سوری، ویکسین دستیاب نہیں ہے


پاکستان میں ماس ویکسینیشن مہم کے تحت شہریوں کو ویکسین لگنے کا عمل کامیابی سے جاری تھا کہ گزشتہ ایک ہفتے سے اچانک ہی لاہور، کراچی سمیت پنجاب کے دیگر شہروں سے ویکسی نیشن کی قلت، نادرا کا سسٹم بیٹھنے اور ٹکٹنگ سسٹم کے کریش ہونے کی خبریں آئیں۔

بلاشبہ پاکستان حکومت کی جانب سے دیرآئد درست آئد کے مصداق ویکسی نیشن شروع کی اور اس احسن انداز سے شروع کی کہ شہری خود بخود ویکسی نیشن کی طرف مائل ہونا شروع ہو گئے۔ ملک بھر میں ویکسی نیشن سینٹر قائم کیے گئے جہاں حیرت انگیز طور پر مہذب عملے اور 15 منٹ کے اندر اندر ویکسی نیشن کا عمل مکمل کیا جانے لگا۔ این سی او سی کی جانب سے مروجہ نظام کے تحت عمر کے حساب سے مرحلہ وار ویکسی نیشن نے بھی ویکسی نیشن سینٹرز پر رش نہ پڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو حکومت کی جانب سے اب تک چینی ویکسین سائنو فارم کی 7.5 ملین خوراکیں جبکہ سائنو فارم کی 5.5 ملین خوراکیں، اسی طرح ون ڈوز کین سائنو کی دس لاکھ جبکہ آکسفورڈ کی آسٹرا زینیکا کی 12 لاکھ خوراکیں منگوائی گئیں، جبکہ کوویک پروگرام کے تحت فائزر کی بھی ایک لاکھ خوراکیں پاکستان پہنچی ہوئی ہیں۔ جس کے لئے کم قوت مدافعت والے افراد کی رجسٹریشن کی جا رہی ہے جنہیں یہ خوراک لگائی جائے گی۔ ویکسی نیشن سینٹرز پر بہترین انتظامات اور بھرپور تشہیری مہم کی وجہ سے ایک دن میں چار لاکھ شہریوں کی ویکسی نیشن کا ریکارڈ بھی قائم کیا گیا۔ اب تک ایک کروڑ 30 لاکھ 50 ہزار 760 خوراکیں شہریوں کو لگ چکی ہیں۔ حکومت کی جانب سے امسال 7 کروڑ شہریوں کی ویکسی نیشن کا ہدف مقرر کیا گیا ہے،

اسی سلسلے میں حکومت کی جانب سے 2 کروڑ 75 لاکھ سے زائد خوراکوں کی خریداری کی مزید معاہدے طے پا گئے ہیں۔ این سی او سی کے مطابق بیرون ملک سے آئی ویکسین کی 22 لاکھ 49 ہزار 240 خوراکیں سٹاک میں موجود ہیں۔ مگر اس کے باوجود لاہور سمیت پنجاب بھر میں اور کراچی کے ویکسی نیشن سینٹرز پر ویکسی نیشن وقتاً فوقتاء تعطل کا شکار رہی ہے اور اس وقت یہ حالات ہیں کہ پنجاب میں ویکسین کی ایک دن کی خوراک رہ جانے کے بعد ویکسی نیشن روک دی گئی ہے۔ اس سے پہلے لاہور کے ایکسپو ویکسینیشن مرکز میں رات کی شفٹ ختم کر دی گئی تھی، لاہور میں کورونا ویکسینیشن کے 56 سینٹرز بنائے گئے تھے، جن میں گزشتہ ایک ہفتے سے پہلے ڈوز کی ویکسی نیشن صرف 3 سینٹرز پر کی جا رہی تھی۔

حالات اس نہج پر پہنچے ہیں کہ محکمہ صحت کے مطابق ویکسین کی قلت کے بعد دو دن کے لئے ویکسی نیشن معطل کردی گئی ہے۔ جو کہ دو لاکھ خوار کیں پہنچنے پر 21 جون سے پھر شروع کر دیا جائے گا۔ تو آخر ایس کون سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے کامیابی سے جاری ویکسی نیشن مہم میں خلل پڑنا شروع ہوا اور معاملات عملی طور پر تین دن کے لئے ویکسی نیشن سینٹر کی بندش پر منتج ہوئے۔

پنجاب کے محکمہ پرائمری اینڈ سکینڈری اینڈ سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر کے سینئر افسر نے تعطل کی وجہ پس منظر بیان کرتے ہوئے بتائی کہ دو ماہ قبل پنجاب حکومت کی جانب سے وفاق پر دار و مدار کم کرنے اور صوبے کی 70 فیصد سے زائد آبادی کی ویکسی نیشن کا ہدف رکھا گیا جس کے تحت خود سے ویکسین خریدنے کا پلان بنایا گیا۔ دو ماہ ہوچکے یہ بیل منڈھے نہیں چڑھی ہے، سینئر افسر کے مطابق محکمہ صحت کی جانب سے ابتدائی طور پر 10 لاکھ ڈوز خریدنے کے لئے ڈیڑھ ارب روپے کے فنڈز مختص کیے گئے۔

دو کمپنیوں نے ویکسی نیشن کی خریداری کے لئے بڈ کیا، مگر معاملہ تب بگڑا جب کم بولی دینے والی کمپنی نے معاملات طے پانے کے بعد ہاتھ کھڑے کر دیے جس کی وجہ پنجاب حکومت کی جانب سے کمپنی کو جون میں ہی ویکسین کی فراہمی پر زور تھا مگر کمپنی کی جانب سے ڈیلیوری ٹائم فریم نہ دینے کی وجہ سے معاملات طے نہ ہو سکے۔ جس کے بعد آخری آپشن یعنی کہ مہنگی بڈ دینے والی کمپنی کا منت ترلا کیا گیا۔ مذکورہ کمپنی نے فی کس مریض 6 ہزار روپے میں ویکسین کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی مگر پیپرا قوانین میں ترمیم کیے بغیر ایسا ممکن نہیں ہے اور یوں نہ پیپرا ترمیم مکمل کی گئی ہے اور نہ ہی ویکسی نیشن خریدی گئی۔

یہ تو تھا پس منظر مگر این سی او سی تو کہتی کہ ویکسین کی وافر مقدار موجود ہے اور پنجاب کو فراہمی بھی جاری ہے تو پھر قلت کی وجہ یہ تو نہ ہوئی، اس پر متعلقہ سینئر افسر نے بتایا کہ مسئلہ دراصل ایک ہی وقت میں مختلف ویکسینز کی ویکسی نیشن ہے جس سے نپٹنے کے لئے ہی پنجاب حکومت نے اپنی ویکسین لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کے مطابق ہر عمر کے افراد کو مختلف کمپنیوں کی ویکسی نیشن کی گئی ہے، چالیس سے پچاس سال کے افراد کو آسٹرا زینیکا اور تیس سے چالیس والوں کو سائنو فارم لگائی گئی۔

جب سات کروڑ کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے دھرا دھڑا ویکسی نیشن سینٹر قائم کیے گئے اور 18 سال سے ویکسی نیشن کا آغاز کیا گیا تو ڈیمانڈ اینڈ سپلائی میں فرق آ گیا اب چونکہ ملک کی پچاس فیصد سے زیادہ آبادی 18 سے 31 سال کے افراد پر مشتمل ہے اور پہلی ڈوز کے 21 دن کے بعد دوسری ڈوز بھی لازمی ہے تو لامحالہ آپ کے پاس موجود ایک مخصوص کمپنی کا سٹاک دوسری ڈوز کے لئے ختم ہو گیا، جس کا حل یہ نکالا گیا کہ پہلی ڈوز کو روکا گیا اور دوسری ڈوز کو مکمل کرنے کی کوشش کی گئی۔

جہاں سے گڑ بڑ شروع ہو گئی، اب سٹاک موجود ہو بھی تو جب تک متعلقہ ویکسین دستیاب نہیں ہوگی دوسری ڈوز کا عمل تاخیر کا شکار ہوگا۔ سادہ الفاظ میں سمجھئے تو یوں ہوا کہ حکومت مختلف کمپنیوں کی ویکسین خریداری کے مکینزم اور ویکسی نیشن کے مکینزم میں آبادی کے تناسب سے ربط نہیں برقرار رکھ پائی۔ اب چاہیے سائنو ویک تو موجود سائنو فارم ہوتی ہے، اور چاہیے کین سائنو تو موجود آسٹرا زینیکا ہے۔

یوں جس مکینزم کی تعریفوں کے قلابے اسد عمر صاحب نے پڑوسی ملک میں ویکسی نیشن دستیاب نہ ہونے کے پوسٹر لگا کر ملائے وہی مکینزم ہی ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے سوال پر محکمہ صحت کے افسر کے مطابق ملک کی سب سے زیادہ 18 سے تیس سال والی آبادی کے لئے ویکسی نیشن متعلقہ ویکسین کی وافر دستیابی کی صورت میں ہی واک ان یا واک تھرو کی سہولت رکھی جائے۔ کیونکہ ویکسین کی خریداری سے لے کر ترسیل تک موجود وقت اور دھڑا دھڑ ہوتی رجسٹریشن اور ویکسی نیشن کے وقت میں فرق بہت زیادہ ہے جو آنے والے دنوں میں پھر سے ویکسی نیشن کے تعطل کا باعث بن سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments