صحت اور سرمایہ دارانہ نظام: کورونا ویکسین کا معاملہ


19 مئی 2020 ء کو عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او ) ، کے 194 رکن ممالک نے ایک قرار داد منظور کی جس میں مستقبل میں کورونا وائرس کی ویکسین کو عالمی سطح پر ”عوامی سامان“ بنانے کا اعلان کیا گیا۔ متعدد سربراہان مملکت نے بھی اسی طرح کی خواہش کا اظہار کیا۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ عوامی اور نجی لیبارٹریوں کے درمیان سند حق یا پیٹنٹ (Patent) پہلے حاصل کرنے کی دوڑ لگی رہی، تا کہ اس وبا میں بھی انسانی صحت کے مسائل سے فائدہ اٹھا کر دولت (سرمایہ) کمائی جا سکے۔

ایک وبا کے خلاف جنگ میں، علاج اور ویکسین تک رسائی سے ہی تمام فرق پڑتا ہے۔ پولیو اور ایڈز کی متضاد مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ 1955 ء میں پولیو ویکسین سے متعلق جب متعلقہ ماہر حیاتیات سے پوچھا گیا کہ یہ ویکسین کس کو دستیاب ہو گی؟ تو اس نے جواب دیا، ”لوگوں کو، کوئی پیٹنٹ نہیں ہو گا۔ کیا ہم سورج کو پیٹنٹ کر سکتے ہیں؟“ اور یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے بیشتر حصوں سے پولیو کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ ایڈز کے علاج کی مثال بھی زیادہ پرانی نہیں، جس پر 1996 ء میں امریکی لیبارٹریوں کے ایک چھوٹے سے گروہ نے اپنی اجارہ داری قائم کر لی تھی جس کی وجہ سے ترقی پذیر ملکوں کو ایڈز کی دوا حاصل کرنے میں دس سال لگے۔ اور یہ کام بھی نیلسن منڈیلا کی قیادت میں ایک لمبی جدوجہد کی بعد ہی ممکن ہوا جنہیں اسی ”جرم“ کی پاداش میں دوا ساز صنعت کی طرف سے مقدمے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

اسی طرح آج سرمایہ دار ویکسین پر اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں، جس کا اظہار امریکی نمائندے نے عالمی ادارہ صحت کے اسی اجلاس میں کچھ یوں کیا: ”ویکسین مفت نہیں مل سکتی۔ یہ عمل متعلقہ ماہرین کو غلط پیغام بھیجتا ہے“ ۔ یہی وجہ ہے کہ ویکسین کی رسائی کی ضمانت کے لیے آج پھر عالمی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ویکسین کو منافع خوری کے سامان سے بچا کر اسے ایک عوامی سامان بنایا جا سکے۔

اس بارے میں پہلی کوشش 23 جون 2020 ء کو سامنے آئی جب یورپی یونائیٹڈ لیفٹ (GUE/NGL) ، فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی اور بائیں بازو کی دیگر درجن بھر جماعتوں نے یورپی پارلیمنٹ میں ویکسین تک عالمی رسائی کی مہم کا آغاز کیا۔ قرارداد میں براہ راست پیٹنٹ کو اس مقصد کی تکمیل میں بنیادی رکاوٹ قرار دیا گیا۔ کسی بھی مرض کو مکمل مات دینے کے لیے عالمی سطح پر علاج اور ویکسین تک رسائی ناگزیر ہے۔ یہ نا صرف انصاف کا معاملہ ہے بلکہ عوامی صحت کا بنیادی حق بھی ہے۔

بائیں بازو کے اتحاد نے دباؤ بڑھایا کہ یورپی یونین اس بات کو یقینی بنائے کہ عوامی تحقیقاتی فنڈز سے تیار کی جانے والی حالیہ اور مستقبل کی تمام ادویات اور ویکسین سے متعلق معلومات مشترکہ عوامی ملکیت قرار دی جائے۔ یہی اتحاد کمپنیوں سے کیے گئے معاہدوں اور کلینیکل ٹرائلز کا ڈیٹا عوام کے سامنے لانے کا مطالبہ دہراتا آ رہا ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے تین میں سے صرف ایک معاہدہ عوام کے سامنے لایا گیا اور اس میں سے بھی تمام بنیادی معلومات حذف کر دی گئیں، جس سے یورپی یونین کا طبقاتی تضاد مزید واضح ہوجاتا ہے۔

یکم اپریل 2021 ء تک کے عالمی اعداد و شمار کے مطابق، نئے کورونا وائرس (SAR۔ CoV۔ 2 ) کی وجہ سے تقریباً 3 ملین افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور 128 ملین سے زیادہ افراد اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں، اور جو افراد صحتیاب بھی ہوئے ان میں سے بھی بہت سے افراد صحت کی دیرپا خرابیوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ عوام تک ویکسین کی رسائی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کی آبادی ( 7.7 بلین) کا صرف 1.5 فیصد حصہ اب تک اس سے مستفید ہوا ہے اور اس میں سے بھی 80 فیصد کا تعلق دنیا کے صرف دس امیر، ترقی یافتہ، سرمایہ دار ملکوں سے ہے۔

یہ زیادہ پرانی بات نہیں جب چینی ماہرین نے اس نئے کورونا وائرس کے جینیاتی تسلسل (Genome Sequencing) کو مکمل کیا اور چینی حکام نے اس معلومات کو ایک عوامی ویب سائٹ پر نشر کیا، جس کے بعد سرکاری اور نجی اداروں کے سائنس دان وائرس کو بہتر طور پر سمجھنے، انسانی جسم پر اس کے اثرات کا مطالعہ کرنے اور ویکسین کی تیاری کے لیے اس معلومات کا استعمال کرنے لگے۔ اس مرحلے پر، وائرس کی جینیاتی معلومات پر حق کا کوئی بھی پیٹنٹ جاری نہیں کیا گیا تھا۔

مہینوں کے اندر، 9 نجی اور سرکاری دوا ساز کمپنیوں نے اعلان کیا کہ ان کے پاس ویکسین کے نمونے تیار ہیں : فائزر و بائیو ٹیک، موڈرنا، آسٹرا زینیکا، نووایکس، جانسن اور جانسن، سانوفی اور جی ایس کے، سونووک، سونوفرم، گامالیہ۔ چین اور روس کی عوامی کمپنیاں سینوویک، سونوفرم اور گامالیہ نے ویکسین تیار کی اور مارچ کے وسط تک، چین اور روس نے 41 ممالک کو ویکسین کی 800 ملین خوراکیں فراہم کیں۔ دیگر ملکوں میں صرف ان نجی کمپنیوں نے ویکسین تیار کی جن کو عوامی فنڈز کی بھرمار ملی ہے۔

مثال کے طور پر، موڈرنا کمپنی کو امریکی حکومت نے 2.48 بلین ڈالر، جبکہ فائزر کو یورپی یونین اور جرمنی کی حکومت نے ویکسین تیار کرنے کے لیے 548 ملین ڈالر دیے۔ ان کمپنیوں نے عوامی پیسوں سے ویکسین بنائی اور پھر انہیں فروخت کر کے بے حد منافع کمایا اور اب پیٹنٹ کے ذریعے مزید منافع کمائیں گی۔ یہ سرمایہ داروں کی جانب سے انسانی صحت کے مسائل سے دولت کمانے کی صرف ایک مثال ہے۔ یہ مثال بھی، دوسری کئی مثالوں کی طرح، جیسے کہ انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مثال، یہ دکھاتی ہے کہ سرمایہ دار عوامی فنڈ سے تحقیق کر کے پروڈکٹ بناتے ہیں اور پھر اسے عوام کو مہنگے داموں فروخت کر کے خوب منافع کماتے ہیں جبکہ سرمایہ دار ملکوں کی حکومتیں سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت دینے کے لیے سرمایہ دار کمپنیوں کو عوامی مفاد کے خلاف خوب مدد فراہم کرتی ہیں۔

دنیا کے مختلف حصوں میں فروخت کی جانے والی ویکسین کی تعداد کے بارے میں معلومات تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔ لیکن یہ بات اب عالمی سطح پر تسلیم کی جا چکی ہے کہ بہت سے غریب ملک 2023 ء سے پہلے اپنے شہریوں کے لئے ویکسین حاصل نہیں کر سکیں گے، اور پاکستان جتنی آبادی والے ملک میں تمام لوگوں کو ویکسین لگانے میں دس سال لگ سکتے ہیں۔ اس کے بالکل برعکس، امیر سرمایہ دار ممالک (Global North) اپنی فوری ضرورت سے بہت زیادہ تعداد میں ویکسین حاصل کر چکے ہیں، اتنی کہ وہ اپنی آبادیوں کو تین مرتبہ ویکسین لگا سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر، کینیڈا کے پاس اتنی تعداد میں ویکسین موجود ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو پانچ بار ویکسین لگا سکتا ہے۔ ان امیر، سرمایہ دار ملکوں کی آبادی دنیا کی آبادی کا صرف 14 فیصد ہے لیکن یہ کل متوقع ویکسین کی آدھی سے زیادہ تعداد حاصل کر چکے ہیں۔ یہ عمل ویکسین کی ذخیرہ اندوزی ہے، جو سرمایہ داروں کا پسندیدہ کاروباری ہتھکنڈہ ہے چاہے ذخیرہ کی گئی چیز کا تعلق انسانی صحت اور زندگی اور موت کے معاملے سے ہی جڑا ہوا کیوں نہ ہو۔

ہندوستان اور جنوبی افریقہ کی حکومتوں نے عالمی تجارتی تنظیم (WTO) سے اکتوبر 2020 ء میں درخواست کی تھی کہ انہیں Intellectual Property Rights کی تجارت سے متعلق معاہدے کے تحت پیٹنٹ سے متعلق ذمہ داریوں سے عارضی طور پر چھوٹ دی جائے۔ اگر ڈبلیو ٹی او نے اس چھوٹ پر اتفاق کیا ہوتا تو یہ ممالک بڑے پیمانے پر بہت سستی ویکسین تیار کر سکتے تھے۔ تاہم امیر سرمایہ دار ممالک نے، وبا کے باوجود، اس تجویز کی مخالفت کی اور یہ استدلال کیا کہ اس طرح کی چھوٹ تحقیق اور جدت کو روک دے گی، اس حقیقت کے باوجود کہ ویکسین بڑے پیمانے پر عوامی رقم سے تیار کی گئی تھی۔

اپریل 2020 ء میں، عالمی ادارہ صحت نے دوسرے شراکت داروں کے ساتھ مل کر، کورونا ویکسین کی عالمی رسائی کا پروگرام ”کوواکس (COVAX)“ شروع کیا تا کہ ویکسین تک مناسب رسائی کو یقینی بنایا جائے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ دنیا کے بیشتر ممالک نے اتحاد کے اس معاہدے پر دستخط کیے لیکن غریب، پسماندہ ملکوں میں (Global South) درکار تعداد میں ویکسین تقسیم نہیں کی جا رہی۔

اس وقتی چھوٹ کے لئے ہندوستان اور جنوبی افریقہ کی درخواست کی حمایت کرنے کے بجائے، کوواکس نے پیٹنٹ پولنگ کی تجویز کی حمایت کی جس کو کووڈ ٹیکنالوجی ایکسس پول (C۔ TAP) کہا جاتا ہے۔ اس عمل میں دو یا زیادہ پیٹنٹ ہولڈر ایک دوسرے کو یا کسی تیسرے فریق کو اپنے پیٹنٹ کا لائسنس دینے پر راضی ہوں گے۔ لیکن کوواکس کو دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے آج تک کوئی شراکت موصول نہیں ہوئی ہے۔

مئی 2020 ء میں، عالمی ادارہ صحت نے ایک بین الاقوامی ویکسین یکجہتی ٹرائل قائم کرنے کی تجویز پیش کی جس میں عالمی ادارہ صحت کی ہی زیر نگرانی متعدد ممالک میں ویکسین ٹرائل منعقد ہونا تھے۔ اس سے نئی ویکسین کے نمونے تیزی اور شفاف طریقے سے کلینیکل ٹرائلز میں داخل ہوسکتے تھے۔ یوں ویکسین کا تجربہ متعدد آبادیوں پر کیا جا سکتا تھا اور شفاف نتائج کی بنیاد پر تمام تر کمی بیشی کے ساتھ موازنہ ممکن ہوتا۔ لیکن دوا ساز کمپنیوں اور امیر سرمایہ دار ممالک نے مل کر اس تجویز کا بھی گلا گھونٹ دیا۔

عالمی وبا میں جہاں ہر سرمایہ دار ملک طبی سامان، ادویات اور ویکسین کی کھینچا تانی میں لگے رہے وہیں ایک ملک ایسا بھی تھا جو انسانوں کی مدد کے لیے آگے بڑھا۔ سوشلسٹ کیوبا نے ہنری ریو انٹرنیشنل کانٹیجینٹ کے طبی ماہرین کی 57 بریگیڈوں کو 40 ممالک میں بھیجا جہاں انہوں نے کورونا وائرس کے 1.26 ملین مریضوں کا علاج کیا۔ یہ صحت کے شعبے میں کام کرنے والے ان 28000 پیشہ ور افراد کے علاوہ تھے جو پہلے سے ہی دنیا کے 66 ملکوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

مارچ 2021 ء میں، کیوبا کی تیار کردہ دو ویکسین کلینیکل ٹرائلز کے تیسرے مرحلے میں پہنچیں۔ مزید تین ویکسینوں کے نمونے ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔ یہ کارنامے اس لیے زیادہ غیر معمولی ہیں کہ سن 2017 ء سے امریکی حکومت نے کیوبا کی 60 سالہ ناکہ بندی کو مزید سخت کرنے کے مقصد سے، سوشلسٹ ہونے کی پاداش میں، کیوبا پر 240 نئی پابندیاں عائد کیں، جن میں سے 50 پابندیاں کورونا وبا کے دوران ہی مسلط کی گئی ہیں۔ ان ظالمانہ پابندیوں سے کیوبا کو صرف صحت کے شعبے میں 200 ملین ڈالر مالیت نقصان ہو چکا ہے۔

کیوبا میں متعدی بیماریوں سے اموات کی شرح 1 فیصد سے بھی کم ہے اور کورونا وبا کے دوران بھی اس میں اضافہ نہیں ہوا۔ وہاں آج 13 بیماریوں کے خلاف 11 ویکسین لگائی جاتی ہیں، جن میں سے 8 کیوبا میں ہی تیار کی جاتی ہیں۔ ویکسینیشن کے اس عوامی اور مربوط نظام کی بدولت 6 بیماریوں کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ طب کے شعبے میں ان جدید کامیابیوں کی وجہ کیوبا کا بائیوٹیک کا انوکھا شعبہ ہے۔ یہ مکمل طور پر عوامی ملکیت ہے اور نجی مفادات سے پاک ہے۔

عوامی صحت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جدت طرازی کے ساتھ درجنوں تحقیقی ادارے باہمی مقابلے کے بجائے وسائل اور علم کا اشتراک کرتے ہیں، جو تحقیق اور اختراع سے لے کر تجربات اور اطلاق تک تمام مراحل کی رفتار تیز کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیوبا مقامی طور پر استعمال کی جانے والی ادویات کا 70 فیصد خود تیار کرتا ہے۔

دنیا بھر میں 25 مارچ 2021 ء تک، صرف 23 ویکسین کلینیکل ٹرائلز کے تیسرے مرحلے تک پہنچی ہیں، جس میں سے دو کیوبا کی ہیں : سوبیرانا 2 اور ابدالہ۔ لاطینی امریکہ کے کسی بھی دوسرے ملک نے اپنی کوئی ویکسین تیار نہیں کی۔ اس کے علاوہ حال ہی میں کیوبا کے بائیو میڈیکل تحقیقی ادارے سی آئی جی بی (CIGB) نے چینی ادارے کی شراکت سے ’پین کورونا‘ نامی ایک نئی ویکسین پر بھی کام شروع کر دیا ہے، جو کورونا وائرس کی حالیہ اور مستقبل کی مختلف اشکال کے خلاف موثر ثابت ہونے کے لئے تیار کی جائے گی۔

کیوبا کی کامیابی کی کلید صرف ریاستی مداخلت ہی نہیں بلکہ اس مداخلت کی نوعیت ہے، یعنی کیوبا کا سوشلسٹ نظام جس کی تشکیل کا مقصد نجی منافع نہیں بلکہ سماجی بہبود ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا سبق ہو جو دوسرے ممالک اس وقت سننے کے لئے تیار نہ ہوں، لیکن وبائی امراض کے دوران کیوبا کی بین الاقوامی مدد اس بات کا بہترین نمونہ ہے کہ باہمی تعاون اور یکجہتی کے ذریعے تمام عالمی مسائل سے بہت بہتر انداز سے نمٹا جا سکتا ہے۔

مختصر یہ کہ نا تو یہ وائرس آخری ہے، نا ہی یہ وائرس کی شکل آخری ہے اور نا ہی یہ ویکسین ہمیشہ کارآمد رہے گی۔ لہذا وبا کے غیر معمولی حالات میں انسانی صحت اور جان کے تحفظ کے لیے منافع خوری کے بجائے باہمی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ ہر ملک یا تو ویکسین خود بنانے کے قابل ہو یا اپنی ضرورت کے مطابق ویکسین حاصل کر سکے۔ صحت کی ٹیکنالوجی پر نجی سرمایہ دار کمپنیوں کی اجارہ داری اور عوامی فنڈ تک ان کی رسائی کے موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صحت کے نظام کو مکمل طور پر ریاستی دائرہ کار میں لایا جائے ورنہ ملکی وسائل نجی سرمایہ دار کمپنیوں کو اسی قابل بنائے رکھے گیں گے وہ عوام کے پیسے کو استعمال کر کے عوام کا مزید استحصال جاری رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments