ایک سخت جان افسانوی مجموعے کی روداد


”ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری“ کا پہلا ایڈیشن سن دو ہزار دس میں شائع ہوا تاہم انیس افسانوں اور ایک سو بارہ صفحات پر مشتمل یہ کتاب اپنا رنگ جمانے میں ناکام رہی۔ کچھ افسانے کچے رہ گئے تھے۔ کچھ ضرورت سے زیادہ پک گئے تھے۔ پروف کی بھی کافی اغلاط تھیں۔ کچھ عالی ظرف دوستوں اور بزرگوں نے خوب حوصلہ افزائی کی، مگر قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے، لہذا ان افسانوں کو مسلسل قطع و برید کے عمل سے گزارتا رہا کہ شاید بات بن جائے۔

زندگی میں پہلی بار صحیح معنوں میں ادراک ہوا کہ پاجامہ ادھیڑ کر سینا کسے کہتے ہیں (یہی جو تہی دامانی حاصل آئے)۔ جنوں کی حکایت خونچکاں لکھتے اور انگلیاں فگار ہوتیں تو کوئی بات بھی تھی۔ یہ تو محض ایک دیوانگی بھری خودکلامی تھی، اور خودکلامی بھی ایسی جو ایک نہ ختم ہونے والی بازگشت میں ڈھل جائے، آوازوں کا قبرستان ہو جائے۔ جب کبھی حوصلے جواب دینے لگتے تو میں خود کو باور کراتا کہ اور کچھ نہ بھی ہو تو کم از کم یہ ایک نئی طرز کی مشق تو ہے ہی۔

بسا اوقات پوری پوری رات کمپیوٹر سکرین پر گزار دینے اور بیس بیس بار ایک افسانے کو پڑھ چکنے کے باوجود متن جوں کا توں رہتا۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ دس صفحوں کے افسانے میں سے پانچ صفحے کاٹ ڈالے مگر دوبارہ اور سہ بارہ دیکھنے پر کھانچے خالی محسوس ہوئے۔ پھر اس کے بعد اگلا پورا ہفتہ یہ فیصلہ کرنے میں گزرا کہ جو تب کیا وہ صحیح تھا، یا جو اب کر رہا ہوں وہ درست ہے۔ جو افسانہ کبھی ایک ہی نشست میں لکھ ڈالا تھا اور اسی فلو میں چھاپ بھی دیا تھا، کئی کئی دن اس کے زائد الفاظ کو الگ کرنے اور غیر ضروری کوموں اور سیمی کولنز کا تعین کرنے میں صرف ہونے لگے۔ کچھ نیا لکھنے بیٹھتا تو ایک عجیب سے گلٹ کا شکار ہو جاتا۔ پہلا ہی پیرا گراف اتنی بار لکھا جاتا اور لکھ کر کاٹا جاتا کہ کردار اور مرکزی خیال، دونوں کا کچومر نکل جاتا۔ میں یہ ماننے پر تیار ہی نہیں تھا کہ پیتل کو جتنا مرضی پالش کر لیا جائے، وہ کبھی ہیرا نہیں بن سکتا!

تین سے چار سال اسی لمبو میں گزر گئے مگر دو تین شدید آورد زدہ افسانوں اور مضامین کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آیا تو اوبسیشن اور کمپلشن نے ڈس آرڈر کی شکل اختیار کر لی۔ انہی دنوں جناب خرم آفاق نے مافات رضا نامی ایک افسانہ نگار کا تذکرہ کیا۔ میں نے خوب گھما پھرا کر ان کی پروفائل کا معائنہ کیا تو ان کی تنقیدی بصیرت سے کافی مرعوب ہوا۔ ڈرتے ڈرتے انہیں وہی دو ہزار دس والی فائل بھیجی اور دست بستہ درخواست کی کہ اگر ممکن ہو تو اس متن کی میجر سرجری کر دیں۔ یہ مافات رضا کا ہی حوصلہ اور ظرف تھا کہ انہوں نے جملہ در جملہ، حرف بہ حرف متن پڑھا اور نہایت بیش قیمت تجاویز دیں۔ انہیں تو شاید علم بھی نہ ہو مگر میں جس غار میں قید تھا، انہوں نے اس کا دہانہ کھول کر مجھ پر ایک بہت بڑا احسان کیا!

اپنی خود ساختہ غار سے باہر نکلا تو چاروں جانب روشنی کے مینار دکھائی دیے۔ کچھ دیر تو آنکھیں چندھیائی رہیں۔ اوسان بحال ہوئے تو ان پیج کا استعمال سیکھا اور مافات کی بھیجی ہوئی فائل پر کام شروع کر دیا۔ قریبی دوستوں کو اس پیش رفت سے آگاہ کیا تو جناب منذر عزیز اور مرتضی فیاض نے مشورہ دیا کہ ایک ایک کر کے ان سب تحریروں کو کسی آن لائن ادبی جریدے میں چھپوایا جائے تاکہ قارئین کی رائے بھی سامنے آ سکے۔ کافی غور و خوض کے بعد ”ہم سب“ نامی معروف ویب میگزین کو مشق ستم بنانے کا فیصلہ ہوا۔ جناب وجاہت مسعود اور عدنان کاکڑ کا شکر گزار ہوں کہ میں نے جو بھی الم غلم بھیجا، انہوں نے ہچر مچر کیے بغیر چھاپ دیا!

کم ازکم دس افسانے اور اتنے ہی مضامین دو سالوں کے درمیانی عرصے میں ”ہم سب“ کی زینت بنے۔ فائدہ جس کا یہ ہوا کہ ہمدم دیرینہ جواد رحمان ایسے کڑے نقاد نے اپنے موبائل کی سکرین پر ان تمام تحریروں کو بہ غور پڑھا اور کئی نکات کے حوالے سے میرے ذہن کی گرد جھاڑی۔ تحریر کو میل کرنے سے پہلے کئی بار ایڈٹ کیا جاتا۔ تسلی ہو جاتی توان پیج سے یونی کوڈ میں کنورٹ کر کے جناب مدھر ملک، عثمان علی، خرم شہزاد اور عاقب قریشی کو بھجوا دیا جاتا اور ان سے درخواست کی جاتی کہ زائد الفاظ اور زبان و بیان کی اغلاط نشان زد کریں۔

ان احباب کا بے حد شکریہ کہ انہوں نے مجھے بلاک کرنے کے بجائے میری حوصلہ افزائی کی۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ میں انہیں ایک پھنسا ہوا جملہ ٹائپ کر کے بھیج دیتا اور ایک آدھ لفظ کے ہیر پھیر سے ایسے پانچ سات جملے بنا کر سب سے بہتر جملہ چننے کے لیے کہتا۔ اس عمل کے دوران کئی مباحثے اور مذاکرے ہوئے۔ ایک دو بار تو نوک جھونک بھی ہوئی۔ مدھر ملک اتنے زچ ہوئے کہ انہوں نے وٹس ایپ دیکھنا اور کال اٹینڈ کرنا بند کر دیا۔

میں نے نمبر بدل بدل کر فون کرنا شروع کیا تو انہوں نے اپنا پندرہ سال پرانا نمبر آف کر لیا۔ میں نے بھی ہار نہ مانی۔ چار پانچ افسانے سیدھے ہو جاتے تو نوے کلومیٹر کا سفر کر کے ان کے گھر جا پہنچتا۔ اسی دوران عمران لطیف اور راشد سعیدی سے شناسائی ہوئی تو انہیں بھی کچھ تحریریں بھیج کر ان کے ضبط کا امتحان لیا۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ اس امتحان میں سرخرو ٹھہرے!

مذکورہ بالا احباب کی حد تک تو ٹھیک تھا کہ یہ تمام افراد ادب کی دیوی کے پرستار تھے۔ برا یہ ہوا کہ میری بہنیں، بھائی، کزنز اور زوجہ بھی اس اوبسیشن کی زد میں آ گئے۔ ہمارا فیملی وٹس ایپ گروپ میری انہی حرکات کی بنا پر بند کر دیا گیا۔ میرا چھوٹا بھائی ابوذر اور میرے بڑے کزن حمزہ اور انیب مجھے سامنے سے آتا دیکھتے تو عقبی دروازے سے باہر نکل جاتے۔ یہ سب لوگ تو پھر بھی خوش نصیب تھے کہ کبھی کبھار ہی اس ادبی دہشت گردی کا نشانہ بنتے، محترمہ عفیفہ پراچہ میری شریک حیات ہونے کے ناتے میرے ڈائریکٹ نشانے پر تھیں۔ ابتدا میں جب ان سے مشاورت لینی شروع کی تو وہ خوشی سے پھولی نہ سمائیں۔ ان کا خیال تھا کہ شاید یہ کوئی اعزاز کی بات ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ ان کی مسرت زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی!

انہی دنوں جناب عمران لطیف اور مظہر عباس کی تحریک پر فکشن کلب بہاولپور نامی ایک ادبی تنظیم کا جنم ہوا تو میں اس کا پہلا جنرل سیکرٹری قرار پایا۔ دو چار اجلاسوں کی رپورٹیں لکھ کر ہاتھ صاف ہو گیا تو ایک ہی ہلے میں پانچ چھ افسانے ہو گئے۔ جونہی ان افسانوں کو پرانے افسانوں سے ملا کر دیکھا تو ”ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری“ کے خد و خال واضح ہونے لگے۔ اس کے بعد میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کچھ افسانے خود ٹائپ کیے، کچھ دوستوں سے کروائے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایڈیشن دوم کی پہلی فائل تیار ہو گئی، جو ہمدم دیرینہ قاضی علی ابو الحسن کو بھجوا دی گئی۔ قاضی نے نہ صرف نہایت باریک بینی سے پروف دیکھا بلکہ کتاب کی ترتیب اور یونٹس کی تقسیم کے حوالے سے کئی اہم مشورے بھی دیے!

اس کتاب کا پہلا ایڈیشن مصنف کی موت کا نوحہ تھا چنانچہ کسی پیش لفظ اور مقدمے کے بغیر شائع ہوا۔ دوسرا ایڈیشن مصنف کی پیدائش کا جشن تھا لہذا طویل گفتگو کا متقاضی تھا۔ یوں تو فکشن پر گفت گو کرنے والے بہتیرے تھے مگر ملتان/ بہاول پور کے دوستوں کو چھوڑ کر کسی سے براہ راست شناسائی نہ تھی۔ میری خواہش تھی کہ کچھ دیباچے ایسے ادیبوں سے لکھوائے جائیں جو میرے پرانے کام کو جانتے ہوں، اور کچھ ایسے لکھاریوں سے جو میرے سابقہ کام سے بالکل ناواقف ہوں۔

سچ پوچھیے تو اس قحط الرجال کے دور میں سنجیدہ اور ایماندار مقدمہ نگاروں کا چناو اتنا سہل نہ تھا۔ کافی غور و خوض کے بعد اپنے پسندیدہ فکشن نگاروں اور نقادوں کی ایک فہرست مرتب کی اور جناب مدھر ملک سے سیر حاصل مشاورت کے بعد اسے مقامی اور غیر مقامی کیٹیگریز میں تقسیم کر لیا۔ ملتان اور بہاولپور کے لکھاریوں میں سے خالد سعید، خرم شہزاد اور ضیغم رضا کو مسودہ بھجوایا گیا کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی مقدمہ لکھ دے اور باقی فلیپ ہی عطا کر دیں تو ایک عمدہ شکل نکل آئے گی۔

اصل مسئلہ دوم الذکر لسٹ کا تھا، جس میں اجمل کمال، خالد فتح محمد، سید کاشف رضا، زیف سید، ژولیاں اور مرزا اطہر بیگ کے نام درج تھے۔ ہمیشہ کی طرح حفیظ تبسم اور دلربا خان ہی کام آئے جن کے توسط سے جناب خالد فتح محمد، سید کاشف رضا اور زیف سید کو مسودے بھجوائے گئے۔ مجھے خوشی ہے کہ تمام احباب نے پوری ایمانداری سے مقدمہ لکھا، اور اس کتاب کی معنویت میں اضافہ کیا۔ ممکن ہے یہ کتاب باقی نہ رہے کیوں کہ اس کا متن باقی رہنے کی صلاحیت سے عاری ہو، لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ اپنے مقدمات کی وجہ سے باقی رہ جائے!

اگر یہ دعوی کیا جائے کہ ”معنی کی تلاش“ اور ”سینڑل چوک“ ، ”ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری“ کی سگی بیٹیاں ہیں تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ اگر ”ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری“ کے پہلے ایڈیشن کی اشاعت میرے لیے شدید مایوسی اور وجودی بحران کا سبب نہ بنتی، اور میں بار بار اپنی سابقہ تحریروں کو نہ پھرولتا تو کبھی بھی میرے اندر کا ایڈیٹر اور نقاد فعال نہ ہو پاتا، جو ان دونوں کتابوں کی تخلیق کا محرک بنا!

”ٹوٹے پھوٹے لوگوں کی فیکٹری“ کا دوسرا ایڈیشن ہی وہ تنبو ہے، جس کے بانس پر پر میرا سارا فن ”جو ہے جیسا ہے“ کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ میرا کینوس محدود ہو سکتا ہے، میری صلاحیت مشکوک ہو سکتی ہے، مگر کم از کم اس ایک کتاب کی حد تک میری کمٹمنٹ لامحدود ہے، اور یہ چیز مجھے بے پناہ سرمستی اور سرشاری عطا کرتی ہے، کہ میں جو کچھ بھی کر سکتا تھا، پوری ایمانداری سے کیا۔ چاہے ایک کتاب کی حد تک ہی سہی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments