بنجر اور زرخیز زمین


یہ کہانی ہے گل خان کی ایک ایسے انسان کی جسے بہتر مستقبل کی تلاش اپنے آبائی علاقے سے دور لے گئی۔ سنہ 1998 میں اپنے گاؤں سے نکلنے والے گل خان کو اس بات کا ذرا بھی علم نہ تھا کہ آیا وہ گاؤں سے نکلنے کے بعد کیا کرے گا نہ اس کے پاس کوئی ہنر تھا نہ کوئی تعلیم۔ مگر خود پہ بھروسا کر کے نکلنے والے گل خان نے نتائج کی فکر کیے بغیر قدم اٹھانا بہتر سمجھا اور رخت سفر باندھ کے نکل پڑھا اور پشاور شہر آ کر تلاش رزق شروع کر دی۔

ابتدا میں گل خان کو پشاور شہر کے ایک مقامی ہوٹل میں کام مل گیا اور دل و جان لگا کر کام کرنے لگا۔ تقریباً 3 سال کے محدود عرصے میں گل خان کو اس کام سے اکتاہٹ ہونے لگی اور ایک دن بغیر بتائے 2003۔ 2004 کے وسط میں دوبارہ رخت سفر باندھ ایک ایسے سفر کی طرف نکلا جس کی منزل کا نہ اسے علم تھا اور نہ ہی کوئی رفیق۔ خود پہ بھروسا کرنے والے گل خان کا سفر اس وقت کے شمالی علاقہ جات کے نام سے جاننے والے خطے میں اختتام پذیر ہوا۔ یاد رہے کہ گلگت بلتستان آرڈیننس 2009 سے قبل موجودہ گلگت بلتستان کو شمالی علاقہ جات کے نام سے لکھا اور پڑھا جاتا رہا ہے۔ گلگت بلتستان کی تاریخ کے اوپر بہت کچھ صحیح و غلط لکھا جاتا رہا ہے اور رہے گا۔ چونکہ فی الوقت ہمارا موضوع تاریخی و سیاسی نہیں لہذا اس موضوع پہ یہاں بات کرنا مناسب نہیں۔

گل خان اب ایک ایسے خطے میں تھا جو کبھی اپنا نہ ہو سکا ہے، ایک انجان شہر میں گل خان نے بہت مشکلات دیکھی مگر کبھی ہمت نہ ہاری۔ چونکہ وہ ان پڑھ اور غیر ہنر مند تھا تو اس کو یہ تشویش ضرور لاحق ہوتی کہ آخر کیسے رزق حلال کمائی جائے۔ چند دنوں کی گہما گہمی کے بعد اس نے ایک چھوٹا سے صندوقچہ بنوا لیا اور اس میں پالش اور برش رکھ کر موچی کا کام شروع کر دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی کمائی میں بہتری ہو رہی تھی جس سے وہ خوش تھا۔

یہ سلسلہ ابھی چند عرصے ہی چلا تھا کہ پونیال روڈ میں گل خان کی ملاقات عبدالمجید سے ہوتی ہے جس کی کراکری کی دکان تھی۔ وقت کے ساتھ دونوں میں دوستی ہے ہو جاتی ہے اور ایک دن عبدالمجید گل خان کو اپنے آبائی گاؤں شیر قلعہ دعوت دیتا ہے کہ ہمارے گاؤں میں کوئی بھی موچی نہیں اگر تم وہاں آ جاو تو تمھاری اچھی کمائی ہو جائے گی۔ ابتدا میں تو گل خان نے منع کر دیا مگر اپنے دوست کے اسرار پہ اس حد تک راضی ہوا کہ صرف گاؤں دیکھنے کی حد تک آئے گا اگر جگہ مناسب لگی تو ضرور کام کرے گا۔ یاد رہے شیر قلعہ ضلع غذر میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا گاؤں ہے۔

شیر قلعہ گلگت سے مغرب کی جانب 40 کلو میٹر کے فاصلے میں واقع ایک گاؤں ہے جس کی آبادی لگ بھگ دس ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔ گل خان اپنے دوست کے ہمراہ گاؤں آ جاتا ہے اور چند دنوں کے اندر کے وہ اس بات کا اندازہ لگا لیتا ہے کہ اس کا کاروبار یہاں بہتر چل سکتا ہے بقول گل خان پورے گاؤں میں کوئی موچی نہیں تھا لہذا اس نے جلد از جلد موجودہ گورنمنٹ بوائز ہائی سکول شیر قلعہ کے پاس اپنے دوست کی مدد سے ایک دکان کرائے پہ لے لی۔

بقول گل خان شروع شروع میں اسے بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر اپنے رب پہ بھروسا اور خود پہ اعتماد تھا جس نے مجھے ثابت قدم رکھا اور وقت کے ساتھ حالات بہتر ہونا شروع ہوئے۔ گل خان کو شیر قلعہ میں لگ بھگ 16 سال سے زائد کا عرصہ ہو رہا ہے اس عرصے میں گل خان نے مقامی زبان پہ عبور کے ساتھ ساتھ لوگوں کا اعتماد بھی حاصل کر لیا ہے اور اس دورانیے میں گل خان کو مقامی سیاست اور طریق کار پہ اتنی دسترس حاصل ہے کہ وہ ان موضوعات پہ سیر حاصل گفتگو کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ آج 16 سال بعد بھی پورے گاؤں میں گل خان ہی واحد موچی ہے۔

مدت کے بعد اپنے آبائی گاؤں شیر قلعہ جانے کا اتفاق ہوا تو اسی نسبت سے گل خان بھائی کے پاس جانے کا اتفاق بھی ہوا۔ چونکہ مقامی باشندہ ہونے کی نسبت سے گل بھائی کے ربط و مراسم قدرے بہتر ہیں تو ان سے مختلف موضوعات پہ بات ہوتی رہتی ہے۔ اپنی کہانی بتاتے بتاتے انہوں نے اچانک ایک ایک ایسے پہلو پہ گفتگو شروع کر دی جس پہ شاید مجھ جیسا پڑھا لکھا نا سمجھ بھی کبھی غور نہ کرے۔ گل بھائی بتاتے ہیں کہ مجھے اس گاؤں میں 16 سال سے زائد کا عرصہ ہو رہا ہے مگر آج تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ اس گاؤں کے لوگ تعلیمی، سماجی اور سیاسی شعور رکھنے کے باوجود اس گاؤں کے لوگ اس گاؤں میں رہتے ہوئے کام نہیں کرنا چاہتے اور نوکری کی تلاش میں باہر رہتے ہوئے اپنی زندگی بسر کر دیتے ہیں اور ہمیشہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں؟

گل بھائی کی اس بات نے گویا مجھے سکتے میں ڈال دیا اور ایک لمحے کے لیے سوچنے پہ مجبور کر دیا کہ اگر وسائل نہ ہوتے تو گل بھائی اتنے عرصے اس گاؤں تک ہی محدود کیوں ہوتے اور ان جیسے ہزاروں لوگ باہر سے آ کے گلگت میں مقیم کیوں ہوتے؟ تب میرے ذہن میں نواز خان ناجیؔ کے الفاظ گردش کرنے لگا کہ ”گلگت بلتستان کی سر زمین ہمیشہ اپنوں کے لیے بنجر اور غیروں کے لیے زرخیز رہی ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments