتو کو ٹیپ کیا جا سکے۔ بعد میں واشنگٹن پوسٹ کی خفیہ تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ پانچوں افراد اصل میں صدر نکسن کے لیے کام کر رہے تھے۔

بعد میں اس معاملے کی تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ گرفتار کیے جانے والے پانچ افراد کے تانے بانے ’کمیٹی ٹو ری الیکٹ دا پریزیڈنٹ‘ نامی ایک گروپ سے ملتے تھے جو صدر رچرڈ نکسن کو دوسری مدت کے لیے امریکہ کا صدر منتخب کروانے کے لیے کام کر رہا تھا۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے انتخابی دفتر میں نقب لگانے والے پانچوں افراد اور ان کے دو ساتھیوں سمیت چالیس سے زیادہ افراد کو جنوری 1973 میں مختلف جرائم کا مرتکب پایا گیا۔ یہ وہ موقع تھا جب اس مقدمے کی سماعت کرنے والے ٹرائل جج جان سیریکا اور بہت سے دیگر لوگوں کے ان شبہات میں اضافہ ہو گیا کہ اس سکینڈل کے تانے بانے امریکہ کے طاقتور ترین افراد سے ملتے ہیں جن میں رچرڈ نکسن انتظامیہ کی اہم شخصیات بھی شامل ہو سکتی ہیں۔

اور پھر جب ڈاکے کی ورادات میں ملوث پائے جانے والے پانچ افراد میں سے ایک نے جان سیریکا کو لکھا کہ کئی طاقتور افراد اس ساے معاملہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو واٹر گیٹ ایک بہت بڑا سیاسی سکینڈل بن گیا۔

اس سکینڈل کے چرچے دور دور تک پھیل چکے ہیں اور اب دنیا کے کسی بھی ملک میں جب بھی سیاسی ہیرا پھیری یا سرکاری بدعنوانی کا کوئی معاملہ آشکار کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ’گیٹ‘ کا لاحقہ لگا دیا جاتا ہے۔

خفیہ ریکارڈنگ

باب

صحافی باب وڈورڈ

جان سیریکا کو لکھے جانے والے خط میں جن شکوک کا اظہار کیا گیا تھا اُن کے نتیجے میں امریکی ایوانِ بالا، یعنی سینیٹ نے اس سکینڈل کی باقاعدہ تفتیش کا آغاز کر دیا جس نے امریکی سیاست کی بڑی بڑی شخصیات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ان اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز شحصیات میں ملک کے سابق اٹارنی جنرل جان مچل اور وائیٹ ہاؤس کے دو مشیر، جان ایرلچمین اور ایچ آر ہالڈمین بھی شامل تھے۔

اور پھر اپریل 1974 میں صدر نکسن کو عوامی دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑے اور انھوں نے واٹر گیٹ سکینڈل کے حوالے سے مختلف لوگوں سے جو گفگتو کی تھی، اسے تحریری شکل میں منظر عام پر لانا پڑا۔ تاہم صدر نے جو دستاویزات جاری کیں ان میں صدر کی گفتگو کا مکمل احوال نہیں بیان کیا گیا تھا۔

یہ دستاویزات پیش کرنے کے باوجود صدر نکسن عوام میں اپنی انتظامیہ کی گرتی ہوئی مقبولیت کو روکنے میں ناکام رہے یا کم از کم وہ لوگوں کے ذہنوں میں ان شکوک کو کم نہیں کر سکے کہ اس سازش میں صدر کا اپنا ہاتھ بھی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

حکومتوں کا تختہ الٹنے والا صحافی

وائٹ ہاؤس کے بعد زندگی کیسے گزارتے ہیں؟

ہنری کسنجر کے خفیہ دورہ چین میں پاکستان نے امریکہ کی کیسے مدد کی؟

اسی برس جولائی میں سپریم کورٹ نے صدر کو حکم دے دیا کہ وہ اس معاملے سے متعلق اپنی گفتگو کی اصل آڈیو ریکارڈنگ بھی حکام کے حوالے کر دیں۔

اس دوران ایوان نمائندگان کی قانونی کمیٹی نے بھی واٹر گیٹ سکینڈل کی تفتیش مکمل کرتے ہوئے صدر نکسن کے خلاف محاسبے کی درخواستوں کی منظوری دے دی۔

آخر کار پانچ اگست کو صدر نے اپنی گفتگو کے تین مکمل متن بھی حکام کے حوالے کر دیے۔

صدر نے اعتراف کیا کہ واٹر گیٹ کی عمارت میں نقب لگائے جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد انھیں معلوم ہو گیا تھا کہ اس معاملے پر پردہ ڈالا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ صدر نکسن نے یہ بھی تسلیم کیا کہ انھوں نے خفیہ ادارے، ایف بی آئی کی تفتیش کو رکوانے کی کوشش کی تھی۔

چار ہی دن بعد رچرڈ نکسن امریکی تاریخ کے وہ واحد صدر بن گئے جنھیں اپنے عہدے سے استعفےٰ دینا پڑا اور ان کی جگہ نائب صدر جیرالڈ فورڈ کو صدر تعینات کر دیا گیا۔

واٹر گیٹ

سینیٹر سیم ارون، چیئرمین سینیٹ واٹر گیٹ کمیٹی

صدر فورڈ نے اپنے پیشرو کو عدالتی کارروائی سے محفوظ رکھنے کے لیے نکسن کو معاف کر دیا، تاہم صدر کے تینوں بڑے ساتھیوں، جان مچل، جان ایرلچمین اور ایچ آر ہالڈمین کے خلاف قانونی کارروائی ہوئی اور پھر سنہ 1975 میں عداالت نے واٹر گیٹ سکینڈل میں ملوت کئی دوسرے افراد کے ساتھ ساتھ ان تینوں کو بھی مختلف جرائم کا مرتکب قرار دیا۔

پیسے کا پیچھا کرو

جوں جوں واٹر گیٹ سکینڈل کا شور زور پکڑتا گیا، اس معاملے کو دنیا کے سامنے لانے والے صحافیوں نے اس سکینڈل سے منسلک بہت سی کہانیوں سے پردہ اٹھانا شروع کر دیا۔ اپنی تحقیقی صحافت کے اس سفر کی داستان کو انھوں نے کتابی شکل میں پیش کیا جو ’آل دا پریزیڈنٹس مین‘ کے عنوان سے شائع ہوئی جس میں انھوں نے بتایا کہ اس سکینڈل کے تمام کردار اصل میں صدر کے لیے کام کر رہے تھے۔

اس کتاب پر سنہ 1976 میں ہالی وڈ نے فلم بھی بنائی جس میں سراغ رسانی، حکومتی اہلکارں کی پس پردہ کارروائیوں اور سب سے بڑھ کر اس قسم کے سکینڈلز سے پردہ اٹھانے والے صحافیوں کی مشکلات کا بہترین احاطہ کیا گیا ہے۔

اس فلم کے یادگار مناظر میں ایک مشہور منظر وہ ہے جب وڈورڈ اپنے مخبر ’ڈیپ تھروٹ‘ سے پہلی ملاقات کے لیے واشنگٹن میں واقع ایک پارکنگ گیراج میں پہنچتے ہیں۔ رات کے پچھلے پہر ہونے والی اس خفیہ ملاقات میں جب وڈورڈ اپنے مخبر سے پوچھتے ہیں کہ میں اس سازش میں ملوث اصل کرداروں تک کیسے پہنچوں تو ڈیپ تھروٹ انھیں کہتے ہیں کہ ’پیسے کا پیچھا کرو یعنی دیکھو کہ اس سکینڈل میں کون کسے پیسے دے رہا ہے تو تم خود ہی ان کرداروں تک پہنچ جاؤ گے۔‘

واشنگٹن پوسٹ میں اپنی تحقیقاتی خبروں کی اشاعت کے دنوں میں وڈورڈ بتا چکے تھے کہ ڈیپ تھروٹ فکرمند ہو گئے تھے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ وڈورڈ اور برنسٹین کو اندر کی خبریں دینے والا مخبر کون ہے۔

اسے لیے کہا جاتا ہے کہ ڈیپ تھروٹ نے وڈورڈ کو بتا دیا تھا کہ ان دونوں کو فون پر گفتگو نہیں کرنی چاہیے کیونکہ خفیہ ادارے ان کی گفگتو ریکارڈ کر سکتے ہیں۔ اسی لیے دونوں نے طے کر لیا تھا کہ آئندہ وہ رات کی تاریکی میں مقررہ وقت پر پارکنگ گیراج میں ہی ملا کریں گے۔

چنانچہ جب بھی وڈورڈ کو ڈیپ تھروٹ سے ملنا ہوتا تو وہ اپنے فلیٹ کی کھڑکی کے ساتھ پڑے ہوئے گملے کو اپنی جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھ دیتے۔ یوں ڈیپ تھروٹ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ وڈورڈ اُن سے ملنا چاہتے ہیں۔

اسی طرح اگر ڈیپ تھروٹ کے پاس وڈورڈ کو بتانے کے لیے کوئی نئی خبر ہوتی تو وہ وڈورڈ کے گھر آنے والے اخبار (نیویارک ٹائمز) کے اس دن کے اخبار پر ایک خفیہ نشان لگا دیتے جس سے وڈورڈ کو معلوم ہو جاتا ہے آج رات ڈیپ تھروٹ سے کتنے بجے ملنے جانا ہے۔

واٹر گیٹ سکینڈل کے منظر عام پر لائے جانے کے کئی عشروں بعد تک یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ آخر ٹیپ تھروٹ اصل میں کون شخص ہے جسے نکسن انتظامیہ کی بڑی شخصیات تک کی خبر ہوتی ہے۔

اس راز سے پردہ مئی 2005 میں اس وقت اٹھا جب وڈورڈ نے بتا دیا کہ ڈیپ تھروٹ اصل میں مارک فیلٹ ہی تھے جو واٹرگیٹ سکینڈل کے دنوں میں ایف بی آئی میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔

واٹر گیٹ اور امریکی سیاست

واٹر گیٹ

کئی لوگوں کا خیال ہے کہ واٹر گیٹ سکینڈل نے امریکی سیاست کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دیا ہے، لیکن واشنگٹن کے معروف تھِنک ٹینک ’بروکِنگز انسٹیٹیوٹ‘ سے منسلک سٹیفن ہیس اس سے زیادہ اتفاق نہیں کرتے۔

2005 میں جب بی بی سی نے اس حوالے سے سٹیفن ہیس سے پوچھا تھا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا درست ہو گا کہ واٹرگیٹ سکینڈل نے ’کچھ عرصے کے لیے‘ امریکہ کے سیاسی کلچر کو تبدیل کیا تھا لیکن یہ اثرات دیرپا نہیں تھے۔

رچرڈ نکسن کو جو خفت اٹھانا پڑی ’اس سے کچھ دیر کے لیے کانگریس میں ایک نیا جذبہ پیدا ہو گیا تھا اور ذرائع ابلاغ کو بھی لگا کہ وہ تحقیقی صحافت کے ذریعے طاقتور شخیات کو بے نقاب کرنے میں حق بجانب ہوں گے، لیکن وقت گزرے کے ساتھ ساتھ (امریکہ کے سیاسی کلچر میں) دوبارہ سے توازن آ گیا ہے۔‘

واشنگٹن میں قائم ایک اور مشہور تھِنک ٹینک ’کیٹو انسٹیٹوٹ‘ کے نائب صدر اور معروف سکالر جان سیمپلز اس سے اتفاق نہیں کرتے ہیں۔ اُن کے بقول واٹر گیٹ سکینڈل نے ’اپنی حکومت پر امریکی عوام کے اعتماد کو واقعی ہلا کے رکھ دیا تھا لیکن اس کے ساتھ یہ سکینڈل امریکہ کے سیاسی رجحانات میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوا ہے۔‘

ان کے بقول حکومت پر عوامی اعتماد کے لحاظ سے واٹر گیٹ سکینڈل کے دن ہی بُرے نہیں تھے بلکہ حکومتی اہلکاروں پر لوگوں کا اعتبار پہلے ہی کم ہو رہا تھا۔

’اس اعتماد میں کمی کا آغاز 1964 میں ہو چکا تھا اور یہ رجحان 1980 تک جاری رہا۔ واٹر گیٹ نے گہرے اثرات مرتب کیے، لیکن یہ کہانی اس طویل داستان کا محض ایک حصہ ہے جو کئی عشروں سے جاری تھی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp