مودی سرکار کا افغان طالبان و جنگجو ملیشیاؤں سے رابطے


انسداد دہشت گردی اور تنازعات کے حل کے لیے ثالثی سے متعلق قطر کے خصوصی ایلچی مطلق بن ماجد القحطانی نے ویب کانفرنس کے دوران کہا کہ ”بھارت کے وفد نے خاموشی کے ساتھ قطر کا دورہ کیا، جس کا مقصد دوحہ میں موجود (افغان) طالبان کی سیاسی قیادت سے ملاقات کرنا تھا“ ۔ بھارت، افغان طالبان قیادت سے رابطے کی متعدد کوشش کرچکا، تاہم ملاقاتوں کے حوالے سے باقاعدہ تصدیق دونوں فریقین کی جانب سے نہیں کی گئی، زلمے خلیل زاد نے بھارتی اخبار ’دی ہندو‘ کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارت کو افغان طالبان سے براہ راست رابطہ کرنا چاہیے ’یہ پہلا موقع تھا جب کسی امریکی اہلکار نے بات چیت کرنے کی باقاعدہ پیشکش کی تھی، ماسکو کانفرنس میں بھارتی وفد نے بھی شرکت کی تو دوحہ اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ ایس کے جے شنکر بھی شریک ہوئے۔

صدر جو بائیڈن نے استنبول پراسس کانفرنس میں بھارت کا نام شامل کروایا، سابق صدر ٹرمپ نے بھارت کو افغانستان میں فوجی کردار کے لئے کہا، ستمبر 2017 میں بھارتی وزیر دفاع نرمالا سیتھارامن نے امریکی ہم منصب جیمز میٹس کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کسی صورت میں اپنی فوج کو افغانستان نہیں بھیجے گا البتہ افغان فورسز کی تربیت جاری رکھے گا۔ افغان طالبان نے ایک موقع پر بھارت کو اپنے ایک بیان میں انتباہ بھی جاری کیا تھا کہ وہ (را ایجنسی) اور این ڈی ایس نہتے افغان عوام پر حملوں سے باز آ جائے، خیال رہے کہ بھارت روز اول سے ہی کابل انتظامیہ کے ساتھ افغان طالبان کے خلاف جارحانہ کارروائیوں میں شامل رہا ہے۔

افغانستان میں بدلتی صورت حال کے بعد واضح ہونے لگا ہے کہ امریکہ و نیٹو انخلا کے بعد افغان طالبان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جلد یا بدیر وہ اپنی سرزمین پر دیگر گروپوں کے مقابلے میں ایک مضبوط و سرگرم قوت بن کر ایک بڑے حصے پر حکمراں ہوسکتے ہیں، امریکہ نے افغان امن عمل کے لئے اسٹیئرنگ بھارت کو دینے کی کوشش کی تھی، لیکن بھارت جانتا تھا کہ اس کے تعلقات افغان طالبان مخالف دھڑوں و انتظامیہ سے ہے، دوسری طرف یہ ڈر بھی رہتا ہے کہ افغان حکمراں، مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کے لئے ہندو انتہا پسند حکومت کے خلاف افغان بادشاہوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھارت پر دوبارہ حملہ آور نہ ہوں جائیں، انہیں دور جدید کے نئے محمود غزنوی، علا الدین خلیجی، شیر شاہ سوری اور شہاب الدین غوری سے خوف لاحق ہے، اس لئے بھارت، افغان طالبان سے روابط بڑھانے کے لئے بیک ڈور ڈپلومیسی کا استعمال کر رہا ہے، لیکن دوسری جانب امن مخالف قوتوں کو بھاری فنڈنگ و سازشوں میں بھی مصروف ہے، ہندو انتہا پسند مودی سرکار کو عالمی ذرائع ابلاغ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شیر محمد عباس ستانکزئی نے متنبہ کرتے ہوئے کہہ چکے کہ ”انڈیا اگر اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے تو مذاکرات ہو سکتے ہیں“ ، لیکن ہندو انتہا پسند حکومت کی روش بتاتی ہے کہ وہ سیکڑوں برس سے پرورش کرنے والی آر ایس ایس کی ہندو انتہا پسند سوچ و مذموم مقاصد میں تبدیلی پیدا نہیں کرنا چاہتی۔

وزیراعظم عمران خان نے غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں دو ٹوک موقف کا اظہار کرتے ہوئے، امریکہ پر واضح کر دیا کہ اس کی دہری پالیسی اب پاکستان کے لئے قابل قبول نہیں، ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر لنزے گراہم کا حالیہ بیان انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس میں انہوں نے صدر بائیڈن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حیرت ہے کہ ابھی تک امریکی صدر نے وزیراعظم سے پاک۔ امریکہ تعلقات پر رابطہ نہیں کیا، امریکی سینیٹر نے پاکستان سے رابطہ کیے بغیر افغانستان سے انخلا کو عراق میں امریکی آپریشن سے بڑی غلطی بھی قرار دیا۔

واضح رہے کہ امریکی افواج کے انخلا کا 60 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور دنیا کا سب سے بڑا اور بھاری سامان لے جانے والا کارگو ہوائی جہاز انتونو این 225 افغانستان کے دارالحکومت کابل سے مزید بھاری جنگی ساز و سامان لے کر افغانستان سے روانہ ہو چکا۔ آن لائن کانفرنس ”امریکہ نیٹو افواج کی واپسی کے بعد افغانستان میں امن کی صورت حال“ کے عنوان سے واشنگٹن میں ’عرب سینیٹر‘ اور ’سینیٹر فار کنفلٹ اینڈ ہیومینٹرین اسٹڈیز‘ کے زیر اہتمام منعقد ہوئی، امریکی صدر کا وزیر اعظم عمران خان کو دورے کی دعوت نہ دینے پر ضروری ہو گیا تھا کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے پاکستان کا موقف دنیا کے سامنے لایا جائے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا ء جلد ہی مکمل ہو جائے گا لیکن امریکہ کا مسئلے کو ادھورا چھوڑ کر جانا، خطے کے دیگر ممالک کے لئے شدید پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔

اطلاعات کے مطابق افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کے انخلا سے قبل مسلح جنگجو ملیشیاؤں نے خانہ جنگی کی تیاریاں شروع کردی ہیں، ذرائع کے مطابق بھارت نے افغان طالبان مخالف جنگجو گروپوں سے رابطے بڑھا دیے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ بھارت یہ رابطے امریکی خواہش پر بڑھا رہا ہے، افغانستان میں بھارت کے منفی کردار پر پاکستان پہلے بھی تحفظات کا اظہار کرچکا ہے، خطے میں قیام امن کی کوششوں کے جواب میں ایک مرتبہ پھر ملک کو دہشت گردی کے عفریت کا شکار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، گزشتہ روز جوہر ٹاؤن لاہور میں دہشت گردی کا افسوس ناک واقعہ، وزیراعظم کا بیان، بھارت کے جنگجوؤں سے رابطے اور امریکی صدر کی جانب سے عمران خان سے رابطہ نہ کرنے سے جوڑا جائے، تو عالمی اسٹیبلشمنٹ کا کھیل کھل کر سامنے آتا ہے کہ پاکستان پر بدترین دباؤ ڈالا جا رہا ہے تاکہ ان کے ناجائز مطالبات کو من و عن مانا جائے، وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل صائب ہے کہ جب ’امریکہ افغانستان میں 20 برس رہنے کے باوجود کامیاب نہیں ہوسکا تو ایک دو فضائی اڈوں سے کیونکر کامیاب ہو سکتا ہے‘ ، لہذا سمجھا جا سکتا ہے کہ امریکی مقصد امن کا قیام نہیں بلکہ انتشار و خلفشار پیدا کرنا ہے۔

ریاستی اداروں کو ملک دشمن عناصر کی مذموم کارروائیوں پر مزید گہری نظر رکھنا ہوگی۔ انتہا پسند نہیں چاہتے کہ پاکستان و افغانستان میں امن ہو، کیونکہ امن ہی معیشت کو مضبوط کرتا ہے، اگر بے امنی کا بھیانک دور واپس آئے گا تو بدحال معیشت کو تباہی اور ابتر ہونے سے بچانا مزید مشکل ہو جائے گا۔ بھارت کے افغانستان میں موجود امن مخالف جنگجو ملیشیا گروپوں سے رابطے و فنڈنگ کرنا تشویش ناک ہے، افغان طالبان سے توقع ہے کہ وہ عیار و مسلم دشمن ممالک و عناصر کی سازشوں سے ہوشیار اور مکار دشمنوں پر اعتماد سے گریز کریں گے۔ کیونکہ یہی سب کے حق میں بہتر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments