پناہ گزینوں کا عالمی دن: پاکستان کے کردار پر مجرمانہ عالمی بے حسی


جنگ و جدل اور انتشار نا صرف بڑے پیمانے پہ تباہی کا باعث بنتے ہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کو روزگار اور گھر سے محروم بھی کر جاتے ہیں۔ اپنی سرزمین جب دو گھڑی سکون کے لیے تنگ ہو جائے تو پھر چارو ناچار دوسرے ممالک کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو اپنی زمین اور بندوں میں تقسیم نہیں کرتا مگر حضرت انسان نے ملکوں، سرحدوں اور وسائل کی تقسیم کر رکھی ہے۔ ان لٹے پٹے مہاجرین کو کوئی قبول کرتا ہے تو کوئی دھتکار دیتا ہے۔ آئے روز مہاجرین کی ہجرت کے دوران کشتیاں ڈوبنے اور دیگر افسوس ناک خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔

دوسرے ممالک میں پناہ لے کر بھی زندگی جیتی جاگتی لاش کی مانند ہوجاتی ہیں۔ ایک خیمے تک محدود زندگی۔ اپنے وطن، پیاروں اور گھر جیسی نعمت کو یاد کرتی زندگی۔ بھوک مٹانے کے لیے راشن والی گاڑی کا انتظار کرتی زندگی۔ عزت نفس اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم زندگی۔ زندگی کی بھیک مانگتی زندگی۔ نجانے کس جرم کی سزا پائی ہے یاد نہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 27 کروڑ مہاجرین مختلف ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا شمار مہاجرین کو پناہ دینے والے سر فہرست ممالک میں ہوتا ہے۔ اسی کی دہائی میں سوویت یونین کی افغانستان پر جنگ مسلط کرنے کی وجہ سے پاکستان نے انصار مدینہ کا کردار ادا کرتے ہوئے افغان بھائیوں کے لیے بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے دل اور بارڈر کھول دیے۔ چار دہائیوں سے پاکستان اب تک 30 لاکھ افغان باشندوں کو پناہ دے چکا ہے۔

مہاجرین کو ناصرف پناہ دے گئی بلکہ انہیں سماجی اور معاشی نظام کا حصہ بھی بنایا گیا۔ ان کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے گئے۔ اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ حالیہ کورونا وبا کی ویکسین لگانے کے پلان میں افغان مہاجرین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ 2012 کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں جب افغانستان نے پہلی بار شرکت کی تو یہ خبریں چلیں کہ افغانستان کی ٹیم کے تمام کھلاڑی پاکستان میں پیدا ہوئے اور ڈومیسٹک کیرئیر بھی یہیں سے شروع کیا۔

پاکستان ہمیشہ سے امن کا داعی رہا ہے اور اس کے لیے کردار بھی ادا کرتا رہا ہے۔ دہشت گردی کا مضبوط توڑنا، کالعدم تنظیموں کا قلعہ قمع کرنا، عالمی امن کے لیے یو این مشنز پہ فوج روانہ کرنا اور تیس لاکھ افغان مہاجرین کی کفالت کرنا پاکستان کا اہم کردار ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بین الاقوامی برادری نے آج تک پاکستان کے اس کردار کو صحیح طریقے سے نہیں سراہا بلکہ دہشت گردی کے خلاف نوے ہزار قیمتی جانوں اور پانچ ہزار فوجی افسران و سپاہیوں کی شہادت کے باوجود دہشت گردی کی پیداوار کرنے والا ملک گردانا جاتا ہے۔ اور تاحال فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل ہے۔

مہاجرین کی کفالت کا صلہ یہ ہے کہ وطن عزیز کے خلاف دہشت گردی میں افغان سرزمین اور مہاجرین استعمال ہوتے رہے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے مطلوب کمانڈرز افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ تمام تر قربانیوں کے باوجود افغانستان کے اداروں اور حکومتوں کا جھکاؤ بھارت کی طرف نظر آتا ہے۔ بھارت کی مدد سے افغانستان میں ترقیاتی کام کروا کے یہ تاثر دیا کہ بھارت پاکستان سے زیادہ افغان باشندوں کا ہمدرد ہے۔

دوسری طرف عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے ادارے مہاجرین کی فلاح و بہبود کے سلسلے میں تو کام کرتے نظر آتے ہیں مگر ان محرکات پہ کوئی توجہ نہیں ہے جو مہاجرین پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ عالمی طاقتوں نے اپنے مفادات کے لیے مختلف ممالک کو تختہ مشق بنایا ہوا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خانہ جنگی اور انتشار طاقتور ممالک کے اقتدار کے لیے ضروری ہے اور انہیں ان لٹتے، بے گھر ہوتے اور در در کی ٹھوکریں کھاتے پناہ گزین سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

آپ اپنے مفاد کی خاطر
بیج نفرت کے بو لیے صاحب


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments