وزیراعظم کا مطلب مفتیِ اعظم نہیں ہوتا


بچپن میں لڑا دے ممولے کو شہباز سے جب پہلی بار پڑھا تو اس عمر میں اس کی تشریح کچھ یوں معلوم ہوئی کہ جیسے زید جو کہ ایک منحنی اور سست الوجود لڑکا ہے کو طیش دلا کر اس کو بکر جو نسبتاً ایک قوی الجثہ اور پھرتیلا لڑکا ہے، سے لڑا دینا اور پھر تماشا دیکھنا۔

‏سکول کے زمانے سے ہم سب ایسے کسی کردار کو جانتے ہوں گے جس کو چند شریر دوست بڑھاوا دے کر کسی لڑکی یا خود اس سے کہیں بڑے لڑکے کے پیچھے بھیجتے اور جوتے پڑواتے تھے۔ ہمارا وزیراعظم عمران خان بھی کچھ ایسا ہی کردار ہے۔ چاہنے والے ان کو جو بھی بتا دیں وہ خود کو وہی سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ آج سے قریب اٹھائیس سال قبل جب ورلڈ کپ جیت کر خان جی عوام میں گئے تو سڑکوں پر لوگ جوق در جوق انہیں دیکھنے کے لئے آئے۔ ان عوامی اجتماعات کا مقصد بظاہر شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لیے چندہ جمع کرنا تھا۔

اسی وقت شاید لاہور میں پہلی مرتبہ مجمع میں سے کسی نے وزیراعظم عمران خان کا نعرہ لگایا۔ اس دور کے سیاسی ماحول میں ایسا نعرہ دیوانے کی بڑ معلوم ہوتا تھا۔ اس کے فوراً بعد کئی انٹرویوز ہوئے جن میں خان صاحب نے سیاست کو گند قرار دے کر ایسے کسی امکان کو مکمل رد کر دیا۔ لیکن چند ہی سالوں میں ان کو اندر سے یقین ہو گیا کہ وزیراعظم بننے کی تمامتر صلاحیتیں ان میں بدرجہ اتم موجود ہیں اور یہ کہ ان کو فوراً سے بیشتر ملک کا وزیر اعظم بن جانا چاہیے۔ پھر تحریک انصاف بنی اور باقی سب تاریخ کا حصہ ہے۔

‏حکومت ملنے سے قبل جب بھی شر پسند لوگ خان صاحب کی ذاتی زندگی، ان کے رومانوی تعلقات اور بیرون ملک ان کی مبینہ طور پر غیر علانیہ اولاد کا چرچا کرتے تو خان صاحب اور تحریک انصاف کے ترجمان یک زبان ہو کر اس کو خان صاحب کے نجی معاملات قرار دیتے اور اس پر بات کرنے کی حوصلہ شکنی کرتے۔

‏عمران خان کی مارکیٹنگ کرنے والے ہمیشہ سے یہ تسلیم کرتے آئے ہیں کہ ان کی ذاتی زندگی میں کچھ مسائل رہے ہیں اور خود انہوں نے کبھی کسی پاکبازی کا دعویٰ نہیں کیا تھا لیکن یہ یقین دلایا جاتا رہا کہ کم از کم ان پر مالی کرپشن کا کوئی الزام نہیں اس لئے عوام خاطر جمع رکھیں۔ (حالانکہ بنا کوئی عہدہ رکھے، پاکبازی کا دعویٰ بھی قابل توجہ نکتہ ہے )

‏پاکستان میں معیشت، امن و امان اور انتظامی مسائل کا ایک پہاڑ ہے۔ تحریک انصاف کا شروع سے بیانیہ یہی رہا ہے کہ گزشتہ حکومتوں کی روزانہ کی بنیاد پر مالی کرپشن نے ملک کو تباہ رکھا ہے۔ اپنے بیانیے کے مطابق عمران خان کی بنیادی ترجیحات؛ عوامی مسائل کا حل، صحت، تعلیم اور روزگار کا انقلاب، غریب کی حالت زار پر توجہ، معیشت کی بحالی، کرپشن کا خاتمہ، انصاف کی فوری فراہمی اور امن و امان کے شعبے میں اصلاحات لانا ہونا چاہیے تھا۔

لیکن حکومت ملتے ہی خان صاحب کے کان میں کچھ ”خیر خواہوں“ نے یہ بات ڈال دی کہ چونکہ پوری امت مسلمہ میں اسلام اور مغرب کو آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا لہٰذا وزیراعظم ہونے کے علاوہ آپ امہ کی آخری امید اور اتحاد بین المسلمین کے سفیر بھی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ آپ اسلام، تاریخ، جغرافیہ، فلاسفہ اور اخلاقیات کے مبلغ اور مصلح کا عہدہ بھی سنبھال لیں اور قوم کو ”اپنی اصل“ تاریخ، روحانیات، مشرقی روایات، تہذیب و ثقافت، اخلاقی اقدار، خواتین میں طلاق کے بڑھتے رجحانات، پردہ کی اہمیت اور ریپسٹ کی مجبوریوں سے متعلق گاہے بگاہے قوم کو اپنے زریں خیالات سے روشناس کرواتے رہیں اور یوں کھیل ہی کھیل میں بھٹکی ہوئی قوم کی فکری رہنمائی بھی ہوتی رہے گی۔

اب ہم جیسے بد خواہوں کی تو وہ سنتے نہیں، کوئی خیر خواہ ہی ان کو بتا دے کہ ‏وزیر اعظم صاحب؛ وزیراعظم، مفتی اعظم نہیں ہوتا اس لئے براہ کرم وہ ہر قسم کی اخلاقی فتوے بازی سے اجتناب فرمائیں۔

کیونکہ اول تو ان کو ملک کے انتظامی امور اور عوامی مسائل حل کرنے کے لئے وزیراعظم بنایا گیا ہے، عوامی اخلاقیات سدھارنے کے لئے نہیں۔ دوئم عمران خان نے خود جن اخلاقی بنیادوں پر زندگی گزاری ہے وہ ہرگز اس پوزیشن میں نہیں کہ اپنے عہدے کی پہنچ کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے عورتوں کو پردہ، کپڑوں کی لمبائی، فحاشی، طلاقوں یا مردوں کو پاکدامنی پر بھاشن دیں۔ اور ریپسٹس کی ترجمانی کا کام تو خدارا بالکل چھوڑ دیں۔ ہم یہ بالکل بھی نہیں جاننا چاہتے کہ ریپسٹ کی ایسی کیا مجبوریاں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے اس کا یہ گھناؤنا جرم ناگزیر ہو جاتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments