مقامی نظام حکومت کی ترجیحات


پاکستان کی سیاسی حکمرانی اور اس نظام سے جڑی شفافیت سمیت عام آدمی کے مفادات کی سیاست کا براہ راست تعلق ایک مضبوط اور مربوط مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑا ہوا ہے۔ جب تک ہمارا ریاستی و حکومتی نظام سمیت طاقت کے تمام مراکز بنیادی طور پر مقامی حکومتوں کے نظام کو بنیاد بنا کر حکمرانی کے نظام کو قائم نہیں کریں گے حکمرانی کا بحران بدستور قائم بھی رہے گا اور مزید بگاڑ بھی پیدا کرے گا۔ لیکن لگتا یہ ہی ہے کہ ہمارے طاقت کے مراکز ماضی کی حکمرانی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے تواتر سے ان ہی غلطیوں کو دہرا رہے ہیں جو ماضی یا حال میں جاری ہیں۔

بظاہر یہ ہی لگتا ہے کہ ہم مجموعی طور پر عدم مرکزیت کے مقابلے میں مرکزیت یعنی اختیارات کو زیادہ سے زیادہ اوپر کی سطح پر محدود کر کے سیاسی نظام چلانا چاہتے ہیں۔ 18 ویں ترمیم کے بعد یہ صوبوں کی بنیادی ذمہ داری تھی کہ وہ سیاسی، انتظامی او رمالی اختیارات کو صوبوں سے اضلاع، تحصیل، ٹاؤن، یونین یا محلہ کونسلوں تک تقسیم کریں۔ لیکن اس وقت چاروں صوبے عملی طور پر اختیارات کو اپنی حد تک محدود کر کے مقامی نظام حکومت کی نفی کر رہے ہیں۔

حالانکہ 1973 کے دستور کی شق 140۔ Aصوبوں کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنے صوبہ میں مقامی نظام حکومت کی تشکیل، تسلسل سمیت سیاسی، انتظامی او رمالی اختیارات کو عوام کے منتخب نمائندوں تک تقسیم کرے۔ اسی طرح آئین کی شق 32 کے تحت مقامی نظام حکومت میں عورتوں، کسانوں، مزدوروں، اقلیتوں اور نوجوانوں کی شمولیت کو فعال بھی کرے او ران کی نمائندگی کو اختیارات بھی دینا صوبائی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ اس وقت ملک کے چاروں صوبے عملاً بنیادی جمہوری اداروں سے محروم ہیں اور صوبائی حکومتیں مسلسل ان مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے سے گریز کر کے خود اختیارات کو اپنی حد تک محدود رکھے ہوئے ہے۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جب تک صوبائی سطح پر مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط اور با اختیار نہیں بنایا جائے گا صوبائی خود مختاری کا عمل مکمل نہیں ہوگا۔ اس وقت ملک میں مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے جمہوری نظام نامکمل ہے جو سیاسی اور جمہوری نظام کے لیے اچھا شگون نہیں۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے پچھلے دنوں کراچی کے بحران کے تناظر میں مقامی نظام حکومت کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کے بقول کراچی کا حل آئین کی شق 140۔ Aکے تحت مضبوط مقامی حکومت ہے۔ مسئلہ محض کراچی کا نہیں بلکہ پورے ملک میں حکمرانی کے بحران کے حل سے ہے اور یہ حل ایک مضبوط مقامی حکومت کے نظام کا حقیقی تقاضا کرتا ہے۔ بالخصوص بڑے شہروں کے مسائل کا حل ایک منفرد اور خود مختار مقامی سطح کے نظام سے جڑا ہے جس میں سیاسی، انتظامی او رمالی اختیارات واضح اور شفاف ہوں۔

فواد چوہدری بنیادی طور پر ملک میں مضبوط مقامی حکومت کے نظام کے حامی ہیں۔ ماضی اور حال دونوں میں وہ ہر فورم پر مقامی نظام حکومت کی اہمیت پر زور دیتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ اس مقامی نظام کو اختیار کیے بغیر ملک میں حکمرانی کا بحران حل نہیں ہو سکے گا۔ فواد چوہدری ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے 2018 میں پی ٹی آئی کی حکومت کے بنتے ہیں پہلے تین سے چار ماہ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کی تجویز دی تھی۔ لیکن دونوں صوبائی حکومتوں نے ان کی تجویز کو قبول نہیں کیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پچھلے تین برسوں میں پی ٹی آئی کی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اپنی حکومت ہونے کے باوجود مقامی انتخابات کا راستہ اختیار نہیں کیا جا سکا۔

وزیر اطلاعات فواد چوہدری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ اگر ہم نے روایتی اور پرانے فرسودہ انداز میں مقامی حکومتوں کے نظام کو اختیار کرنے کی کوشش نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگی۔ کیونکہ فواد چوہدری بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ کوئی بھی صوبائی حکومت اس نظام کو خود مختاری یا تشکیل دینے میں سنجیدہ نہیں۔ اگر صوبائی حکومتوں پر وفاق کا کوئی کنٹرول نہیں ہوگا تو یہ انتخابات کا راستہ بھی اختیار نہیں کریں گی اور معاملہ یوں ہی عدالتوں کے رحم و کرم پر ہی رہے گا۔

اگرچہ مقامی نظام حکومت صوبائی سبجیکٹ ہے لیکن اس میں وفاق کا کردار ڈالنا ہوگا تاکہ وہ اس بات کو یقینی بنا سکے کہ صوبائی حکومتیں تسلسل کے ساتھ مقامی نظام حکومت کو چلا سکیں، انتخابات کا راستہ اختیار کریں اور آئین کے تحت ان اہم اداروں کو مکمل خود مختاری کی طرف پیش رفت کی جاسکے۔ اسی طرح مقامی حکومتوں کے انتخابات عام انتخابات کے ساتھ ہی ہونے چاہیے تاکہ کوئی بھی نئی آنے والی صوبائی حکومت پہلے سے موجود مقامی حکومتوں کو اپنے لیے سیاسی خطرہ سمجھ کر ان وقت سے قبل ختم کردیں اور ان جمہوری اداروں کے ساتھ استحصال کا رویہ اختیار کریں۔

یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ اگر ہم نے اس ملک میں سیاست، جمہوریت، اداروں اور حکمرانی کے بحران سمیت قانون کی حکمرانی کے نظام کو ہر صورت مستحکم کرنا ہے تو ہمیں ”مضبوط اور خود مختار مقامی حکومتوں“ کے نظام کو اپنے سیاسی نظام کی بنیادی کنجی بنانا ہوگا۔ یہ اہل سیاست اور رائے عامہ بنانے والے افراد یا اداروں سمیت میڈیا یا دانشوروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مقامی حکومتوں کے نظام کو کسی سیاسی تنہائی میں دیکھنے کی بجائے ایک جامع انداز میں ملک کے جمہوری، سیاسی اور حکمرانی کے نظام کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا ہوگا۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا میں جو بھی تجربات حکمرانی کے نظام میں ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں ان میں اب زیادہ سے زیادہ اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح پر تقسیم کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ مرکزیت کی بنیاد پر نظام کو چلانے کی روش مزید حکمرانی کے بحران کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک میں جن لوگوں یا جماعتوں یا ان کی قیادت کے ہاتھ میں جو ہمارا سیاسی و جمہوری نظام ہے ان کی اصل ترجیحات مرکزیت پر مبنی نظام سے جڑی ہوئی ہے۔ 18 ویں ترمیم پر عملدرآمد نہ کر کے بھی سیاسی قیادتیں جمہوریت کو تماشا بنا کر پیش کر کے قومی سطح پر جمہوری مقدمہ کو کمزور کر رہی ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ ترقیاتی بجٹ کا ہے۔ صوبائی حکومتیں سمجھتی ہیں کہ اگر صوبوں میں مقامی حکومتوں کا نظام کو مضبوط بنایا گیا تو اس سے ان کی سیاسی طاقت مقامی سطح پر کمزور ہوگی اور مقامی منتخب افراد زیادہ طاقت حاصل کر لیں گے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ترقیاتی فنڈ تک قبضہ کی اس سیاسی جنگ میں مقامی حکومتوں کا نظام عملی طور پر سیاسی و جمہوری قیادتوں کے ہاتھوں استحصال کا نشانہ بن رہا ہے اور حکومتیں اس مقامی نظام سے انحراف کر کے مقامی مسائل کو اور زیادہ سنگین اور پیچیدہ بنا رہی ہیں۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کیونکہ وزیر اعظم تک رسائی رکھتے ہیں اور حکومت میں اہم عہدے پر ہیں وہ ان کو یہ باور کروائیں کہ صوبائی حکومتیں کس طرح سے ان مقامی نظام حکومت کے خلاف متحد ہیں اور اس نظام کی تشکیل میں بڑی رکاوٹ کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان میں فواد چوہدری سمیت جو لوگ بھی مختلف جماعتوں میں مقامی نظام حکومت کے حامی ہیں ان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اب معاملات Out of Box کی بنیاد پر حل ہوں گے اور اس نظام کی کامیابی اور تشکیل سمیت تسلسل کا عمل زیادہ سے زیادہ حکومتی سطح پر غیر معمولی اقدامات کی بنیاد سے جڑا ہے۔

سیاسی جماعتوں کے سنجیدہ کارکن، سول سوسائٹی، میڈیا، دانشور، علمی و فکری ماہرین اور حکمرانی کے نظام کی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد یا اداروں کو آگے بڑھ کر مقامی حکومتوں کے نظام کی مضبوطی کے لیے پرامن، سیاسی اور قانونی محاذ پر ایک بڑی جنگ لڑنی ہوگی۔ یہ جنگ مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔ یہ جو ہمارے سماجی شعبہ کے اعداد و شمار ہیں یا جو ہمیں شہری اور دیہی سطح پر یا امیر اور غریب کی سطح پر ایک بڑی خلیج یا بدا اعتمادی کی سیاست نمایاں نظر آتی ہے اس کی کی بھی بڑی وجہ مقامی حکومتوں کے نظام سے مکمل طور پر انحراف کی پالیسی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments