فنانشل ایکشن ٹاسک فورس: پاکستانی کارکردگی اچھی لیکن سفارت کاری ناکام



منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے عالمی نگران ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے 27 نکاتی ایکشن پلان پر عمل درآمد سے متعلق پاکستان کی پیشرفت کے بارے میں ابتدائی رپورٹ تیار کی ہے جو 21 جون سے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پیش کرے گی۔ یہ رپورٹ پیرس میں قائم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) انٹرنیشنل کوآپریشن ریویو گروپ (آئی سی آر جی) نے تیار کی ہے، اس ادارے کا بنیادی مقصد بین الاقوامی مالیاتی نظام کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنا ہے۔

پیرس میں قائم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ہیڈ کوارٹر میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے یا برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ کسی ملک کو ’زیر نگرانی‘ یعنی گرے لسٹ میں رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ ایف اے ٹی ایف کا ایک ذیلی ادارہ ’انٹرنیشل کوآپریشن رویو گروپ‘ یعنی آئی سی آر جی کرتا ہے۔ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے 27 نکاتی ایکشن پلان پر 26 نکات پر عمل کیا ہے۔ پاکستان کا نام جون 2018 سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل ہے۔

منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کے حوالے سے پاکستان نے نہ صرف قوانین بنائے ہے بلکہ اس پر عمل درآمد بھی کروایا ہے۔ کالعدم تنظیموں کے اثاثے منجمند کرنے کے ساتھ ان سے وابستہ افراد کی سرگرمیاں روکنے کے لیے بھی نمایاں اقدامات اٹھائے گئے۔ مطلوب افراد کی نہ صرف گرفتاریاں کی گئی بلکہ ان کو سزائیں بھی دی گئی۔ حکومت نے ایف اے ٹی ایف پر 12 رکنی قومی رابطہ کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی کے ممبران میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت سے متعلق تمام اداروں کے سربراہان اور ریگولیٹرز کے علاوہ وفاقی وزیر خزانہ اور وفاقی سیکرٹری خزانہ، امور خارجہ اور داخلہ شامل ہیں۔

ان میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر، سیکیوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین، فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ممبر (کسٹم) ، اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کے ڈی جی شامل ہیں۔ اسٹیک ہولڈرز کے مابین کوآرڈینیشن مقاصد کے لئے ایف اے ٹی ایف سکریٹریٹ بھی قائم کیا گیا۔ حکومتی سرکاری بیانات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے 27 نکاتی ایکشن پلان پر 26 پر عمل کیا ہے۔

حکومت کو امید ہے کہ 21 سے 25 جون تک شروع ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے مکمل اجلاس میں پاکستان کے لئے اچھی خبر کی امید کر رہے ہیں، عالمی سیاست ہمیشہ سے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں اثر انداز رہی ہے اور یہ اب بھی اثر انداز ہو گی۔ پاکستانی حکومتی عہدیدار سمجھتے ہیں کہ امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے موقع پر بین الاقوامی سیاسی ماحول پاکستان کے حق میں ہے۔ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کے دوران اور اس کے بعد پاکستان کی ضرورت ہے۔

پاکستان نے ایف اے ٹی ایف 27 نکاتی ایکشن پلان پر بڑی حد تک عمل تو کر لیا ہے لیکن پاکستان کو جو سفارت کاری کرنی چاہیے تھی وہ نہیں کر پایا۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے حوالے سے پاکستان موثر سفارت کاری میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان میں فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے سوال پر پارلیمنٹ میں بحث شروع کرنے کے ٹی ایل پی کے مطالبے پر حکومت کے اقدام نے مغربی دارالحکومتوں کے ساتھ پاکستان کے سفارتی فاصلے بڑھا دیے ہیں۔

فرانس ایف اے ٹی ایف کا ایک موثر رکن ہے اور اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یہ پاکستان کی پوزیشن کو کمزور بنا سکتا ہے۔ حال ہی میں، برطانیہ نے پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کے روک تھام کے حوالے سے خطرے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے، تحریک لبیک پاکستان، فرانس پاکستان تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے یورپین یونین کے ساتھ تعلقات میں خرابی ایف اے ٹی ایف کی طرف سے فیصلوں پر نظر انداز ہو سکتی ہے۔

پاکستان فرانس تعلقات اس وقت کم ترین سطح پر ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فرانس پاکستان تعلقات میں خرابی کی وجہ فرانس میں شائع ہونے والے کارٹون ہیں لیکن حقیقت میں فرانس پاکستان تعلقات کی خرابی دیگر کئی وجوہات ہیں جس میں سب سے بڑی وجہ انڈیا فرانس کے قریبی تعلقات اور فرانس کا ہر فورم پر انڈیا کی سپورٹ کرنا ہے۔ اور اسی وجہ سے ایک سال سے زائد عرصے سے فرانس میں پاکستان کے سفیر کو تعینات نہیں کیا گیا ہے۔ فرانس میں پاکستان میں قائم مقام سفیر سے ہی کام چلایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے فرانس میں پاکستانی موقف کو بہتر طور پر پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔

ایف اے ٹی ایف کی جانب سے پاکستان کا نام بار بار گرے لسٹ میں شامل کرنے سے معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے جو کہ سرمایہ کاری، برآمدات، کاروبار اور حکومتی اخراجات میں کمی کی مد میں ہوا۔ رپورٹ کے مطابق ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں کے باعث 12 سال کے دوران پاکستان کی معیشت کو 40 ارب ڈالر سے زیادہ کا ممکنہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ پاکستان دنیا کے مالیاتی نظام کا اہم حصہ ہے۔

یہ 90 سے 100 ارب ڈالر کی درآمدات اور برآمدات کا حامل ملک ہے پاکستان کے بنکنگ کے شعبے اور بین الاقوامی لین دین میں باقی دنیا کے ساتھ پاکستان کے مالی اور تجارتی روابط ہیں۔ پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے سے ملکی معیشت میں بہتری آئے گی۔ موجودہ حالات میں ہم اپنے ذرائع کے حوالے سے یہ بات کر رہے ہیں کہ یورپین ممالک خاص کر میزبان ملک فرانس کی طرف سے پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنے کی سفارش کی جائے گئی اور یہ موقف اختیار کیا جائے گا کہ پاکستان کی طرف سے تمام پوائنٹس پر مکمل عمل درآمد نہیں ہو پایا ہے۔ جس پر یورپ کے دیگر ممالک بھی فرانس کی تائید کریں گے۔

ذرائع کے مطابق ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو اکتوبر 2021 تک اپنی گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کرے گا۔ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کی طرف سے کیے گئے اقدامات کو سراہا جائے گا اور کہا جائے گا کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے حوالے سے پیش رفت ہوئی ہے جس کا ہم خیر مقدم کرتے ہیں کچھ افراد اور تنظیموں پر پابندی لگی ہے اور مطلوب افراد کو گرفتار کر کے سزائیں بھی دی گئی ہے جو کہ پاکستان کی طرف سے بہترین اقدامات ہے۔

تاہم پاکستان کو تمام پوائنٹس پر مکمل عمل درآمد یقینی بنانا ہو گا۔ اور ہم حکومت پاکستان کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کا ایک وفد بہت جلد پاکستان کا دورہ کرے گا جہاں وہ حکومتی اقدامات کا جائزہ لینے بعد رپورٹ دے گی اور اس کے بعد آئندہ اجلاس میں جو چار مہینے بعد اکتوبر میں ہو گا اس اجلاس میں پاکستان کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments