ہم دیکھ رہے ہیں!


آپ نے بجٹ سیشن میں گھروں میں بیٹھی ہوئی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو  ”بڑھ چڑھ“ کر جو گالیاں دیں، ہم نے سنی ہیں اور ہم آپ کا انداز سیاست دیکھ رہے ہیں۔ شیخ سعدی کو ایک شخص سے ملنے کی بڑی چاہ تھی۔ انھوں نے اس شخص کی فہم و فراست اور ذہنی بالیدگی کا بڑا تذکرہ سن رکھا تھا، مگر ملاقات نہیں ہو پا رہی تھی۔ ہر شخص سے وہ ان کا پوچھ چکے تھے، مگر قسمت ملوا نہیں پا رہی تھی۔ ایک دن شیخ سعدی کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک شخص نے روک کر کہا، محترم! آپ جس ہستی کو ملنے کا اشتیاق رکھتے ہیں وہ سامنے موجود ہے۔ یہ سنتے ہی شیخ سعدی کی خوشی کی انتہا نہ رہی اور ملاقات کی تڑپ فزوں ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ ان کی طرف بڑھتے، ایک شخص اس ہستی کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا، شیخ نے انتظار کرنے کا سوچا کہ وہ جائے تو جا کر ملے۔ چند لمحوں بعد وہ شخص اس ہستی کے ساتھ اونچی آواز میں بولنا شروع ہو گیا، پھر اس کا ہاتھ گریباں میں پڑ گیا۔ تھوڑی دیر بعد شیخ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ہستی بھی اونچی آواز میں بولنا شروع ہو گئی اور ہاتھ بھی اس شخص کے گریبان میں ڈال دیا۔

شیخ وہاں سے چل دیے اور کہا کہ جیسا سنا تھا ویسا نہیں پایا۔ اگر ایسا ہوتا تو اونچی آواز اور ہاتھا پائی کی نوبت ہی نہ آتی اور اگر آ بھی جاتی تو وہ ہستی اس سطح پر نہ اترتی جس پر بدو اتر آیا تھا۔  ”ہوتوتو“ ہندی فلم ہے۔ یہ ہندوستان کی طرز سیاست کو بہت قریب سے پیش کرتی ہے۔ اس میں اداکارہ تبو ایک ڈائیلاگ بولتی ہے، یہ فلمی ڈائیلاگ پورے سماجی ڈھانچے کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ  ”تم مرد بہت عجیب ہوتے ہو، جب تم سڑکوں پر باہم ایک دوسرے سے جھگڑتے ہو تو گالیاں گھروں میں بیٹھی ان خواتین کو دیتے ہو جو تمھارے لڑائی جھگڑوں سے لاعلم ہوتی ہیں۔“

مذکورہ بالا دونوں باتیں یاد رکھے جانے کے لائق ہیں۔ اگر آپ ذی شعور ہیں، تو ایسی نوبت ہی نہ آنے دیں کہ کوئی آپ کے ساتھ بداخلاقی کرے اور اگر مصیبت ٹوٹ ہی پڑے تو خود اس کی سطح پر نہ اتریں۔ نیز اپنی لڑائیوں اور نفسیاتی الجھنوں میں گھروں میں بیٹھی ماؤں بہنوں کی عزت اور ناموس کو چیلنج نہ کریں۔ نیز یہ کہ لڑائی جھگڑے مسئلوں کا حل نہیں، ان کو پیچیدہ کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو اپنی لڑائیوں میں کھینچ لائے ہیں۔

ہم بجٹ سیشن میں پارلیمنٹ میں آپ کی جانب سے بجٹ بکس، ایک دوسرے کو مارنے کے منظر دیکھ رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیسے آپ بجٹ بکس ایک دوسرے کو مار کر پہلے زخمی کرتے ہیں اور پھر کتاب کے گلابی اور سفید کاغذوں کو روندتے ہیں۔ ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ پارلیمنٹ کا اجلاس بجٹ پر غور و فکر پر مبنی ہوگا، آپ بجٹ بکس کھول کر دیکھتے، پڑھتے، عوام کے ریلیف دینے پر غور کرتے، آپ نے انھی کتابوں کو جو عوام کے ٹیکسوں سے پرنٹ ہو کر پارلیمان تک پہنچی تھیں، لڑائی کا ہتھیار بنا لیا؟

ہم آپ لوگوں کے لہجوں کی سختی، ذہنی پسماندگی، زبان و بیان کی کڑواہٹ، محسوس کر رہے ہیں۔ ہم پارلیمنٹ کے اندر آپ کی طرف سے بجائی گئی سٹیل کی سیٹیاں سن چکے ہیں۔ ہم نے آپ کے ہاتھوں میں تھامے ہوئے باجے دیکھے ہیں آپ پہلے جلسے جلوسوں میں ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلتے تھے، خواتین رہنماؤں کے خلاف پروپیگنڈا کرتے تھے، ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتے تھے، ایک دوسرے کو الٹے سیدھے ناموں سے پکارتے تھے، ہم یہ سوچ کر برداشت کرتے تھے کہ جلسے جلوسوں میں جوش خطابت (ویسے آپ لوگ جس قدر خطابت کی خوبی کے حامل ہیں، ہم جانتے ہیں ) میں ایسی باتیں ہوجاتی ہیں، لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ ٹی وی ٹاک شوز میں، آپ لوگ ایک دوسروں کو گالیاں دینے اور تھپڑ مارنے لگ پڑے، یہ معاملہ یہاں تک نہ رکا، پارلیمنٹ کی مقدس عمارت تک جا پہنچا۔

اب یہ ہمارے بس سے شاید باہر کا معاملہ ہو چکا ہے۔ ہم اپنے اپنے حلقوں میں، آمدہ انتخابات میں آپ کا انتظار کریں گے۔ جہاں ہم یہ ضرور استفسار کریں گے کہ پارلیمنٹ میں ان کتابوں کے گلابی اور سفید صفحات کو پیروں تلے کیوں لتاڑا؟ جن پر ہمارا نصیب لکھا تھا۔ اور ہم یہ ضرور پوچھیں گے کہ پارلیمان کے اندر گھروں میں بیٹھی ماؤں بہنوں کو اونچی آوازوں میں گالیاں کیوں دی تھیں؟ کیا آپ کے پاس ان سوالوں کے جوابات ہوں گے؟

کوئی جواز ہوگا؟ اگر آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ لوگوں کے تمام عمل، ہم عوام کے لیے تھے، تو یہ بھول ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ لوگ ہم عوام کی جنگ کتنی لڑتے ہیں؟ جب آپ لوگوں کے پاس کوئی جواز نہیں ہوگا تو ہمارے پاس آپ لوگوں کو ووٹ دینے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ ہم آپ کی جگہ ایسے لوگوں کا انتخاب کریں گے، جو ہم میں سے ہوں گے۔ ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ آپ بھی ہم میں سے ہیں۔ مگر ہم سے چوک ہو گئی، اسی چوک کا نتیجہ ہے کہ آپ ہر موقع پر، ہر سٹیج پر ہماری توہین کرتے ہیں۔

ہمارے انگوٹھوں پر لگے ہوئے سیاہی کے نشان ابھی مدہم نہیں پڑے تھے کہ آپ پر قائم کیا اعتبار بکھرتا چلا گیا۔ آپ کم ازکم اتنا بھرم تو رکھتے کہ ہمارے انگوٹھوں پر لگی سیاسی کو تو مدہم ہونے دیتے، پھر بے شک ہمارے اعتبار کا جنازہ نکال دیتے۔ ہمیں اپنے انتخاب پر افسوس ہے کہ آپ کو تو لفظ کی ثقافت تک سے آگاہ نہیں۔ بدمعاش کا لفظ محض لفظ نہیں، چور کا لفظ محض لفظ نہیں بلکہ پوری ثقافت کو یہ الفاظ پیش کرتے ہیں۔ آپ ایک دوسرے کو چور بھی کہتے ہیں، ڈاکو اور بدمعاش بھی۔ ہم آپ لوگوں کا انتخاب کر کے، اپنی توہین و تضحیک محسوس کر رہے ہیں۔ امید ہے آمدہ انتخابات میں، جب آپ ہمارے دروازوں پر آئیں گے تو ہم ایسی غلطی دوبارہ نہیں کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments