ورچوئل مدرز، مدر ٹریسا اینڈ موسٹ ٹریسنگ مدر سنی لیون


موسٹ ٹریسنگ مدر سنی لیون

خیالات پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ انسانی ذہن میں مختلف اوقات میں مختلف اقسام کے خیالات گردش کرتے رہتے ہیں۔ درانہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے بھی خیالات آتے ہیں کہ انسان سوچنے لگتا ہے کہ کیا وہ اس طرح بھی سوچ سکتا ہے؟ ہر دو نوعیت کے خیالات۔ قابل مدحت بھی اور مذمت بھی۔ کبھی تو انسان اپنے خیالات سے ہی لاتعلقی کا اعلان کر دیتا ہے کہ نہیں میں بھلا ایسے کیسے سوچ سکتا ہوں۔ اور کبھی کسی کے بارے میں بہت کچھ سوچ کر رہ جاتے ہیں۔

ایک دن بیٹھے بٹھائے ذہن میں یہ خیال در آیا کہ اگر کبھی آنجہانی مدر ٹریسا اور محترمہ سنی لیون کی آپس میں کبھی ملاقات ہو جاتی تو کیا ہوتا؟ ان میں ایک خاتون تو قابل احترام مسیحی راہبہ تھیں اور بعد از مرگ واحد خاتون نصف سینٹ کا رتبہ بھی حاصل کیا اور دوسری ایک موجودہ اداکارہ اور سابقہ پورنو اسٹار۔ جن کو اپنے دور میں بہت زیادہ سرچ یا ٹریس کیا جاتا تھا۔ کسی زمانے میں میں سنی لیون دنیا اور بھارت میں مودی جی سے بھی زیادہ مقبول تھیں۔ جب ہم نے یہ سنا تو ہم نے بے ساختہ تبصرہ کیا کہ اگر مودی جی بھی ”ایکس منسٹر“ بن جائیں تو سنی سے زیادہ لوک پریہ ہو سکتے ہیں!

ہو سکتا ہے کہ بعض خواتین و حضرات کو ایک سابقہ پورنو اداکارہ کے ساتھ محترمہ کا لاحقہ نہ بھایا ہو لیکن آپ انسانی جان کی حرمت کا انکار کیسے کر سکتے ہیں؟ ایک انسان کے طور پر وہ یقیناً قابل احترام ”ہیں چاہے آپ انہیں کسی اور ہی“ قابل ”گردانیں۔ اور سنی لیون کی بات نکلی ہے تو ہو سکتا ہے کہ انہیں کتنے ہی اپنی جان سمجھتے رہے ہوں یا اب بھی سمجھتے ہوں؟ ایسی دو بعید المشرقین قسم کی خواتین کی ملاقات کے خیال آنے کا بظاہر کوئی بھی سبب نہیں بنتا یا پھر ایسی ملاقات کی خیال کے کئی اسباب بھی ہو سکتے ہیں : جیسا کہ دونوں خواتین کا بھارت سے تعلق ہونا یا پھر دونوں خواتین کے حقیقی اور مقبول و معروف ناموں کا مختلف ہونا۔

شاید کچھ لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ مدر ٹریسا کا حقیقی نام“ ایگنس گون کابوہیک یو ”ہے اور سنی لیون کا“ کرن جیت کور وہرا ”۔ جب کہ ایک اور سبب ان دونوں خواتین کا“ مجازی مائیں ”ہونا بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ لو جی اب مائیں بھی مجازی ہونے لگیں؟ آپ نے مجازی عشق سنا ہوگا مجازی خدا بھی سنا اور دیکھا بھی ہوگا اور ممکن ہے کی مجازی لباس اور علامہ صاحب کا یہ مشہور مصرع بھی ملاحظہ فرمایا ہو: کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں“ لیکن مجازی ماں۔

شاید پہلی بار سنا ہو! اور وہ بھی شاید ہمیں سے۔ بات دراصل یوں ہے کہ جب ہم نے پڑھا کہ سنی لیون سیروگیسی طریقہ سے ماں بنی ہیں تو ہمارا ہاتف ذہن بزور دہن فوری طور پر چیخا ”مادر مجازی!“ یعنی کہ حد ہو گئی! کمپیوٹر کے دور میں بہت کچھ مجازی ہو گیا ہے لیکن اب تو مائیں بھی مجازی (ورچوئل) ہونے لگیں ہیں۔ کہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آئے۔

مدر ٹریسا کو دیکھا جائے تو وہ قابل تعظیم و تکریم خاتون مزاجا بھی ماں لگتی تھیں اور مجازا بھی۔

ہم نے سوچا کہ اگر ان دو خواتین کے درمیان ملاقات ہوجاتی تو ہمیں یقین ہے کہ نہ صرف سنی لیون ان سے احتراماً ملتیں بلکہ مدر ٹریسا بھی سنی لیون سے ملاقات پر کوئی ایسا تاثر نہ دیتیں کہ ایک عظیم راہبہ اور ایک نیم ولیہ ایک پورنو اسٹار سے سے مل رہی ہے۔ وہ ان سے اتنے ہی احترام سے پیش آتیں جتنا کہ کسی بھی عام انسان سے۔

البتہ مذکورہ آدم زادیوں اور حوا کی بیٹیوں اور مجازی ماؤں کے بارے میں حقیقت یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ دو خواتین آپس میں کس طرح سے ملتی باقی لوگ ان دونوں خواتین سے ملاقات کی صورت میں کیا ردعمل دکھاتے؟ ہمارا خیال ہے کہ کتنے ہی لوگ مدر ٹریسا سے جس احترام سے ملتے وہ احترام سنی لیون کو نہ ملتا۔ پھر چاہے کوئی ان پر کتنا ہی خرچ کرتا رہا ہو یا ان کو کتنا ہی سرچ کرتا رہا ہو۔ ظاہر ہے کہ ان ساری باتوں کے بعد قارئین کے ذہن ‏میں یہ سوال گردش کرے گا کہ اگر ہماری ان خواتین سے ملاقات ہوتی تو ہم کیسا رویہ اختیار کرتے؟

تو صاحبو بات نہایت صاف ہے کہ ہم مدر ٹریسا سے تو یقیناً احترام اور عقیدت سے ملتے ہی اور انہیں دعوت قیام و طعام بھی دیتے۔ لیکن ہم بڑے وضعدار انسان ہیں سو سنی لیون سے ملتے تو انہیں بھی قیام و طعام نہ سہی کم سے کم چائے باقر خانی ضرور پوچھتے۔ البتہ ان کے پسندیدہ ماکولات و مشروبات کا اہتمام ہم سے ممکن نہ ہوتا سو اس کے لیے ہم ان سے کوئی اور میزبان و مہمان خانہ تلاش کرنے کی گزارش ہی کرتے۔ علاوہ ازیں یہ دور سیلفی کا دور ہے سو ہو سکتا ہے کہ ہم ان کو ایک آدھ سیلفی کی اجازت بھی دے دیتے کہ بے شک ہمارے ساتھ محفوظ فاصلے پر کھڑی ہو کر لے لیں۔ اور لوگوں کو دکھاتی اور شیخیاں بگھارتی پھریں کہ کیسے کیسے شوخ و شیوخ ان کے مداحین میں شامل ہیں!

٭٭٭

ہو سکتا ہے کہ ہمارے کچھ بھائی بند ایسے بھی ہوں کہ جن کی نظر میں یہ دونوں خواتین بلا امتیاز جہنمی بھی ہوں۔ کہ ان کے مطابق دونوں ہی کافر و مشرک ہوں گی۔ لیکن شاید ان حضرات کو یہ پتہ نہ ہو کہ قرآنی تعلیمات کی مطابق حضرت عیسیٰ قیامت کی روز اپنی امت کے لوگوں کا فیصلہ خدا پر چھوڑ دیں گے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے کہ، ”اگر آپ ان کو عذاب دیں تو یہ آپ کے ہی بندے ہیں لیکن اگر آپ ان کو بخش دیں تو آپ عزیز حکیم ہیں۔“

اللہ تعالی فرماتے ہیں : ”بے شک ہم نے آدم کی اولاد کو قابل تکریم بنایا ہے۔“ اور ایک دوسری جگہ انسان کو ”احسن تقویم“ بھی قرار دیا گیا ہے۔

ابن انشا صاحب نے کسی کے دریافت کرنے پر بتایا تھا کہ گو وہ سید نہیں ہیں لیکن ان کا سلسلہ ایک نبی سے ضرور ملتا ہے تو مستفسر نے اشتیاق سے پوچھا کس نبی سے تو آپ نے جواب دیا حضرت آدم علیہ السلام سے۔ سو برادران اسلام و غیرہا یہ مجازی مائیں بلا شک مسلمان نہ ہی ہوں لیکن ابن انشا اور ان کے فلسفہ کے مطابق، ان کا سلسلہ نسب حضرت آدم علیہ السلام سے تو ضرور ملتا ہی ہوگا۔ ترقی پسندوں اور رجعت پسندوں دونوں فلاسفہ سے معذرت کے ساتھ آدم و حوا کی اولاد کے طور پر ان خواتین سمیت ہر انسان قابل احترام ہے۔ اگر کوئی مدر ٹریسا کو جہنم میں دیکھنا چاہتا ہو تو شاید وہ یہ سن کر خوش ہو جائے کہ ان کو خدا کے وجود پر شک تھا۔ اور ہو سکتا ہے کہ خدا اس بات پر ان سے ناراض ہو، لیکن وہ فیصلہ خدا کا ہی ہوگا کہ ان کے ساتھ کیا کیا جائے۔

باقی رہے سنی لیون کو سنگسار کرنے کی خواہش کرنے والے حضرات تو پہلا پتھر وہ اٹھائے جس نے انہیں سرچ یا ٹریس نہ کیا ہو۔ اور زیادہ تر جن لوگوں نے ان کو سرچ نہیں کیا ہوگا ان کو نہ تو ان کا پتہ ہوگا اور نہ ہی سروکار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments