چین خلا میں کرنا کیا چاہتا ہے؟


ویب ڈیسک — چین نے اپنے مستقل خلائی اسٹیشن پر کامیابی کے ساتھ تین خلا بازوں کو پہنچا دیا ہے۔ چین کے تیار کردہ خلائی اسٹیشن پر خلا نوردوں کو پہنچانے کے کام یاب مشن کو خلا میں چین کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کے اعتبار سے اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

چین کے اس مستقل خلائی اسٹیشن کی کیا اہمیت ہے اور اس کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یہاں اس پر کچھ تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔

خلائی مشن کے مقاصد کیا ہیں؟

چین کے مستقل خلائی اسٹیشن ’تیان ہی‘ پر پہنچنے والے تینوں خلاباز وہاں تین ماہ تک قیام کریں گے۔ اس دوران یہ خلا باز وہاں سائنسی تجربات کے ساتھ ساتھ خلا میں چہل قدمی اور اسٹیشن کی مرمت کا کام کریں گے۔

اس کے علاوہ وہ آئندہ برس خلائی اسٹیشن کے اضافی موڈیولز کے لیے تیاری بھی کریں گے۔

چین اگرچہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ خلائی اسٹیشن کے قیام کے لیے عالمی قوتوں میں جاری مسابقت کے اس کھیل میں دیر سے شریک ہوا ہے۔ البتہ ساتھ ہی اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی تیار کردہ خلائی اسٹیشن کو ٹیکنالوجی کے اعتبار سے برتری حاصل ہے۔

چین کے مطابق اس کا قائم کیا گیا اسٹیشن اس وقت خلا میں موجود دیگر ایسے اسٹیشنز کے مقابلے میں سب سے زیادہ دیر تک فعال رہے گا۔

جمعرات کو اس مشن کی روانگی کے ساتھ ہی چین نے اپنے خلائی پروگرام کو پانچ برس کے تعطل کے بعد ازسرِ نو فعال کر دیا ہے۔ اس مشن میں 2003 کے بعد سے چین اب تک 14 خلانوردوں کو خلا میں بھیج کر سابق سوویت یونین اورامریکہ کے بعد ایسا کرنے والا تیسرا ملک بن چکا ہے۔

چین کے خلائی اسٹیشن ’تیان ہے‘ کا ماڈل۔(فائل فوٹو)
چین کے خلائی اسٹیشن ’تیان ہے‘ کا ماڈل۔(فائل فوٹو)

گزشتہ پانچ سال کے دوران یہ چین کا پہلا انسان بردار خلائی مشن ہے۔ یہ ان گیارہ خلائی مہمات کا حصہ ہے جس کا مقصد چین کے مستقل خلائی اسٹیشن تک آلات اور ساز و سامان پہنچانا ہے تاکہ وہ پوری طرح کام کرنے کے قابل ہو جائے۔

چین اسٹیشن کیوں بنا رہا ہے؟

چین کی معیشت نے جب 1990 کی دہائی میں رفتار پکڑنا شروع کی تھی اس وقت سے چین نے خلائی مشن کے لیے تیاریوں کا بھی آغاز کر دیا تھا۔ اس منصوبے پر چین نے بہت محتاط ہو کر کام کیا۔

چین کو اس سے قبل بین الاقوامی اسپیس اسٹیشن میں شمولیت سے روک دیا گیا تھا۔ کیوں کہ امریکہ نے چین کے خلائی پروگرام کی خفیہ نوعیت اور اس کے عسکری مقاصد کی وجہ سے اعتراض کیا تھا۔

چین نے اپنا اسٹیشن بنانے پر کام جاری رکھا کیوں کہ وہ بھی خلا میں ایک بڑی قوت بننے کا خواہاں تھا۔

چین کا خلائی پروگرام کے مقاصد وسیع تر ہیں۔ اس کے ذریعے اسے روس اور یورپی ممالک کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے آفس فار آؤٹر اسپیس افئیرز سے بھی روابط بڑھانے کے مواقع ملیں گے۔

سیاسی اور دفاعی پہلو

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق چین کے اسپیس پروگرام سے اس کا قومی تفاخر بھی جڑا ہے۔ اس نے گزشتہ چار دہائیوں میں غربت سے نکل کر دنیا کی دوسری بڑی معیشت بننے کا سفر طے کیا ہے اور چین اپنے خلائی پروگرام کو اپنی اس کامیابی کی علامت کے طور پر پیش کرتا ہے۔

’اے پی‘ کے مطابق اس پروگرام میں پیش رفت سے چین کی کمیونسٹ پارٹی کی طاقت میں بھی مزید اضافہ ہو گا۔ اس پارٹی کی اختیارات پر مضبوط گرفت کی وجہ سے چین میں سیاسی سرگرمیوں پر مختلف پابندیاں ہیں جنہیں زیادہ تر چینی صرف معاشی ترقی کی وجہ سے برداشت کرتے ہیں۔

چین کے صدر اور کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ شی جن پنگ خود کو اس کام یابی سے جوڑتے ہیں اور مشن کی روانگی کے موقعے پر بھی یہ تذکرہ کیا گیا کہ یہ مشن چین کو خلا میں نمایاں کرنے کے ان کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔

خلائی اسٹیشن پر بھیجا گیا یہ انسان بردار مشن اس وقت روانہ کیا گیا ہے جب اگلے ماہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کا صد سالہ جشن منانے کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔

خلائی مشن کے ساتھ چین اپنی فوج کو بھی تیزی سے جدید ٹیکنالوجی سے لیس کر رہا ہے جس پر اس کے پڑوسی ممالک اور امریکہ کے ساتھ ساتھ نیٹو کی تشویش بھی بڑھ رہی ہے۔

اگرچہ چین کا اصرار ہے کہ اس کا خلائی پروگرام پُر امن ہے اور باہمی احترام کے اصول پر مبنی ہے۔ لیکن اس بارے میں بعض مبصرین 2007 کے واقعے کا حوالہ دیتے ہیں جب چین نے خلا میں ایک غیر فعال موسمیاتی سیٹلائٹ تباہ کرنے کے لیے بیلسٹک میزائل خلا میں روانہ کیا تھا۔

سیٹلائٹ کی تباہی کے بعد اس کی باقیات خلا میں موجود ہیں اور آج بھی انہیں خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

خلائی اسٹیشن پر روانہ کیے گئے خلا نورد (دائیں سے بائیں) نی ہائی شنگ، لو بومنگ، تینگ ہانگبو ۔
خلائی اسٹیشن پر روانہ کیے گئے خلا نورد (دائیں سے بائیں) نی ہائی شنگ، لو بومنگ، تینگ ہانگبو ۔

چینی خلا نورد کون ہیں؟

مشن میں شامل تین خلا نورد شینزو-12 خلائی جہاز کے ذریعے چین کے خلائی اسٹیشن پر ہیں۔ اس مشن کے کمانڈر 56 سالہ نی ہائی شنگ ہیں اور ان کے ساتھ 54 سالہ لو بومنگ اور 45 سالہ روکی تینگ ہانگبو بھی شامل ہیں۔

تینوں خلا نورد چین کی فضائیہ کے سابق پائلٹ ہیں اور مضبوط سائنسی پس منظر بھی رکھتے ہیں۔

خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق تمام چینی خلا نوردوں کو فوج سے بھرتی کیا گیا جس سے خلائی پروگرام اور فوج کے درمیان تعلق نمایاں ہوتا ہے۔

نی ہائی شنگ تیسری مرتبہ خلا کے سفر پر روانہ ہو رہے ہیں۔ مشن میں شریک دوسرے خلا نورد لو بومنگ 2008 کے مشن میں شامل تھے جس میں پہلی مرتبہ چینی خلا بازوں نے خلا میں قدم رکھا تھا۔

مشن میں شریک تیسرے خلا نورد تینگ ہانگبو 2010 میں منتخب ہوئے تھے اور پہلی مرتبہ خلا میں روانہ ہو رہے ہیں۔

چینی حکام نے آئندہ مشن میں خاتون خلانورد کو شامل کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ حالیہ مشن میں روانہ کیے گئے خلانوردوں کا اسٹیشن پر قیام چھ ماہ تک بڑھایا جاسکتا ہے اور خلائی اسٹیشن پر عملے کی تبدیلی کے لیے چھ خلانورد مزید بھیجے جائیں گے۔

اس سے قبل چین 2003 سے 2016 کے درمیان اپنے چھ انسان بردار مشنز کے ذریعے 11 خلا بازوں کو خلا میں بھیج چکا ہے۔

چین کی اسپیس ایجنسی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جی شمینگ نے خلائی مشن کی روانگی کے موقعے پر کہا تھا کہ چین جس انداز میں خلائی میدان میں باہمی تعاون بڑھا رہا ہے اس کے بعد کچھ ہی عرصے میں دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے خلا باز بھی اپنے چینی ساتھیوں کے ساتھ خلائی اسٹیشن کے سفر پر جاسکیں گے۔

چین کا مریخ کا سفر

عملے کے ساتھ اسپیس اسٹیشن کے قیام کے ساتھ چین نظام شمسی میں روبوٹک اسپیس شپ روانے کرنے پر بھی کام کر رہا ہے۔

چین نے گزشتہ ماہ مریخ پر ژورانگ نامی ایک مشن روانہ کیا تھا جس میں خلائی تحقیق کے لیے استعمال ہونے والی روور یا گاڑی مریخ پر اتاری گئی تھی۔

چین کی خلائی گاڑی مریخ پر تفصیلی سروے کر رہی ہے اور خاص طور پر مریخ کی منجمد جھیلوں کا جائزہ لے رہی ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے مریخ پر زندگی کے آثار کا سراغ مل سکتا ہے۔

اس سے قبل چین چاند پر بھی اپنا مشن روانہ کر چکا ہے۔ 1970 کی دہائی کے بعد چین پہلی بار چاند سے نمونے حاصل کرکےزمین پر لایا تھا۔ حکام کے مطابق چین چاند پر خلانورد اتارکروہاں تحقیق کے لیے بیس قائم کرنا چاہتا ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں ’اے پی‘ اور ‘رائٹرز’ سے لی گئی ہیں۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments