اسلامی دنیا میں سائنس کا زوال، غزالی اور تصوف


معتزلہ اسلام کی فکری دنیا کا عقل پرست گروہ تھا جس کا باقاعدہ آغاز تابعین کے دور میں ہوا۔ اس زمانے کی سیاسی و فرقہ وارانہ کھلبلی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والے معتزلہ مکتبہ فکر نے علم الکلام (عقلی اور منطقی دلائل سے عقائد کو ثابت کرنا) کی اقلیم میں جرآت آزمائی کی اور منطقی دلائل کے ذریعے عقیدے اور عقل میں مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کی۔

مذہب کے اسرار کو ماورائے عقل قرار دینے والے روایتی علماء کے برعکس، معتزلہ نے حق و صداقت کا معیار عقل کو قرار دیا، اور استدلال کیا کہ عقل کے میزان پر پورا نہ اترنے والا ہر نظریہ باطل ہے۔ چونکہ وحی برحق ہے، لہذا اس کی کوئی بات عقل کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ اگر قرآن میں کوئی بات عقل کے تقاضوں کے خلاف محسوس ہو تو یہ دراصل ہماری فہم کا نقص ہے، اور ہمیں آیات کی توجیہ اس انداز سے کرنی چاہیے کہ ان کا مفہوم عقل کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو جائے ؛ اور اگر آیات کے لغوی معانی خلاف عقل محسوس ہوں تو ان کو استعاراتی مفہوم میں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ایمان اور عقیدے کے ساتھ ساتھ عقل کی اہمیت پر زور دینا اور عقلی طرز استدلال کو فروغ دینا معتزلہ فکری تحریک کی سب سے نمایاں خصوصیت تھی۔ تمام فکری اور عملی مسائل کو عقل کی روشنی میں حل کرنے کے مشن کے زیر اثر معتزلہ نے فلسفے اور منطق کی کتابوں کا انہماک کے ساتھ مطالعہ کیا۔

عقل پرست اعتزالی مفکرین کی جانب سے مظاہر کی عقلی تعبیرات پیش کرنے کی کاوشوں کے نتیجے میں اسلامی دنیا میں فکری علوم و فنون کی ترویج کا آغاز ہوا۔ جواباً مخالف مکتبہ فکر نے بھی اعتزالی دلائل کا توڑ کھوجنے کے لیے فلسفہ کی گتھیاں سلجھانا شروع کیں۔ عوام الناس نے اس اختلافی بحث میں بے حد دلچسپی ظاہر کی۔ جبریہ اور قدریہ کی مذہبی اور سیاسی بحثوں نے دلیل، منطق اور مشاہدے کے رجحان کو تقویت فراہم کی۔ مطالعہ اور کتب بینی کی عادات کو فروغ حاصل ہوا۔

اسی دوران مسلمانوں نے چینیوں سے کاغذ بنانے کا طریقہ سیکھا۔ 794 ء میں بغداد میں کاغذ سازی کا پہلا کارخانہ قائم ہوا۔ کاغذ کی فراہمی نے مسلم دنیا کے علمی ارتقاء پر ویسے ہی اثرات مرتب کیے جیسے گیوٹن برگ کے چھاپہ خانے نے سولہویں صدی کے یورپ پر۔ نتیجتاً نویں تا بارہویں صدی پر محیط اس دور کا آغاز ہوا جو نا صرف اسلامی تہذیب بلکہ عقلی علوم کے لیے بھی سنہرے ترین دور کی حیثیت رکھتا ہے، جس دوران فلسفہ، ریاضی، فلکیات، کیمیا، طب، تاریخ، جغرافیہ اور ادب میں بے پناہ ترقی ہوئی۔

ان تمام علمی کامرانیوں کے باوجود عقل کو کبھی بھی اسلامی دنیا میں فکری رہنمائی کی مسند اعلیٰ نصیب نہ ہو سکی کیونکہ بہرحال یہ تمام رنگارنگ بزم آرائی عقیدے کی ہی رچائی ہوئی تھی۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات نے کبھی بھی عقلی کاوشوں اور حصول علم کی حوصلہ شکنی نہیں کی لیکن دارالسلام کے علمائے مذہب کا انتہائی روایت پرست طبقہ ہمیشہ عقل کی چیرہ دستیوں سے خائف رہا اور اشیاء کی حقیقت کا علم حاصل کرنے کو الحاد قرار دیتا رہا۔ سواد اعظم عقلی علوم کی تحصیل و تحقیق کو فرض قرار دینے کے باوجود عقل کی حدود و قیود کا تعین کرنا اور عقیدے کی بالادستی قائم کرنا ضروری سمجھتا تھا۔

فکری علوم کا ہر شعبہ مذہبی زعماء کی عقیدہ پرست نگاہوں میں نہیں کھٹکتا تھا، لیکن یہ علم الکلام (عقائد کی عقلی توضیح) کا میدان تھا جہاں عقیدہ اور عقل کی دوبدو لڑائی میں گھمسان کا رن پڑا۔ قرون وسطی جامع العلوم شخصیات کا دور تھا جہاں صاحبان علم بیک وقت بہت سے مضامین پر دسترس رکھتے اور کسی ایک علم کی مخالفت سے تمام علوم کا ارتقاء متاثر ہو سکتا تھا، اور بالآخر ایسا ہی ہوا۔ فلسفہ کے الہیاتی مباحث میں دو طرفہ تشدد در آیا اور یہ عدم برداشت ایک عظیم الشان علمی تہذیب کے زوال کا سبب بن گئی۔

تاریخ نے ایک شاندار تہذیب کے زوال کی علمبرداری کا ذمہ دار ابو حامد الغزالی ( 1058 ء تا 1111 ء) کے افکار کو قرار دیا۔ اگرچہ غزالی ایک روایتی ملا نہیں تھے بلکہ اپنے زمانے کے اہم ترین فلسفی تھے۔ تاہم ان کی تعلیمات کو غلط انداز سے سمجھا گیا اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

بذات خود غزالی ریاضیاتی اور طبعی شواہد کی اہمیت سمجھتے تھے اور ان کو جھٹلانے کی کوشش کو کار لاحاصل قرار دیتے تھے۔ غزالی اس حق میں نہیں تھے کہ خالصتاً طبیعاتی اور سائنسی معاملات میں فلاسفہ کے افکار کو مذہب سے متصادم قرار دیا جائے۔ سائنسی نقطہ نظر کو الحاد پرستی کے قرار دینے والے علماء کو غزالی نے شریعت کے نادان دوست قرار دیا کیونکہ ان کے سائنس مخالف نظریات کے سبب سے مذہب کو خفت اٹھانا پڑتی ہے۔ حتی کہ غزالی یہ تک کہتے تھے کہ اگر کوئی حدیث طے سائنسی امور سے متصادم ہو تو ان امور کو جھٹلانے کی بجائے کہ اس حدیث کی تاویل کی جانی چاہیے۔

فلسفہ کے خلاف اپنی مشہور عالم تصنیف تہافۃ الفلاسفہ کی ابتداء میں ہی الغزالی نے سائنس کے حوالے سے اپنے اس موقف کی تفصیلی وضاحت کی ہے۔ تہافۃ الفلاسفہ کے دوسرے مقدمہ میں غزالی لکھتے ہیں :

”ایسے امور جن پر فلاسفہ تو یقین رکھتے ہیں، لیکن وہ کسی مذہبی اصول سے متصادم نہیں ہیں، ان معاملات میں فلسفیوں سے اختلاف کرنا ایمان بالرسالت کا تقاضا نہیں ہے۔

مثلاً ان (فلسفیوں ) کا ماننا ہے کہ چاند گرہن کا سبب یہ ہے کہ سورج اور چاند کی روشنی کے درمیان زمین حائل ہو جاتی ہے، کیونکہ چاند سورج ہی سے روشنی مستعار لیتا ہے اور زمین ایک کرہ ہے۔ سو اگر چاند پر زمین کا سایہ پڑ جائے تو اس سے سورج کا نور چھین جائے گا۔ اسی طرح ان (فلاسفہ) کا نظریہ ہے کہ سورج گرہن کا سبب ناظر اور سورج کے درمیان کا چاند حائل ہونا ہے ؛ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب چاند اور سورج ایک ہی زاویے پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوتے ہیں۔

ہمیں اس نوعیت کے نظریات کے ابطال میں کوئی دلچسپی نہیں، کیونکہ اس طرح کے رد سے کچھ حاصل نہیں۔ اگر کوئی ایسا سوچتا ہے کہ ان امور کا ابطال کرنا اس کا مذہبی فریضہ ہے تو دراصل وہ مذہب کے ساتھ زیادتی کرتا ہے اور مذہبی مقاصد کو نقصان پہنچاتا ہے۔ کیونکہ یہ امور ایسے فلکیاتی اور ریاضیاتی ثبوتوں کی بنیاد پر متعین شدہ ہیں کہ جن کے بعد شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

وہ شخص جس نے ان امور کا مطالعہ کر رکھا ہے، اور وہ ان سے متعلقہ اعداد و شمار کا مکمل جائزہ لے چکا ہے، اور وہ یہ پیشن گوئی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے کہ سورج اور چاند گرہن کب اور کتنی مدت کے لیے قائم ہو گا اور آیا مکمل ہو گا یا جزوی؛ اگر اس یہ کہا جائے کہ یہ نظریات مذہب سے متصادم ہیں تو اس شخص کا اعتقاد ان نظریات کی بجائے مذہب پر سے متزلزل ہو گا۔

مذہب کو زیادہ نقصان ایسے بے سلیقہ مددگاروں کی جانب سے پہنچتا ہے، بہ نسبت ان دشمنوں کے کہ جن کی عداوت کیسی ہی شدید کیوں نہ ہو، لیکن کسی اصول اور ضابطے کی پابند ہوتی ہے۔ جیسا کہ مثل مشہور ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے ”۔ (تہافۃ الفلاسفہ مقدمہ دوم)

مزید آگے، سورج اور چاند گرہن کی احادیث کے حوالے سے، غزالی لکھتے ہیں : ”اگر کوئی کہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: بے شک سورج اور چاند خدا کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے انہیں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم انہیں (گرہن لگتے ) دیکھو تو خدا کے ذکر اور نماز کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ ’تو ہم کہیں گے کہ اس روایت میں ایسا کچھ نہیں جو فلاسفہ کے موقف کے خلاف ہو۔ اس میں صرف یہ بات کہی گئی کہ کسی کی موت یا حیات سے گرہن لگنے کا کوئی تعلق نہیں، اور اس وقت نماز کا حکم دیا گیا ہے۔ جو شریعت کے غروب و طلوع آفتاب کے وقت نماز کا حکم دیتی ہے، وہ اگر کسوف کے وقت کسی مستحب نماز کا حکم دے تو کون سی تعجب کی بات ہے؟

اگر کوئی کہے کہ اسی حدیث کے آخر میں کہا گیا ہے کہ جب اللہ کسی چیز پر تجلی کرتا ہے تو وہ اس کے آگے سر بسجود ہو جاتی ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ گرہن دراصل تجلی کو کیا جانے والا سجدہ ہے؟ تو ہم کہیں گے کہ یہ آخری جزو اضافی اور تکذیب کے لائق ہے۔ حدیث اتنی ہی ہے جتنی کہ اوپر بیان کی گئی۔ لیکن اگر یہ اضافہ صحیح بھی ہو تو کیا اس کی تاویل پیش کرنا آسان نہیں، بہ نسبت اس کے کہ مسلمہ امور کو رد کیا جائے۔ لوگوں نے بہت سے ایسے متن کی عقلی تاویلات کی ہیں جن کے مفہوم واضح نہیں تھے۔ اگر مذہب کے معاونین ایسے مسلمہ امور کو بھی خلاف شرع قرار دیں گے تو یہ ملحدین کے اطمینان کا باعث ہو گا کیونکہ پھر ان کے لیے مذہب کا ابطال کرنا آسان ہو گا۔

یہی صورتحال عالم کے حادث یا قدیم ہونے کی بحث کی ہے۔ اگر دنیا کا حادث (یعنی دنیا ازلی نہیں بلکہ تخلیق کی گئی ہے ) ہونا ثابت ہو جائے تو پھر ( ہمیں اس سے غرض نہیں کہ) چاہے عالم کرہ (گول) ہو، بسیط (فرش کی صورت بچھا ہوا) ہو، مسدس ہو یا مثمن؛ چاہے آسمان اور جو کچھ زیر آسمان ہے، اس کے تیرہ طبقات ہوں جیسا کہ فلاسفہ کہتے ہیں، یا اس سے کم یا زیادہ ہوں۔ ان امور کی تحقیق الہیاتی مباحث کے لیے اتنی ہی غیر متعلقہ ہے جتنا کے پیاز کے چھلکوں یا انار کے دانوں کی تعداد کی تحقیق۔ ہمیں دلچسپی صرف اس امر سے ہے کہ یہ عالم خدا کے تخلیقی عمل کی پیداوار ہے، خواہ اس تخلیقی عمل کی نوعیت کچھ بھی ہو۔ ”(تہافۃ الفلاسفہ، الغزالی مقدمہ دوم) ۔

مقدمہ کے اختتام پر غزالی واضح کرتے ہیں کہ وہ صرف ان فلسفیانہ نظریات کا رد کریں گے جو کسی مذہبی اصول سے صریح متصادم ہیں، جبکہ دیگر فلسفیانہ نظریات سے صرف نظر کریں گے۔

بعد ازاں غزالی فلسفہ کے بیس نظریات پر فرداً فرداً بحث کرتے ہیں۔ ان مسائل میں سے بیشتر کا تعلق خالصتاً عقیدے سے ہے جن کے بارے میں کوئی سائنسی نقطہ نظر اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن دو مسائل ایسے تھے جو سائنس کے ذیل میں آتے ہیں۔ ان میں سے ایک مسئلے پر غزالی کا نکتہ نظر بالآخر سائنسی لحاظ سے درست ثابت ہوا۔ یہ مسئلہ کائنات کے آغاز اور انجام سے متعلق ہے۔ اس دور کے فلسفی یہ مانتے تھے کہ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ کائنات تخلیق کی گئی ہے۔ جدید سائنسی نظریہ کے مطابق بھی کائنات ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لیے نہیں ہے بلکہ کچھ ساڑھے تیرہ ارب سال پہلے تخلیق ہوئی اور ایک خاص مدت کے بعد فنا ہو جائے گی۔

تہافۃ الفلاسفہ کا دوسرا اور اہم ترین سائنسی مسئلہ خدا کا علم جزئیات اور علت اور معلول کا باہمی تعلق تھا۔ یہ وہ معاملہ ہے جس پر غزالی کی تعلیمات نے اسلامی دنیا میں سائنسی سوچ کے زوال اور تصوف کے عروج کا نظریاتی سبب فراہم کیا، اور اس ڈاکٹرائن کا سیاسی استعمال اور بزور طاقت نفاذ اسلامی تہذیب کے علمی زوال پر منتج ہوا۔

فلسفیوں کا ماننا تھا کہ ایک دفعہ جب خدا نے کائنات کو پیدا کر لیا تو اس کے بعد یہ کائنات فطری قوانین کے تابع اپنے خودکار نظام پر چلنے لگی۔ بالکل ایسے ہی جیسے ڈومینوز کے کھیل میں جب پہلی ٹکی کو گرایا جاتا ہے تو یکے بعد دیگرے آگے رکھی گئی ٹکیوں کے الٹنے کا مسلسل عمل شروع ہو جاتا ہے۔ پس خدا نے کائنات کو شروع تو کیا ہے لیکن اس پہلی کڑی کے بعد کائنات کی جزئیات میں خدا کی مزید مداخلت نہیں کرتا اور کائنات فطری قوانین کے تحت آگے بڑھ رہی ہے۔ فلسفے کا کام یہ ہے کہ عقل کے ذریعے ان قوانین کو دریافت کرے۔

دوسرے لفظوں میں فلسفی قوانین فطرت اور علت اور معلول کے لازمی اور متواتر یکساں (cause and effect) کے قائل ہیں۔

دوسری جانب غزالی کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ کہ خدا کائنات کا صرف پہلا سبب تھا جس کے بعد سے کائنات کو ثانوی اسباب چلا رہے ہیں، خدا کی شان میں کمی کرنے کے مترادف ہے۔ درحقیقت کائنات کا ایک پتا بھی خدا کی مرضی کے بغیر نہیں ہلتا۔ کائنات کے ہر چھوٹے بڑے واقعے میں خدا کی مداخلت ہمہ وقت موجود ہے۔ بالفاظ دیگر خدا ہر لمحے میں ایک نئی کائنات تخلیق کر رہا ہے۔

غزالی مزید کہتے ہیں کہ علت اور معلول کے درمیان کوئی لازمی تعلق سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ سیب کو اونچائی سے چھوڑا جائے تو زمین کی طرف گرے۔ یہ ضروری نہیں کہ اگر پانی کو ابالا جائے تو وہ بھاپ بن جائے۔ یہ تمام نتائج خدا کی منشاء پر منحصر ہیں۔ خدا چاہے تو نتیجہ سبب کے برعکس اور سبب کے بغیر بھی پیدا ہو سکتا ہے۔ غزالی لکھتے ہیں کہ یہ خدا کے اختیار میں ہے کہ کسی بھوکے کی بھوک کھانا کھائے بغیر مٹ جائے، اور کسی گردن کٹ جائے اور وہ زندہ رہے۔

غزالی فلاسفہ کے اس خیال کا بھی رد کرتے ہیں کہ معجزات قوانین فطرت کی خلاف ورزی اور چنانچہ ناممکنات ہیں۔ غزالی کا کہنا تھا کہ جب فطرت کے قوانین موجود ہی نہیں تو ان کی خلاف ورزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آگ دکھانے پر روئی کا سلگ اٹھنا کسی فطری قانون کے تحت نہیں بلکہ خدا کی رضا کے باعث ہے۔ اور اگر ہمیں اس کائنات علت اور معلول کے باہمی تعلق میں بظاہر یکسانیت اور تواتر دکھائی دیتا ہے تو اس کی وجہ مادے کے ذاتی خواص یا سائنسی قوانین نہیں۔

یہ ترتیب دراصل خدائی منشاء کا ہی عکس ہے۔ لیکن خدا کسی طور اس ترتیب کا پابند نہیں ہے۔ خدا کا طرز عمل مادی قوانین سے ماورا ہے۔ خدا کسی منطقی یا سائنسی اصول کا قیدی نہیں ہے۔ خدا چاہے گا تو مظاہر فطرت طبعی قوانین کے تابع نظر آتے رہیں گے۔ اور خدا چاہے گا تو مظاہر فطرت انہی قوانین سے بالاتر ہو جائیں گے (جیسا کہ معجزات سے ثابت ہے ) ۔

تصوف ان عقائد کا لازمی نتیجہ ہے۔ اگر کاز اور ایفیکٹ میں کوئی لازمی تعلق موجود ہی نہیں، تو اس باہمی تعلق کے مطالعے سے قوانین فطرت کو دریافت کرنے کا عمل سرے سے بیکار ہو گا۔ چنانچہ اگر غزالی کی بات مانی جائے تو انسان کو اشیاء کی مادی حقیقت کو سمجھنے کے تجسس میں مبتلا ہونے کی بجائے ان اشیاء کے حقیقی سبب پر غور و فکر کرنا چاہیے، اور اپنا رابطہ براہ راست اس ذات سے استوار کرنا چاہیے جو تمام نتائج کا حقیقی سبب ہے۔ اور اس کے ذریعے فطرت کی قوتوں کو دریافت اور مسخر کرنا چاہیے۔

یہی وجہ ہے صوفیوں کو ہر چیز میں خدا دکھائی دیتا ہے۔ خدا کو اپنی سوچوں کا مرکز بنا کر وہ خدا کی قربت حاصل کرنے کی تمنا کرتے ہیں۔ اور فنا فی اللہ کی منزل حاصل کرنے کی بعد ، خدا کی منشاء کی صورت، وہ خود بھی قوانین فطرت سے بالاتر ہو جاتے ہیں۔ صوفیاء کے تذکروں پر مشتمل کتب ایسے مابعد الطبیعیاتی واقعات سے بھرپور ہیں کہ وہ جب چاہتے ہیں ہوا میں اڑتے ہیں، پانی پر چلتے ہیں، اور چشم زدن میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتے ہیں۔

غزالی کے اسی تصوراتی نظام کے پر تشدد فروغ اور بزور طاقت نفاذ نے اسلامی دنیا میں سائنسی سوچ کے ارتقاء پر جمود کی مہر ثبت کر دی۔ نویں سے گیارہویں صدی عیسوی کی طاقتور اسلامی دنیا جدید ترین معنوں میں ایک دانشورانہ تہذیب تھی۔ شہروں کے شہر طرح طرح کی علمی سرگرمیوں میں مشغول تھے۔ لیکن بارہویں صدی عیسوی تک پہنچتے پہنچتے اسلامی دنیا میں علم و حکمت کی شمع لڑکھڑانے لگی اور صدی کے اختتام تک مسلمانوں نے منطقی سوچ کو یکسر مسترد کر دیا جس کے بعد اسلامی دنیا میں تصوف کا بول بالا ہو گیا۔

اسلامی ذہن پر آج بھی غزالی کا اثر بہت گہرا ہے۔ بالخصوص پاکستان میں جہاں تصوف مسلمانوں کی مذہبی فکر کا انتہائی مضبوط عنصر ہے۔ مذہبی طبقات کی طرف سے عوام کو، اکثر اوقات دبے لفظوں میں اور بسا اوقات واضح الفاظ میں، یہ باور کروایا جاتا ہے کہ عقل پر زیادہ انحصار سے ایمان میں فرق آتا ہے، اور سائنس اور فلسفہ تشکیک، اخلاقی بگاڑ اور سماج کی تباہی کا موجب بنتے ہیں۔ چنانچہ طبعی مظاہر ہمارے عقلی تجسس کو مہمیز کرنے کی بجائے روحانی جذبے کو بیدار کرنے لگتے ہیں، اور حیاتیاتی رنگا رنگی ہمیں معروضی مطالعہ پر اکسانے کی بجائے خدا کی صناعی پر حیرت میں گندھی ہوئی تقدیس کا اظہار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسے افراد کی بہتات ہے جو مابعد الطبیعیاتی قوتوں کے حامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور عوام کی ضعیف الاعتقادی کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اگرچہ کسی انسان کو مافوق الفطرت ”صوفیانہ“ طاقتوں کا عملی مظاہرہ کرتے شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments