بجٹ 2021 عام آدمی اور کاروبار پر اثرات


ویسے تو پاکستان میں بجٹ کے بعد کئی دفعہ منی بجٹ آتے رہتے ہیں۔ اور ایک مد کے لئے مختص رقم وہاں سے اٹھا کر کسی اور مد میں خرچ کر دی جاتی ہے جیسا کہ شہباز شریف دور میں پیش کیے گئے صوبائی بجٹ میں جنوبی پنجاب کی ڈویلپمنٹ کے لئے خطیر رقم رکھی جاتی رہی مگر بعد میں یہ رقم وہاں سے اٹھا کر کبھی میٹرو پر اور کبھی لاہور کے انڈر پاسز پر خرچ کر دی جاتی رہی۔ دو ہزار اکیس کے مالی سال کا بجٹ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا تیسرا بجٹ ہے۔

اس بجٹ کے اختتام پر حکومت اپنے پانچ میں سے چار سال پورے کر چکی ہو گی اس لئے بجا طور پر امید کی گئی تھی کہ اس بجٹ کو ترقیاتی بجٹ کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ حسب توقع وفاقی ترقیاتی پروگرام میں چالیس فی صد اضافہ کر کے اسے نو سو ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم ماضی میں ایم این ایز کو ترقیاتی کاموں کے لئے دیے جانے والے فنڈز کو رشوت کہتے رہے ہیں مگر حکومت میں آتے ہی ان پر کئی سیاسی حقیقتوں کا ادراک ہوا ہے۔

اس وجہ سے وہ یو ٹرن لینے کی پالیسی کا بھی دفاع کر چکے ہیں اور بجٹ پیش کرنے سے پہلے جہانگیر ترین کے طاقتور گروپ کو راضی کرتے ہوئے ان کو کلین چٹ دے دی گئی ہے اور اب مخالفین جو بجٹ کی منظوری کے موقع پر کسی کھڑاک کی امید لگائے بیٹھے تھے وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ہوں گے۔ ترقیاتی بجٹ میں اس قدر اضافے سے ہم اب بھرپور ترقیاتی کام ہوتے دیکھیں گے جو ایم این اے ایم پی ایز اور جہاں حکومتی نمائندے نہیں ہیں وہاں ہارے ہوئے امیدواروں کی مرضی سے ہوں گے۔

ایک بات خوش آئند ہے کہ جہاں مسلم لیگ نون کا فوکس صرف چند شہروں تک تھا تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں جنوبی پنجاب اور دوسرے پسماندہ علاقوں میں کافی فنڈز لگنا شروع ہوئے ہیں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے دوران اس سے وابستہ کاروبار بھی پھلیں پھولیں گے جیسے سیمنٹ بجری، لوہے، اینٹوں کے کاروبار میں یقینی تیزی آئے گی۔ دیہاتوں میں روڈز کی مرمت اور نئے روڈوں کی تعمیر سے کسانوں کو فائدہ پہنچے گا اس طرح بجلی اور سوئی گیس سے محروم کچھ دور دراز کے علاقے بھی ان سہولیات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

اس طرح ایکسپورٹرز اور بڑے کاروبار سے وابستہ مضبوط لابیوں نے ہمیشہ کی طرح بجلی کے ریٹس میں سبسڈی سمیت اپنے لئے کئی مراعات حاصل کر لیں ہیں۔ بڑا تاجر اس بجٹ سے مطمئن نظر آتا ہے مگر چھوٹے کاروبار سے وابستہ طبقہ کو یہ مراعات نہیں مل سکیں اور وہ سخت مایوس ہیں مثلاً فیصل آباد کی پاور لوم انڈسٹری جو کافی عرصے سے مشکلات کا شکار رہی ہے۔ بجلی کے بلوں میں کمی ان کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے مگر ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔

ہمیشہ کی طرح پاکستان کے ٹوٹل بجٹ کا پچپن فی صد کے قریب حصہ پرانے قرضوں کو چکانے اور دفاع پر لگ جائے گا۔ مگر حکومت تمام تر دعووں کے باوجود ابھی تک نئے قرضے بڑی فراخ دلی سے حاصل کر رہی ہے۔ حکومت کی بڑی خوش قسمتی رہی ہے کہ کرونا نے یہاں کوئی تباہی نہیں مچائی اور ناکافی حکومتی اقدامات کے باوجود کرونا کی تیسری لہر ختم ہو چکی ہے اور کاروبار دوبارہ سے کھلے ہوئے ہیں کرونا ویکسین خریدنے کے لئے ایک ارب ڈالر سے زائد کی رقم رکھی گئی ہے۔

جتنی زیادہ ویکسین لگے گی لاک ڈاؤن ختم رہیں گے اتنا کاروبار کو فائدہ ہو گا اور لوگوں کی آمدن میں اضافہ ہو گا۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اس سے بھی کاروبار پر مثبت اثر پڑے گا۔ مزدور کی کم از کم اجرت بڑھا کر بیس ہزار کی گئی ہے مگر اس پر عمل درآمد کی بھی ضرورت ہے۔ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کالز پر پہلے ٹیکس لگایا گیا تھا مگر پھر واپس لے لیا گیا۔ کسانوں کے لئے زرعی آلات پر ٹیکسوں میں کمی خوش آئند ہے اس سے کسان نئی زرعی مشینری خرید کر اپنی فی ایکڑ پیداوار بڑھا سکے گا مگر زرعی بجلی کے استعمال پر ٹارگٹڈ سبسڈی کی ضرورت ہے خاص کر ایسے علاقے جہاں پر نہری پانی دستیاب نہیں ہے اور کسان ڈیپ ویل کے ذریعے پانی نکال کر فصلوں کو لگاتا ہے وہاں پر بجلی کے فلیٹ ریٹ لاگو کرنے کئی اشد ضرورت ہے۔

احساس پروگرام کے تحت غریب طبقہ کی امداد کے لئے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ مائکرو فنانسنگ کے تحت پانچ لاکھ تک کے بلا سود قرضوں کا اعلان کیا گیا ہے جو نوجوانوں کے لئے بہت فائدہ مند ہوگا۔ اس طرح چھوٹی گاڑیوں میں ٹیکسز اور ڈیوٹی کی مد میں کمی کی گئی ہے اور اب نچلے طبقہ سے کئی لوگ اپنی ذاتی گاڑی رکھنے کا خواب شاید پورا کر سکیں۔ تاہم ریونیو ٹارگٹ بڑھا دیا گیا ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے ان ڈائریکٹ ٹیکسز کا بوجھ عام آدمی پر پڑنے کا امکان ہے۔

اس دفعہ بجٹ تقاریر کے دوران پارلیمان میں سخت ہنگامہ آرائی بپا کی گئی۔ اپوزیشن لیڈر کو خطاب کرنے سے روکا گیا لگتا ہے حکومت جس کی ذمہ داری ہے کہ پارلیمانی روایات کو قائم رکھا جائے وہی جارحانہ موڈ میں نظر آئی۔ کئی سینئر تجزیہ نگاروں کے مطابق حکومت نے ایک دفعہ پھر اپنی سیاسی نابالغ پن کا ثبوت دیا۔ ایک نسبتاً متوازن بجٹ پیش کر کے حکومت نے اپوزیشن پر جو سیاسی برتری حاصل کی تھی وہ اس ہنگامہ آرائی میں کھو دی۔ اور جمہوریت مخالف لابی کو پارلیمانی نظام پر انگلی اٹھانے کا جواز مہیا کیا گیا۔ اب دیکھیں الیکشن کے قریب تر ہوتی حکومت عام آدمی کو کیسے مہنگائی سے بچا پاتی ہے اور وہ گڈ ول جو پچھلے تین سال نہیں بنا پائی وہ ان دو سالوں میں عوام کا اعتماد کیسے حاصل کر پاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments