اور شہباز شریف گھٹنے پکڑنے میں کامیاب


شہباز شریف کے جیل سے رہا ہوتے ہی جہاں تیز بھاگتی پی ڈی ایم کو بریکیں لگیں وہاں مریم نواز نے بھی اچانک ہی خاموشی کا روزہ رکھا لیا۔ اسٹیبلشمنٹ کے قریبی سمجھے جانے اور ن لیگ میں مفاہمت کے داعی کو شہباز شریف نے جیل سے آتے ہی کھل کر کہنا شروع کر دیا کہ ملک کی بہتری کے لئے کسی کے گھٹنے تک پکڑنے پڑے تو وہ پکڑیں گے، یہاں پر یہ واضح کرتا چلوں کہ شاعر کی ”کسی“ سے مراد کوئی اور نہیں انہی کے بڑے بھائی نواز شریف سے ہے۔

وہ نواز شریف جنہوں نے سپریم کورٹ سے نا اہلی کے بعد ووٹ کو عزت دو کے نام پر تحریک شروع کی جو انہی کی پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ، انتخابات میں ہار سے لے کر ان کے جیل جانے پر منتج ہوئی۔ وہی نواز شریف جو چودھری نثار جیسے دیرینہ ساتھی کی نصیحتوں کو بھی خاطر میں نہ لائے، جیل سے باہر آئے تو وقفے وقفے سے خاموشی توڑتے رہے۔ پھر اچانک ہی کیمپ جیل میں ان سے اہم شخصیات نے ملاقات کی جس کے بعد ان کی نیب کسٹڈی کے دوران طبعیت ایسی خراب ہوئی جو برطانیہ کی آزاد ہواؤں میں ہی جا کر بہتر ہوئی۔

پی ڈی ایم کی تشکیل ہو یا روایتی اور نظریاتی حلیف پیپلز پارٹی، نون لیگ کا غیر فطری رومانس جو کہ سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر کے غیر ضروری عہدے پر آنے والے اختلافات کے بعد ختم ہونا ہو، نواز شریف، مریم نواز سمیت مرکزی لیڈر شپ کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کو تو قطعی طور پر رد کیا جاتا رہا۔ سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر کے معاملہ پر پیپلز پارٹی اور اے این پی کی پی ڈی ایم سے بے دخلی نما دست برداری کے سانحہ کا مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز نے ایسا اثر لیا کہ دونوں ہی بیمار پڑ گئے۔

یہ طویل بیماری پھر چپ کے روزے کی صورت میں ابھی بھی موجود ہے۔ جس کے علاج کا شہباز شریف نے ازخود بیڑا اٹھایا، یوں بڑے بھائی، بھتیجی اور ان کے دیرینہ سیاسی رفیق مولانا فضل الرحمن کے لئے در در کی خاک چھان کر بالآخر پنڈی پہنچے، راولپنڈی کے طبیبوں کی تو پاکستان کے طول و عرض میں شہرت پائی جاتی ہے کیونکہ ان کے پاس موت کے علاوہ تمام بیماریوں کا شافی علاج موجود ہوتا ہے۔ طبیب ڈھونڈے جانے کے بعد مسئلہ یہ درپیش تھا کہ علاج کے لئے نیم رضامند مریضان (جو کہ اپنے ناکام بیانیے کے بوجھ سے باعزت طور پر نکلنا چاہتے ہیں) کو کیسے منایا جائے۔

ایسے میں ایک بار پھر شہباز شریف نے پی ڈی ایم کے حالیہ وینچر اور پیپلز پارٹی کی کامیاب پالیسی کا حوالے دینے کے ساتھ ساتھ جلسوں جلوسوں اور ریلیوں کی تجویز دی تاکہ کسی مک مکا کے تاثر سے ہر حد پار کر جانے والے مذکورہ بالا افراد کو پشیمانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سونے پر سہاگہ حکومت کی جانب سے الیکشن اصلاحات ترمیمی بل کو اپوزیشن کو بلڈوز کر کے منظوری کے بعد اپوزیشن بالخصوص نون لیگ لندن میں تشویش کی لہر دوڑی، یہاں لوہا گرم دیکھ کر شہباز شریف گروپ نے چوٹ لگائی پھر الیکشن اصلاحات پر بات چیت کے نام پر شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمن اور لندن میں مقیم اپنے بڑے بھائی نواز شریف کو منایا۔

حسین اتفاق دیکھیں کہ ادھر شہباز شریف کی ایف آئی اے میں پیشی ہوئی ادھر شہر اقتدار میں ہونے والی سرگوشیوں کو نون لیگ کی جانب سے آواز دی گئی۔ یوں سیاسی معاملات، سیاست اور پارلیمان کے ذریعے حل کرنے والوں نے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کو دیوار سے لگانے اور این آر او لینے کے الزامات پر حکومت سے بات چیت کا آپشن بہت محدود ہونے کے نام پر مقتدر اداروں سے بات چیت کا اعلان کر دیا گیا۔ بات چیت کا ایجنڈا بنیادی طور پر اہم قومی امور کے نام پر حکیمانہ رکھا گیا ہے، کیونکہ پاکستانی سیاسی تاریخ میں اہم قومی امور ہمیشہ ذاتی مفادات کی صورت میں ہیں طے کیے جاتے ہیں، فریقین بقدر جثہ اپنے معاملات کے حل اور کچھ لو دو کی بنیاد پر پائے جانے والے امور کو اہم قومی امور کا نام دیتے ہیں۔

اس بات چیت کے لئے شہباز شریف کو قومی اسمبلی میں فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمن اور اول الذکر قومی اداروں سے بھی گفت و شنید کریں گے۔ شہباز شریف وقتا فوقتاً قائد نون لیگ کو اس حوالے سے اپڈیٹ رکھیں گے۔ سیاسی بساط پر ہر پارٹی کی جانب سے اپنی اپنی چالیں چلی جا رہی ہیں ایک طرف مفاہمت کے گرو آصف علی زرداری چپکے چپکے سے 2023 کے الیکشن کی پیشقدمی کرتے ہوئے تحریک انصاف سے ناراض، منحرف اراکین سے خفیہ ملاقاتیں جاری رکھے ہوئے ہیں تو شہباز بلاول کی بھی خفیہ ملاقاتوں کے چرچے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب عطار کے لونڈے کے مصداق ایف آئی اے کے ذریعے طلب کیا جانا ہو یا پھر وفاقی وزراء کے بے اختیار پارٹی صدر کے بیانات ہوں ہدف صرف اور صرف شہباز شریف ہی ہیں۔ ڈر تو یہ ہے کہ پس پردہ معاملات میں کمر درد کے عارضے میں مبتلا شہباز شریف گھٹنے گھٹنے پکڑتے پکڑتے کہیں اپنا مرض نہ بڑھا بیٹھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments