جالے



ہمارے اداروں میں ایسے انسانی رویوں کی بھرمار ہے جو ڈور کو الجھاتے ہیں۔ ادارے میں کام کرنے والے ورکروں کو معلوم ہوتا ہے کہ ڈور کہاں پر اور کدھر سے الجھی ہے لیکن انہیں سب کچھ جان کر بھی خاموش رہنے کا حکم ہوتا ہے۔

اداروں میں موجود لیڈر حضرات چار اقدار کے تحت اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

1۔ لیڈر اپنا مکمل کنٹرول قائم رکھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ادارے میں چڑیا بھی ان سے پوچھ کر اپنے پروں کو حرکت دے۔

2۔ لیڈر ہر معاملے اور ہر صورتحال میں فاتح بن کر سرخرو ہونا چاہتے ہیں۔

3۔ لیڈر موقع محل کی نزاکتوں کو پیش نظر رکھ کر گفتگو کرتے ہیں۔ اپنے سے طاقتوروں کی چاپلوسی کرتے ہیں اور اپنے سے کمزوروں کی تضحیک کرتے ہیں۔

4۔ لیڈر اپنے فیصلوں میں بظاہر تو عقل کا استعمال کرتے ہیں لیکن ان کی عقل ان کے جذبات اور مفادات کی باندی ہوتی ہے۔

درج بالا اقدار کی جو بھی لیڈر یا کوئی بھی شخص جب پاسداری کرتا ہے تو وہ ہر معاملے میں دفاعی پوزیشن اختیار کرتا ہے۔ اسے ہر خطرے سے بھرپور حالات میں اپنے اعمال کا جواز پیش کر کے اپنا دفاع کرنا ہوتا ہے۔

ابھی تلک جن اقدار اور ان کے سایہ میں پروان چڑھنے والے جن رویوں کا ذکر ہوا ہے وہ فرد کے لئے تو خوش بختی کا باعث بنتے ہیں اور اسے قیادت کے منصب پر فائز کر دیتے ہیں لیکن ادارے کے اندر کام کرنے والے لوگوں کو جیتے جاگتے ”جسد خاکی“ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

اس کے برعکس درج ذیل اقدار سے اداروں کی پیداورانہ صلاحیتوں میں قابل قدر اضافہ ہو سکتا ہے اور ان کے اندر کام کرنے والوں میں بھی اپنے کام سے دلچسپی بڑھ سکتی ہے۔

1۔ ہر ادارے میں یہ نہ دیکھا جائے کہ ”کون کہہ رہا ہے“ بلکہ یہ دیکھا جائے کہ ”کیا کہہ رہا ہے“ ۔ لیڈروں کے ارشادات بھی میرٹ پر پرکھے جائیں۔

2۔ اداروں میں ہونے والے فیصلے تمام عوامل کو پیش نظر رکھ کر کیے جائیں۔ آخری فیصلہ بیشک لیڈر کا ہو لیکن لیڈر فیصلے سب کی رائے سن کر کریں۔

3۔ غلطی کسی کی بھی ہو یا پھر نظام کے وجود میں خون بن کر دوڑ رہی ہو اس کی نشاندہی بغیر کسی خوف کے کرنی ممکن ہو۔

4۔ ادارے کے تمام ورکروں کو ”نفسیاتی تحفظ“ حاصل ہو۔ جب ورکروں کو یہ معلوم ہو کہ سچ بولنے والا ہی صلیب پر چڑھ جائے گا تو پھر وہ سچ پر چاندی کا ورق چڑ ہا کر اسے بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ نفسیاتی تحفظ کی موجودگی میں ہی زبان دل کی رفیق بن سکتی ہے۔

ہمارے اداروں میں موجود لیڈروں کے لیڈر شپ سٹائل پر کوئی گفتگو نہیں کرتا ہے بلکہ یہ موضوع تو ”شجر ممنوعہ“ تصور کیا جاتا ہے۔ ہر کوئی صاحب کے موڈ کے مطابق اپنے مدعا کی نوک پلک سنوارتا ہے۔

لیڈر حضرات اپنے اداروں میں شفافیت کا ڈھول ڈنکے کی چوٹ پر بجاتے ہیں۔ وہ بظاہر اپنی تقریروں میں برملا کہتے ہیں کہ ہر معاملے پر کھل کر بات ہونی چاہیے البتہ بغیر کسی لگی لپٹی کے بات کرنے والوں کو ”کھڈے لائن“ لگا دیا جاتا ہے۔ ہاں میں ہاں ملانے والوں کو نورتنوں میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جو لیڈر بہرے ہوتے ہیں ان کی کچن کیبنٹ میں صرف گونگے ہی باقی رہ جاتے ہیں۔

بالعموم وہی لیڈر بنتے ہیں جو نرگسیت کے مریض ہوتے ہیں اور انہیں اپنا ڈھول پوری طاقت کے ساتھ بجانے کا فن آتا ہے۔ ہمارے اداروں کے کلچر میں سارے جالے ان کی وجہ سے لگتے ہیں جو اقتدار کی کرسیوں پر دھڑلے کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان اداروں کے ورکروں کی تخلیقی صلاحیتیں مسلسل حکم کی تعمیل کی وجہ سے دم توڑ دیتی ہیں۔ وہ سوچنا سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں اور حکم کے بندے بن جاتے ہیں۔

ہارورڈ کے پروفیسر کرس آرجرس کے مطابق ہمارے اداروں میں مروت کے سبب بھی لوگ ایک دوسرے کے سامنے ایسی بات نہیں کرتے ہیں جس سے انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن کوئی کمرے میں موجود ”ہاتھی“ کو نہ دیکھتا ہے اور اگر دیکھ بھی لے تو اس کے متعلق اپنے سلے ہوئے ہونٹ وا کرنے کی جرات نہیں کر سکتا ہے۔ البتہ ریٹائرمنٹ کے بعد بڑے شوق سے اپنی آپ بیتی میں کلمہ حق بلند کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

ہمارے اداروں کے اندر لگے ہوئے جالے ہمارے راستوں کو اس وقت تک کاٹتے رہیں گے جب تک اداروں کے سربراہ اور ان کے نورتن آئینے کو ترک کر کے کھڑکی سے باہر مناظر دیکھنا شروع نہیں کریں گے۔ جب ہمارے باہمی تعلقات میں ایک دوسرے کے لیے غیر مشروط قبولیت پر آمادگی کا اظہار ہو گا پھر ہمارے ادارے جنت ارضی کا روپ اختیار کریں گے۔ اس وقت تک انتظار فرمانے کے ساتھ مو ر کی طرح اپنے خوشنما پروں کے ساتھ ساتھ اپنے پیروں کو بھی دیکھنے کی عادت ڈالیں تاکہ آپ کی متکبرانہ کے غبارے میں بھری ہوئی ہوا دھیرے دھیرے سے خارج ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments